خلیج کا بحران اور صدام حسین کے ام الحرب کا نظریہ .!

daish

عمر فراہی
9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے تقریباً ایک مہینہ تک بات چیت کے ذریعے طالبان سے مصالحت کی کوشس کی تھی کہ وہ  بن لادن کو اس کے حوالے کردیں ورنہ سزا بھگتنے کیلئے تیار رہیں -مگر پیرس میں ہوئ تخریبی کاروائی کے بعد فرانسیسی حکومت نے تیسرے دن سے ہی شام میں اسلامک اسٹیٹ کے علاقوں پر یہ جانے بغیر بمباری کرنا شروع کر دیا کہ داعش کی جس ویب ساںُٹ سے اس پر حملے کی ذمداری قبول کی گئ ہے وہ اصلی ہے یا نقلی- جبکہ Isis کے نام سے ایسی بےشمار ویب ساںُٹ کو دنیا کی خفیہ ایجنسیاں ہر روز منسوخ کرتے رہتی ہیں اور ان کی اصلییت کا اندازہ بھی اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ ایک عرصے تک اس کے مواد اور ان سے روابط رکھنے والوں پر نظر رکھی جاےُ – فرانس کی اسی عجلت میں کی گئ کاروائی سے یہ شک ہوتا کہ یا تو یہ خود فرانس کا طںُے شدہ منصوبہ تھا یا  داعش مخالف طاقتوں نے فرانس کو اس جنگ میں پوری طرح گھسیٹنے کی کوشس کی ہے -یہ بات ہم اس لیُے کہ رہے ہیں کیوں کہ جس ویب ساںُٹ کے ذریعے داعش نے اس حملے کی ذمداری قبول کی ہے اکثر ایسی ویب ساںُٹوں کو جانچنے اور پرکھنے میں خفیہ ایجنسیاں بھی غلطی کر بیٹھتی ہیں اور خود القاںُدہ طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کی روایت بھی نہیں رہی ہے کہ وہ ایسی دہشت گردانہ کاروائی کی مذمت یا تردید میں اپنا وقت ضاںُع کریں-جیسا کہ انڈین ایکسپریس نے نیویارک ٹاںُمس کے حوالے سے 19نومبر کے اپنے عالمی صفحے پر یہ خبر شاںُع کی ہے کہ  سن فرانسسکو کی ایجنسی نے ایک لڑکی کا فیس بک اکاونٹ اس لیُے منسوخ کر دیا کیوں کہ اس کا نام ISIS ANCHALEE آئسیس انچلی تھا -ڈھائی سے تین مینہ پہلے یہ خبر بھی سارے اخبارات میں آچکی ہے کہ امریکہ کی ایجنسی نے فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک 20 سال کے یہودی نوجوان جوشواراںُنے گولڈ برگ  کو گرفتار کیا تھا جو شوسل نیٹ ورکنگ ساںُٹ پر داعش کے نام سے نقلی ویب ساںُٹ کے ذریعے امریکہ اور آسٹریلیا کے مسلم نوجوانوں کو جہاد کیلئے راغب کرتا رہا ہےاور نیٹ کے ذریعے ہی وہ بم بنانے کی ترکیب بھی بتایا کرتا تھا-یہ نوجوان کون تھا اور  کسی ملک کیلئے تو ضرور کام کرتا رہا ہوگا  اس کا خلاصہ تو نہیں ہوسکا لیکن اس معاملے میں  دنیا کی سرکاری ایجنسیوں کی مشتبہ تخریبی کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو خود بھی اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے پیرس, بیسلان 26/11 اور 9/11 جیسی دہشت گردانہ کارروائ انجام دیتی رپی ہیں  – خاص طور سے روس اور اسرائیل جنھیں اپنے اپنے ملکوں میں چچن اور فلسطینی مجاہدین سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہا ہے ان کی ایجنسیاں اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کیلئے ایسی کاروائی کیلںُے مشہور رہی ہیں -اس وقت مشرق وسطیٰ میں چونکہ ایران اسرائیل شام اور روس کا مشترکہ مفاد خطرے میں پڑا ہے اور جیسا کہ روس ایران اور شام کی حمایت میں کھل کر میدان میں آ بھی چکا ہے-اور انہیں یہ جنگ مہنگی بھی پڑ رہی ہے اس لیُے یہ ممکن ہے کہ اس دہشت گردانہ کاروائی میں روس اور اسرائیل نے حزب اللہ کا استعمال کیا ہو تاکہ فرانس کو اس جنگ میں اپنے اتحاد میں شامل ہونے کیلئے مجبور کیا جاسکے – یہ بھی دھیان رہے کہ یوروپ میں  فرانس ایک ایسا ملک رہا ہے جہاں اسلام مخالف جذبات میں شدت  پائ جاتی  رہی  ہے اور اسی ملک سے اخبار چارلی ہیبدون  اسلام کے خلاف گستاخانہ کارٹون شاںُع کرکے مسلمانوں کی دل آذاری کرتا رہا ہے- حقیقت چاہے جو کچھ بھی ہو خود   فرانس پہلے ہی سے شام میں اپنے جنگی ساز وسامان اور ہتھیار کے ساتھ موجود تھا اور اسے صرف اپنے حملے میں تیزی لانی تھی -بظاہر فرانس کی طرف سے یہ حملہ پیرس میں ہوئی تخریبی کاروائی کے ردعمل میں کیا جارہا ہے جبکہ مشرق وسطیٰ میں فرانس کی اس کاروائی کا  سلسلہ پیرس پر ہونے والی تخریبی کاروائی سے پہلے ہی ایک ایسے وقت سے ہی شروع  ہے جب داعش کا وجود بھی نہیں تھا- فرانس نے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر   2011 کی عرب شورس کے بعد لیبیا کو اس کے باوجود بمباری کرکے تباہ کر دیا جبکہ کرنل قذافی نے مغرب کے تعلق سے اپنے سخت رویے میں تبدیلی پیدا کر لی تھی اور 2012 میں لیبیا کی بغاوت سے  کچھ عرصہ قبل ہی وہ فرانس کے دورے پر گںُے جہاں نہ صرف ان کا پرجوش شاہانہ اور والہانہ  استقبال ہوا قذافی کو  فرانس کے صدر نیکولس سرکوزی کے خصوصی مہمان کا شرف بھی حاصل رہا ہے  -کہا جاتا ہے کہ  اسلام دشمن طاقتوں نے عالم اسلام میں کبھی بھی مسلمانوں کی کسی بھی طاقتور حکومت قیادت یا تنظیم کو ابھرنے نہیں دیا ہے اور کوئ نہ کوئ بہانہ بنا کر اسے تباہ کر نے کی کوشس کی ہے -مگر یہ بات کیا مسلمانوں کی ذی ہوش قیادت اور سواداعظم کو بھی سمجھ میں آتی ہے-اس میں کوئ شک نہیں کہ داعش اپنے سخت گیر نظریات کی وجہ سے عالم اسلام کی حمایت سے محروم ہے اور مسلمانوں کے  تمام گروہ اپنے مسلکی اختلاف کو مٹاکر غیر مسلم دنیا کے ساتھ داعش کے متحد ہیں – مگر کیا اسلام دشمن طاقتوں کو بھی مصر  برما اور فلسطین میں ہو رہے مظالم پر  مسلمانوں کے جذبات کا خیال ہے – سچ تو یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی نڈر اور بے باک قیادت کے تعلق سے ان  کا اپنا نظریہ  شروع سے ہی جارہانہ رہا  ہے اور وہ کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ مسلمان یا مسلمانوں کی کوئ ملیشیا یا  حکمراں انہیں آنکھ دکھائے داعش کے ساتھ یہی ہو رہا ہے اور قذافی کو بھی  اسی جراُت کی سزا دی گئ-شاید ہم یہ بھی بھول گئے کہ 9/11 کے بعد جبکہ ورلڈ ٹریڑ سینٹر پر حملے کی ذمداری القاعدہ یا طالبان کسی نے بھی قبول نہیں کی تھی پھر بھی نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا نیز عراق پر بھی  کسی زاویے سے بھی حملے کا جواز نہیں تھا عام تباہی کے ہتھیار کا جواز ڈھونڈھ کر عراق کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا گیا – کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر طالبان نے بن لادن کو امریکہ کے   حوالے کر دیا ہوتا تو افغانستان اور عراق کی جنگ کو ٹالا جاسکتا تھا- مگر ان لوگوں کو نہیں معلوم  کہ صہیونیت کے عزاںُم کیا ہیں اور اس کے شکنجے میں قید امریکہ کے لیُے 9//11 سے بھی عظیم حادثہ افغانستان میں خلافت کا قیام تھا اور ممکن تھا کہ یہ چنگاری بڑھتے بڑھتے عرب مماک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی – افغانستان کی اس اسلامی بیداری سے خود اسرائیل کے ساتھ ساتھ عرب کے حکمراں بھی خوفزدہ رہے ہیں -جیسا کہ 2012 میں عرب کے حکمرانوں نے اسی خوف کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ مل کر اخوانی حکومت کا خاتمہ کیا جبکہ وجہ کچھ بھی نہیں تھی اور اخوان کہیں پر بھی کسی طرح کی تخریبی کاروائی میں ملوث بھی نہیں تھے مگر افغانستان اور عراق کی طرح مصر میں بھی وجہ تخلیق کر لی گںُی –   خلیج کی دوسری جنگ کے بعد جب  عراق پر معاشی پابندی لگی اور صدام حسین نے خلیج کی  تیسری جنگ میں  یہ محسوس کیا کہ اب ان کی حکومت نہیں رہنے والی اور کچھ انہی کے ایران نواز فوجی جنرل غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے وفادار فوجیوں کو مستقبل کی جنگ کا منصوبہ دے کر القاںُدہ کے ساتھ ضم ہونے کے لیُے آذاد کر دیا اور یہ پیشن گوئ صدام حسین نے ہی کی تھی کہ عراق کی یہ جنگ اب اس خطے کیلئے  ام الحرب ثابت ہوگی- جو لوگ شروع سے جزیرۃالعرب کے اس بحران پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ صدام حسین کی شہادت کے بعد سے عراق میں کبھی بھی  امن قاںُم نہیں ہوسکا اور عراق کے سنی مسلمانوں کا ایک گروہ عراق کی ایران نواز حکومت کے خلاف مزاحمت کرتا رہا ہے-جس کا اعتراف دو دن پہلے سعودی شہزادے نے بھی کیا ہے کہ داعش کا وجود ایران نواز عراقی حکومت کے ظلم کے ردعمل گا نتیجہ ہے -جبکہ اس بات کا اعتراف مغرب کے مشہور و معروف صحافی تھامس فراںُیڈ مین ایک سال پہلے ہی اپنے ایک مضمون میں کر چکے ہیں – بلکہ یوں کہا جاےُ کہ جس طرح عراق کی شورس عرب بہار میں تبدیل ہوئ اور اس کی زد میں یک بادیگرے تیونس مصر لیبیا شام اور یمن کے ڈکٹیٹروں کے تخت بھی تباہ ہو گںُے صدام حسین کے ام الحرب کا نظریہ درست ثابت ہوا -اور اب داعش کا  عروج  دوبارہ  عرب بہار کی   اسی ناکامی کا نتیجہ ہے جس کے خلاف اور حمایت میں دنیا کی سپر  پاور طاقتیں بھی کود چکی ہیں اور ادھر ترکی نے جس طرح روس کے لڑاکا طیارے کو مار گرایا ہے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ داعش کو خفیہ طریقے سے ترکی امریکہ اور عرب کے تاجروں کا تعاون حاصل ہے اور خلیج کا یہ بحران مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے-اگر مشرق وسطیٰ کی یہ شورس واقعی ام الحرب ثابت ہوتی ہے اور جو نظر بھی آرہا ہے تو پھر اس جنگ کی آگ میں عرب اور مغرب کی کئ ریاستیں بحران کا شکار  ہو کر اپنا وقار کھو سکتی ہیں – خاص طور سے روس اور ایران جو تیل کے بڑے سپلاںُر ہیں با الکل نہیں چاہیں گے کہ یہ جنگ طول پکڑے کیوں کہ خلیج کے اس بحران اور داعش کے عروج سے روس اور ایران کی معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے -لیکن ایران اسرائیل اور روس کسی طرح اس جنگ کو 2016 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات تک سمبھالنے کی کوشس بھی کریں گے اور چاہیں گے کہ ڈیموکریٹ کی بجائے ریپبلکن کا امیدوار کامیاب ہو  تاکہ جیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ ریپبلکن اسلام دشمن اور یہود نواز رہے ہیں اس وقت خلیج میں ترکی اور داعش کو امریکہ کی طرف سے جو خفیہ مدد حاصل ہو رہی ہے اس پر روک لگ جاےُ  اور ترکی کے  تنہا پڑ جانے کے سبب داعش جو ترکی کے راستے سے پٹرول کی تجارت اور ہتھیار حاصل کر رہے ہیں ان کیلئے مشکل کھڑی ہو سکے -ویسے اب جس طرح فرانس بھی روس کے ساتھ تعاون کر رہا ہے امریکہ اور ترکی بھی ممکن ہے کہ تیزی کے ساتھ داعش کو ایسے ہتھیار مہیا کروانا چاہیں گے جس کے ذریعے  وہ خود روس اور فرانس کے لڑاکو طیاروں کو گرا سکیں -ویسے جنگ اور محبت میں کامیابی اور ناکامی کے مرحلے سے تو گذرنا لازمی ہے لیکن یہ بات ہم یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ جزیرۃ العرب تیسری عالمی جنگ کا میدان کبھی نہیں بنے گا مگر یہ بحران تیسری عالمی جنگ اور ام الحرب کا سبب ضرور بن جاےُ گا -اور یہ میدان ایک بار پھر یورپ ہوگا اور ممکن ہے کہ ابھی اس کھیل کا ایک اور کھیلاڑی چین جو خاموش بیٹھا ہے تیسری عالمی جنگ کا سبب بنے -اور وہ ملک جس کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہو سکتی ہے وہ جاپان پر چین کا حملہ ہوگا-اور امریکہ سمیت یورپ کے تمام ممالک جاپان کو  با الکل تنہا نہیں چھوڑ سکتے -واللہ علم بالثواب …واللہ خیر الماکرین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *