ہوم گارڈ سیول ڈیفینس کی مستعدی سے بچہ اغوا کاروںکےچنگل سے آزاد

ممبئی،بوریولی:( معیشت نیوز)گزشتہ دنوں ممبئی کے مشہور ریلوے اسٹیشن بوریولی کے پلیٹ فارم نمبر ۴ سے چرچ گیٹ کی طرف جانے والی ٹرین جو کہ بس روانا ہونے ہی والی تھی کہ اسٹیشن پر ایک ہلکی پھلکی بھگدڑ مچی جس میں سے ایک کم عمر بچہ جس کی عمر تقریباً ۸ سے ۱۰ سال ہوگی نکلا اور چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کرتے کرتے وہ ٹرین اور پلیٹ فارم کے درمیان میں گرنے ہی والاتھا کہ اسے چلتی ٹرین کے دروازے کے قریب کھڑے کچھ ہوم گارڈ سیول ڈیفینس کے عہدے داران نے تیز دماغی اور پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بچے کو ٹرین کے اندر کھینچ لیا اور اسے پٹری پر گرنے سے بچا لیا۔
یہ عہدے داران ممبئی سیول ڈیفینس کی علاقہ نمبر ۴ کی k/w چوکی سے تعلق رکھتے ہیں، یہ تمام ہی عہدے داران پوسٹ وارڈن کے امید وار تھے۔ بچے نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کلکتہ کا رہنے والا ہے اور اسکا نام سائمن جب کہ اسکے والد کا نام سبھاش ہے بچہ کے گلے میں ایک لاکٹ کی شکل میں عیسائی مذہب کا کروس بھی لٹکا ہوا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ بچہ عیسائی مذہب کا ہے اور یہی بات اس کے نام سے بھی واضح ہو رہی تھی۔ وہ اپنے گاؤں میں کسی کارخانے میں میں ملازمت کرتا تھاجس سے اسے یومیہ ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے ملجاتے تھے ، اس کی والدہ گھر گھر جاکر خادیمہ کی ضمہ داری ادا کرتی ہے۔
ویسے تو یہ بچہ ہندی ٹھیک سے نہیں بول سکتا تھا لیکن سیول ڈیفینس کے اس وفد میں ایک خاتون تھی اور ان کا تعلق بھی کلکتہ سے ہے انہوں نے اس بچہ سے بنگالی زبان میں ہی بات کی جس سے یہ پتہ چلا کہ اسے کچھ لوگ کلکتہ سے اغوا کرکے لائے ہیں اور اب تک کسی مقام پر اسے ہاتھ پیر اور منھ باندھ کررکھتے تھے،لیکن آج وہ وہاں سے کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔
ان تمام ہی سویل ڈیفینس کے لوگوں نے بوریولی سے ٹرین نکلنے کے بعد آئے ہوئے اگلے اسٹیشن اندھیری پر اس بچہ کو بڑی حفاظت سے لیکر اترے اور بچے کی حفاظت کو مدے نظر رکھتے ہوئے اسے اندھیری اسٹیشن کے باہر واقع ممبئی پولیس کی بیٹ چوکی پر لے گئے جہاں پر وجئے سرجی راؤ کھردے، پولیس افیسر نے پورا واقعہ سن کر وکاس تکارام کامبلے نامی ہولدار کے ساتھ اس وفد کو اندھری RPFکی چوکی میں بھیجاجہاں پہنچ کر وہاں کے افسراں نے بھی سارا واقعہ سنا اور پھر اس وفد کو GRPFکے پاس بھیجا اور وہاں پر پی ایس آئی مانے نامی سینئر
پولیس افسر نے اس وفد سے کہا کے آپ کو اس بچہ کو بوریولی RPFمیں ہی لیکر جانا ہوگا اور مزید کہا کہ ہم یہاں سے فون پر انہیں اطلاع دئے دیتے ہیں آپ لوگ اسے لیکر وہاں پہنچئے اب جب یہ وفد کسی طرح اس بچہ کو صحیح سلامت پھر بوریولی لیکر پہنچا تو وہاں RPFافسران کافی دیر تک کھانا کھاتے نظر آئے کافی انتظار کرانے کے بعدجب کہیں RPFافسر ایم جے روٹھڈنے بچہ اور وفد کی باتیں سختی کے ساتھ سنی، بچہ جو کچھ بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی ہندی اور معصوم اندار میں کہہ سکتا تھا اس نے کہا،لیکن اس پولیس افسر نے سیول ڈیفینس کے وفد سے کہا کہ یہ بچہ جھوٹ بول رہا ہے اور یہ ایک نمبر کا شاتر اور بدمعاش قسم کا بچہ ہے، اور مچھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈونگری چلڈرنس ہوم یعنی بچوں کی جیل سے بھاگا ہوابچہ ہے تو اسی کے جواب میں سیول ڈیفینس کے ایک افسر انصاری حنان احمد نے کہا کے آپ کے پاس فرار قیدیوں کی کوئی فہرست تو آئی ہوگی اس میں چیک کرلیجئے اِس پر وہ پولیس والا برہم ہو گیااور کہنے لگا کہ ہمیں ہمارا کام سکھانے کی کوشش نا کرو اور ایسا ہی کروگے تو اس بچے کو یہاں چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، کافی بحث کے بعد وہ پولیس والے نے فرار قیدیوں کی فہرست چیک کی مگر اس میں اس بچے کے نام کاکوئی قیدی توکیا ملتا بلکہ اُس کی عمر کے آس پاس کی عمر کے بچے کا بھی کوئی ذکر نہیں ملا ، پھر کہیں جاکرپولیس نے اُس بچے کو اپنی تحویل میں لیا اور یہ یقین دلایا کہ ہم اس بچے کو اس کے گھر پہنچا دیں گے، یہ بات بھی دھیان میں رکھنے کی ہے کہ اس پولیس والے نے سیول ڈیفینس کے لوگوں کے ساتھ ٹھیک طریقہ سے بات تک نہیں کی بلکہ یوں کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگاکہ وہ پولیس والا اس معاملہ کا رکھ اپنے بات کرنے کے اس سخت انداز کا سہارا لیکربدلنا چاہتا تھا، سیول ڈیفینس کے لوگوں نے بتایا کہ وہ پولیس والا بچے کے ساتھ بھی کافی سختی سے پیش آرہا تھا اوران کے سامنے ہی اس پولیس والے نے بچے کے پاس مؤجود بسکیٹ اور پانی کی بوتل کو بھی اس بچے سے لیکر دوسری جانب پھینک دیا تھا ۔
ایک طرف یہ معاملہ رہا تو وہیں اندھیری RPFمیں سیول ڈیفینس والوں کی بہادری کو سراہا گیا اور بتایا کہ یہ کسی اغوا کاروں کی جماعت کا ہاتھ لگتا ہے جو اسے کچھ روز ورار سے بوریولی کے درمیان میں بھیک منگواکربعد میں جب یہ بھیک مانگنے کا عادی ہو جائے تا تب شاید اس کے ہاتھ کٹوا کر اس سے بھیک منگوانا چاہتے ہوں گے جیسا کے اکثر ایسے معاملات میںہوتا ہے اور اس طرح کے کچھ ریکیٹ اس جرم میں کافی سرگرم ہیں
سیول ڈیفینس علاقہ نمبر۴کی چوکی k/wکی اس ٹیم میں انصاری حبیبہ،ممتاز میمن،شیخ شکیلہ،شیخ میمونہ،انصاری حنان احمد،اجیت مستری،رینا روئیداس، اور ویجیاابھنگے شامل تھے اور انہیں تمام افراد کی مستعدی اور تیز دماغی کی وجہ سے وہ بچہ اغوا کوروں کے شکنجے سے بچ کر پولیس کی تحویل میں آسکا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پولیس کس حدتک اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے اور اسے کب تک اس کے گھر حفاظت کے ساتھ پہنچاتی ہے !