
منور رانا کی کہانی میڈیا کی زبانی ، پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
عبدالعزیز
منور رانا رائے بریلی کے رہنے والے ہیں مگر زندگی کے زیادہ لمحات کلکتہ میں گزارے۔ کلکتہ ہی سے انھیں شہرت ملی۔ ان کا شمار ملک کے مقبول شاعروں میں ہونے لگا۔ کلکتہ کو نہ وہ بھولے اور نہ کلکتہ والوں نے انھیں کبھی غیر سمجھا۔ اس وقت اردو دنیا میں ان کا چرچا عجیب و غریب طریقہ سے ہورہا ہے۔ کلکتہ کی اردو آبادی میں ان کی ایسی تصویر پیش کی جارہی ہے جیسے بشیر بدر کی پیش کی جارہی تھی جب وہ سنگھ پریوار کے ہوگئے۔ منور رانا بھی سنگھ پریوار کے آفیشیل ممبر تو نہیں بنے مگر ان کی گفتگو اور بات چیت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مودی پریوار کے شیدائی ضرور ہوگئے۔ مودی نے ان کو گھاس نہیں ڈالی مگر وہ مودی کو اپنا چہرہ انور دکھانے کیلئے بیتاب ضرور نظر آنے لگے۔ آر ایس ایس کے ترجمان ٹی وی چینلوں پر منور رانا کی طرفداری میں بھی پیش پیش ہوگئے ہیں۔ منور رانا کی یہ نئی شکل و صورت کلکتہ سے اردو داں کیلئے یقیناًبشیر بدر سے بھی زیادہ بدشکل اور بد صورت نظر آرہی ہے۔ سوشل میڈیا میں ان کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے اس سے بھی کلکتہ والوں کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک صحافی جو لکھنؤ کے رہنے والے ہیں انھوں نے منور رانا پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک کہانی جو کلکتہ سے تعلق رکھتی ہے سوشل میڈیا میں بیان کی ہے جو میڈیا میں گردش کر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ کلکتہ میں رہتے تھے، ہاکی کے بہت اچھے اور ہونہار کھلاڑی تھے۔ لکھنؤ میں ان سے کسی نے پوچھا کہ ’’کلکتہ میں آپ رہتے تھے ، وہاں فٹ بال کے لوگ شائقین تھے اور فٹ بال کا کھیل عام طور پر مقبول سمجھا جاتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے مگر آپ ہاکی کے کھلاڑی کیسے ہوگئے ہیں؟ ‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’کلکتہ میں ان کے ایک دادا جان رہتے تھے، ان سے ان کو بڑا لگاؤ تھا۔ ایک دن وہ دھرمتلہ میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے ۔ جب بریک ہوا تو دادا جان نے میری بڑی تعریف کی جس سے میرا حوصلہ بڑھ گیا لیکن جب کھیل ختم ہوا تو دادا جان نے مجھ سے کہاکہ میاں تم کس ٹیم کی طرف سے کھیل رہے تھے، سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ سننا تھا کہ میرا دل بیٹھ گیا اور اس دن سے فٹ بال کھیلنا ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا‘‘۔ ’’یہی حال منور رانا کا ہے۔ وہ کس طرف سے کب کیا کر رہے ہیں، کہنا مشکل ہے‘‘۔
مذکورہ صحافی کی بات میرے خیال سے ایک طرح سے درست ہے مگر پورے طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ جب لوگوں نے ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ واپس کرنا شروع کیا تو منور رانا نے جو بیان دیا تھا اس سے بالکل ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بھاجپا کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ انھوں نے بیان میں کہا تھا کہ ادیب اور شاعر جو تھک گئے ہیں یا بوڑھے ہوگئے ہیں وہی ایوارڈ واپس کر رہے ہیں۔منور رانا یا ان کے پس پردہ جو دماغ کام کر رہا تھا اس نے دیکھا کہ منور رانا کا بیان بی جے پی یا آر ایس ایس کے کام نہیں آیا تو ’’جواں سال منور رانا نے بڑے طمطراق سے اپنا ایوارڈ واپس کیا۔ مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ کچھ اشعار پڑھے اور مسلمانوں کو بجا طور پر محب وطن بتایا۔ اپنے ایک شعر کے ذریعہ ایسے لوگوں کو نامرد بتایا جو ملک میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہیں اور مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کر رہے ہیں۔
چند ہی دن گزرے تھے کہ یہی مرد نہ جانے کیوں نامرد ہوگیا۔ مودی جی کا جوتا بھی اٹھانے کیلئے تیار ہوگیا۔ ایوارڈ واپس کرنے کی بات کرنے لگا۔ مودی کو بڑا بھائی اور اپنے کو زبردستی مودی کا چھوٹا بھائی قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
کشمیر کے مشہور ادیب غلام نبی خیال سے دو روز پہلے ٹی وی چینل پر پوچھا گیا کہ کیا وہ ایوارڈ واپس کرنے جارہے ہیں؟ اس پر انھوں نے کہاکہ ’’میں منور رانا نہیں ہوں ، جس بنیاد پر ایوارڈ واپس کیا گیا تھا اور جن حالات میں واپس کیا گیا تھا وہ حالات پہلے سے بدتر ہیں اور وہ بنیاد یا وجہ باقی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو کتے کا پلّاکہا گیا۔ اب دلتوں کو کتا کہا جارہا ہے۔ منور رانا نے تو مودی کو بڑا بھائی تک بنا لیا مگر مودی نے انھیں چھوٹا بھائی نہیں بنایا اور نہ بنانے کا اعلان کیا اور نہ ہی جوتا اٹھانے یا جوتی سیدھی کرنے کی بات کہی مگر وہ جوتا اٹھانے اور سیدھی کرنے پر بھی آمادہ ہیں۔ مودی نے انھیں گھاس نہیں ڈالی اور نہ ملاقات کا نیوتا بھیجا۔ سوشل میڈیا میں چھوٹے بھائی کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے منور رانا سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ ’’سگ باش برادر خورد نہ باش‘‘ یعنی ’کتا بن جاؤ مگر چھوٹا بھائی نہ بنو‘۔
یہ شیخ سعدیؒ کا قول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹا بھائی کو بڑے بھائی کا ہر چھوٹا بڑا حکم ماننا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے منور رانا جب مودی کے برادر خورد (چھوٹا بھائی) بن جائیں گے تو انھیں بھی شہنواز، نقوی اور اکبر بننا پڑے گا۔ دادری کے اخلاق کے قتل کی حمایت کرنی پڑے گی۔ دلتوں کو کتا اور مسلمانوں کو کتے کا پلا کہنے والے بڑے بھائی کی حمایت میں شعر و شاعری کرنی پڑے گی۔ بدقسمتی سے ایسے بھی تبصرے منور رانا کے سلسلے میں آئے ہیں جو ادب و تہذیب سے گرے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’نقل کفر نہ کفر باشد‘‘۔ اس لئے نقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک صاحب نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے: ’’میں ایوارڈ واپس کرنے کیلئے یا مودی کا جوتا اٹھانے یا جوتی سیدھی کرنے کیلئے تیار ہوں کیونکہ مجھے اپنی بیوی کے بیوہ ہونے کا ڈر ہے‘‘۔
کل جو منور رانا کو سرپر اٹھاتے تھے آج وہی انھیں اپنی نظروں سے گرا دیا۔ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے بھوپال کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں ہم چند دوست اسکول کے پرنسپل سے ملاقات کیلئے گئے تھے۔ پرنسپل نے ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صاحبہ ہمارے اسکول کی ٹیچر ہیں۔ ہم لوگوں کو بڑی خوشی ہوئی ۔آج بشیر بدر کی جو بدنامی بھاجپا میں شمولیت کی وجہ سے عروج پر ہے پرنسپل صاحبہ اب نہ ہمت کریں گی یہ بتانے کی کہ یہ بشیر بدر کی بیوی ہیں اور نہ ہی بیوی صاحبہ اپنے اندر یہ حوصلہ پائیں گی کہ وہ اپنے آپ کو بشیربدر کی بیوی کہنے میں خوشی اور مسرت محسوس کرسکیں۔ شاعر یا ادیب کا کردار اس کی تخلیق کو بلند کرنے یا پست کرنے میں بڑا رول ادا کرتا ہے۔ بشیر بدر کے وہ اشعار جو انھیں بڑا یا عظیم بنانے میں بڑا کردار ادا کرتے تھے وہ اچھا اور بلند ہونے کے باوجود لوگوں کو سننے یا پڑھنے میں بے مزہ ہوسکتا ہے بے معنی معلوم ہوں گے۔
کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے مگر جب درخت اپنی شادابی کھو دیتا ہے تو پھل پھول سے محروم ہوجاتا ہے پھرلوگ اسے کاٹ کر جلانے یا دوسرے کاموں میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ شاعر یا ادیب جب حق و صداقت کی آواز سے محروم ہوجاتا ہے۔ جبر وظلم کا ساتھی ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ وہ بشیر بدر اور منور رانا ہوجاتا ہے۔ منور رانا کل تک کلکتہ والوں کی آنکھ کے تارا تھے۔ آج بے چارہ ہو گئے بلکہ بدنام زمانہ ہوگئے۔ لوگ انھیں ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ آج وہ کلکتہ والوں کیلئے ’’یوسف بے کارواں‘‘ کے مانند ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے بایاں بازو کی حکومت کے ایک وزیر کلیم الدین شمس مرحوم دو یا تین سال پہلے انتقال کر گئے۔ ان کا تعزیتی جلسہ تھا۔ منور رانا کو تعزیتی جلسہ میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے معذرت کی کہ وہ اپنی دوسری مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہوسکیں گے مگر انھوں نے ایک رباعی کہی اور کہاکہ اسے تعزیتی جلسہ میں ضرور پڑھ دیجئے گا
انسان تھے کبھی مگر اب خاک ہوگئے ۔۔۔لے اے زمین اب ہم تیری خوراک ہوگئے
رکھیں گے ہم کو چاہنے والے سنبھال کے ۔۔۔ہم ننھے روزہ دار کے مسواک ہوگئے
منور رانا نے ایسی رباعیاں اور کہی ہوں گی مگر مرنے والے کو یاد کرنے والے اکثر خود کو بھول جاتے ہیں۔ عام طور پر شاعر تو اور بھی یاد نہیں رکھتا۔ شاید اردو کے اکثر ادیب و شاعر کے چلن کو دیکھ کر ہی حالی نے کہا ہوگا
یہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔۔۔ عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔۔۔ ملائک جس سے شرماتے ہیں آسمان پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا
وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا