معیشت کی جانب سے ’ بزنس رپورٹنگ‘پر یک روزہ ورکشاپ کا کامیاب انعقاد
ممبئی:ملی صحافت جس کا واحد ترجمان ہم اردو اخبارات کو کہہ سکتے ہیں،میں تجارتی صفحہ کی عدم موجودگی اور معیشت اور اس کے تعلق سے خبروں سے اردو اخبارات اور اردو صحافیوں کی لا تعلقی سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے معیشت میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے یک روزہ ’ملی صحافت میں تجارتی صحیفہ نگاری‘پرورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔جس میں مختلف اخبارات کے اتجارتی مدیر اور نامہ نگاروں نے شرکت کی ۔کشمیر سے ’کشمیر عظمیٰ‘کے تجارتی مدیر اظہر رفیقی،اردو ٹائمز سے شحیم خان ،ایشین ایج سے شہاب انصاری،آل انڈیا ریڈیوکی رپورٹرنیویدیتا اے بھورکر اور کالم نویس عمر فراہی سمیت کئی اردو ،ہندی ،مراٹھی اور انگریزی اخبارات سے تعلق رکھنے والے سینئر رپورٹر نے شرکت کی ۔ورکشاپ تین مختلف سیشن اور عنوانات پر مبنی رہا۔ورکشاپ کی ابتداء اور اس کی ضرورت اور مقاصد پر دانش ریاض نے مختصر تعارف پیش کیا اس کے بعد اسلامی معیشت اور اسلامک بینکنگ پر اپنی زندگی وقف کردینے والے شارق نثار نے ’ہندوستانی معیشت اور مسلمان،جانکاری،لاتعلقی اور اس کے وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ہندوستانی معیشت کو شجر ممنوعہ نہ سمجھتے ہوئے اس سے جڑ کر اس میں اپنی گرانقدر خدمات پیش کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم صرف اس بنیاد سے ہندوستانی معیشت سے خود لاتعلق کرکے موجودہ ناانصافی پر مبنی استحصالی سودی نظام معیشت میں کوئی سدھار نہیں لا سکتے ۔ہم کم از کم جہاں جہاں سود یا دیگر ممنوعات کا دخل نہیں ہے اس میں تو اپنا بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض اوقات غلط رپورٹنگ یا صحیح رپورٹ کو دبانے کی وجہ سے بھی نقصان ہوتا ہے ۔انہوں نے بیت النصر کے بند ہونے کے پیچھے ایسی وجوہات کو ذمہ دار بتایا ۔

اسٹاک ایکسچینج کے چیف آپریٹنگ افسر ڈاکٹر آدتیہ سرینواسن نے نے بھی ہندوستانی معیشیت اور اس کے خد خال کو صحیفہ نگاروں کے سامنے واضح کیا ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں مسئلہ اصل میں کسی بھی منصوبہ کے نفاذ کا ہے ۔ہم بہت اچھی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں لیکن آگے اس کے مسائل کا انبار ہوتا ہے جس کی وجہ سے منصوبہ پر عمل در آمد نہیں ہو پاتا۔ورکشاپ میں شریک صحیفہ نگاروں کو آخر میں






سرٹیفیکیٹ بھی دیا گیا