سیرت النبیﷺعیسیٰ مسیح ؑ اور امت مسلمہ کا طرز عمل

Merry Chrismas

یاسر محمود فلاحی
(مضمون نگار نے علمی بحث کا آغاز کیا ہے جو یقیناً قابل ستائش ہے۔کیا ہی بہتر ہو دیگر احباب بھی مذکورہ امور پر اپنی گراں قدر رائے دیں اور امت مسلمہ کی موجودہ روش سے برات کا اظہار کرتے ہوئے اس عالمی امت کا تصور پیش کریں جسے آقائے مدنی ﷺ لے کر آئے تھے اور جو قرآن کا مقصود ہے؛ادارہ معیشت)
کوئ مسلمان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ عیسی بن مریم اور انجیل پر ایمان نہ لائے. رہی ان کی تاریخ پیدائش تو ان کی اپنی مستند تاریخ 25 دسمبر کو ان کی تاریخ ولادت نہیں مانتی لیکن اگر یہ درست بھی ہو تب بھی اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔
تیرہ سو سالہ مسلم معاشرتی و قومی تاریخ اس بات پر شاہد ہیکہ یہ بات کہ حضرت عیسی نبی اللہ ہیں اور ان کو مانے بنا کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، صرف قول کی حد تک تو درست ہے ورنہ مسلمان حضرت مسیح کو عملا اور اپنے رویہ و نفسیات سے نبی کیا ایک مصلح بھی نہیں مانتے کیونکہ:
1- کوئی بھی مسلمان ان کی “عید میلاد النبی” کو مسلم معاشرہ میں منائی جارہی عید میلاد النبی کی طرح کیوں نہیں مناتا؟
2- مسلمانوں میں مختلف شکلوں میں “عید میلاد النبیﷺ” (محمدیﷺ) منانے والوں کیساتھ اسکو نہ منانے والوں کا یا اس کی موجودہ شکل کے مخالف مسلمانوں کے دیگر فرقوں و مسالک کا جو خاموش یا غیر جارحانہ معتدل رویہ ہے وہی رویہ عید میلاد النبی منانے والے عیسائیوں کیساتھ کیوں نہیں؟ اس کے برعکس عیسائیوں کیساتھ رویہ سخت جارحانہ، شدیدانسدادی، سلبی، متعدی اور منافرانہ ہے. یقین نہ ہو تو اپنے معاشرہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی عید میلاد النبی مناکر تجربہ کرلیں۔
3- عصری دانشوران، اصلاح پسند تحریکات اور جماعتیں جس طرح یہ تجاویز اور اصلاحات پیش کرتی ہیں کہ عید میلاد النبیﷺ (محمدی) کی موجودہ شکل غیر اسلامی اور غیر علمی و غیر مہذب ہے. لہذا اسکی بہتر شکل یہ ہیکہ اس دن سیرت محمدیﷺ، اخلاقِ نبویﷺ، مواعظِ نبویﷺ کو پھیلایا جائے، اسکے لئے پروگرامز ہوں، پیمفلٹ تقسیم ہوں، کتابیں تقسیم ہوں اور اس دن ویلفیئر و طب و صحت کے فلاحی کام کئے جائیں… اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں.تو پھر اسی قسم کی پیشکش اور سیرت النبی (مسیحی)، اخلاق حسنہ (مسیحی)، مواعظ حسنہ (مسیحی) اور ویلفیئر، طبی و فلاحی پروگرام وہ عید میلاد النبی-مسیح (25 Dec) پر کیوں نہیں کرتے اور ان کی جارحانہ یکسر مخالفت کے بجائے اسی قسم کی تجاویز و اصلاحات اس دن عید میلاد النبی-مسیح منانے والوں کیلئے بھی کیوں پیش نہیں کرتے؟ یہ دوہرا معیار (dual standard) کیوں؟ کیا حضرت عیسی نبی اللہ نہیں؟
4- ہمارے یہاں عام طور پر “عید میلاد النبی” کا مطلب ہی محمدیﷺ سمجھ لیا گیا ہے. لہذا اگر وضاحت نہ کی جائے تو یہی مراد لیا جائیگا۔
5- یہ معاملہ صرف عوام کا نہیں بلکہ مسلم ملکی و عالمی دانشوران اور ملکی و عالمی عصری شخصیات اور جدید تحریکات کا بھی ہے. ورنہ جس ذات عیسی نبی اللہ پر قرآن میں پوری پوری سورتیں ہوں، ان کی پیدائش کے تعلق سے انکی ماں “مریم” کے نام سے پوری ایک سورۃ ہو اور ان کے خاندان “آل عمران” کے نام سے پوری سورۃ ہو اس نبی مسیح کی سیرت اور اسی کے نام سے منائے جانے والے سب سے بڑے تیوہار (25 Dec) کے موقع پر آج تک پوری تیرہ سو سالہ تاریخ میں عرب، افریقہ، ترکی، پاک و ہند، مغرب، مشرق و مشرق بعید کسی بھی مقام پر سیرت النبی ﷺ کی طرح عید میلاد النبی (25 Dec) کے موقعہ پر یا سال کے کسی بھی دن سیرت النبی (مسیح) کا کوئی ایک بھی پروگرام، جلسہ یا کانفرنس کا انعقاد کیوں نہیں کیا گیا؟
6- سیرت النبی (مسیح) پر سیرت النبی ﷺ کی طرح کتابیں، کتابچے، پمفلٹ، آڈیو ویڈیو تقاریر، پوری دنیا کے مسلم معاشرے میں کہیں بھی عام طور سے کیا خاص طور سے بھی دستیاب نہیں. پوری اسلامی تاریخ میں سیرت مسیح پر کوئی ایک بھی کتاب کیوں نہیں لکھی گئی؟ کیا تیرہ سو سالہ تاریخ میں کوئی دو چار بھی بڑے بھی ایسے پیدا نہیں ہوئے جو فرقہ پرستی، آباء پرستی، روایت پرستی یعنی “مسلمان ایک قوم” کے تصور اور قومیت سے آزاد ہوکر قرآن کا انسانی فہم رکھتے؟
7- عیسی نبی اللہ جن سے نسبت و تعلق رکھنے والے دنیا میں سب سے زیادہ ہوں، بشمول مسلمان پوری دنیا کو تعلیم، تحقیق، مصنوعات، طبی خدمات، ضروریات زندگی کی تکمیل….وغیرہ جس مذہب کے پیروکار سب سے زیادہ فراہم کررہے ہوں، جن سے مسلم معاشرہ اور مسلم ممالک کے سب سے زیادہ عسکری، سیاسی، تعلیمی، اقتصادی و معاشی، طبی، دفاعی، تکنیکی معاہدے اور روز مرہ کے معاملات ہوں انہیں اگر مسلم اعتقادات کے مطابق گمراہی اور کفر و الحاد میں غرق مان لیا جائے تب بھی آج تک:
الف- عید میلاد النبی (25 Dec) پر مسلمانوں (جن کیلئے مؤمن و مسلم ہونے کیلئے حضرت عیسی کو “ماننا” لازمی ہے) کے تعلیمی اداروں، مدارس، مساجد، مراکز، خانقاہوں، تحریکات و جماعتوں میں کوئی سیرت النبی-مسیح کا پروگرام جس میں قرآن کے مطابق حضرت عیسی کی سیرت کو بیان کیا جائے، تحریفات کو دور کیا جائے، صحیح پہلو کو سامنے رکھا جائے، ان کی قربانیوں، مثالی جد جہد اور حق کیلئے ان کی “شہادت” کو سامنے رکھا جائے…وغیرہ کا مسلسل اہتمام کیوں نہیں کیا گیا؟ حیرت ہے تیرہ سو سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا پروگرام کیوں نہیں ہوا؟ جبکہ مسلمان حضرت عیسی علیہ السلام کی آج کے معاشرے میں دوبارہ معجزاتی واپسی کا اعتقاد بھی رکھتے ہوں تو اسکی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے. پھر آخر حضرت عیسی کی سیرت النبی کا جزوی اہتمام بھی کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ “سیرت النبی” کا لفظ بھی ہمارے یہاں “میلاد النبی” کی طرح قومی مفہوم اختیار کر گیا ہے.
ب- عید میلاد النبی (25 Dec) پر عیسی نبی اللہ سے مذہبی اور تقدس و احترام کی نسبت رکھنے والے ان کے متبعین یا مدعیین عیسائی جو آج دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہےکے ساتھ سیرت النبی-مسیح پر 25 دسمبر کے یا کسی اور موقع سے ایک ایسا مشترک پروگرام جس میں قرآن کے مطابق حضرت عیسی کی سیرت کو بیان کیا جائے، تحریفات کو دور کیا جائے، صحیح پہلو کو سامنے رکھا جائے، ان کی قربانیوں، مثالی جد جہد اور حق کیلئے ان کی غیر معمولی “شہادت” کو سامنے رکھا جائے وغیرہ کا مستقل حتی کہ جزوی اہتمام بھی کیوں نہیں کیا گیا؟ جبکہ عیسائیت دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جسے قرآن نے بشمول یہود “اہل کتاب” کہا اور عیسائیت ہی وہ واحد مذہب ہے جسے قرآن نے ترجیحی طور پر اختلافی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں باہمی اقدارِ مشترک (Common Values) “کلمۃ سواء” (سورۃ آل عمران) کیطرف بلایا. جسکی وجہ سے اس کی ضرورت اور زیادہ ہوجاتی ہے. اسکے باوجود آخر حضرت عیسی کی سیرت النبی کے عیسائیت کیساتھ باہمی اقدارِ مشترک (common values) پر مشتمل کسی مشترک پروگرام کا جزوی، شہری، صوبائی، ملکی، عالمی کسی بھی سطح کا اہتمام اور آغاز آج تک کیوں نہیں کیا گیا؟
8- اس تعلق سے مزید تفصیلات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کردینا کافی ہیکہ پورے عالم اسلام کے مسلم عوام سے صرفِ نظر مسلم مذہبی اور عصری قیادت کی شکل میں موجود ان کے سارے خواص اور اساتذہ کے سامنے حضرت عیسی کی سیرت سے متعلق تین سطحی اور عمومی سوال پیش کردئے جائیں تو اکثریت سردست جواب سے ناواقف اور حیران ہوگی:
1- حضرت عیسی کی پیدائش کس شہر میں ہوئی؟
2- حضرت عیسی پر رومن عدالت کی جانب سے کیا کیس عائد کیا گیا؟
3- حضرت عیسی سے آخری عدالتی کارروائی کے دوران پوچھے جانے والے دو سوال کیا تھے اور ان کے جوابات حضرت عیسی نے دئے یا نہیں؟ اگر جوابات دئے تو دونوں کے یا ایک کے؟ اور وہ جوابات کیا تھے؟
سوال پیدا ہوتا ہیکہ آخر ایسا کیوں ہے؟ صدیوں سے اس عصبیانہ غیر قرآنی غیر فطری روش کی کنہ کیا ہے؟ اسکی اصلی وجہ کیا ہے؟ مسلم معاشرہ کی ایسا قومی و عصبیانہ فضا کیوں ہے جس میں کبھی کوئی ایک شخص بھی ایسا پیدا نہ ہوسکا جو قومی تصادم کی غیر فطری، غیر نبوی و غیر قرآنی منفی روش سے آزاد ہوتا اور اسکی ضرورت محسوس کرتا؟ حضرت عیسی سے صدیوں پہلے تشریف لانے والے نبی حضرت ابراہیم کی سیرت پر بھی مسلم معاشرہ میں کتابوں کی کم ہی صحیح لیکن ایک تعداد موجود ہے، حضرت ابراہیم کے مقامات اور اسفار کی تفصیلات پر بھی جزوی کام ہوا ہے، حضرت ابراہیم کی سیرت روایتی انداز میں ہی صحیح لیکن بعض کتب میں مطالعہ کیلئے مل جاتی ہے، حضرت ابراہیم کی سیرت پر جلسوں، کانفرنسوں اور جمعہ کے خطبوں میں کچھ سننے کو مل جاتا ہے…لیکن حضرت عیسی جو حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد بلکہ اُس سلسلہ کے آخری نبی ہیں اور ایسے نبی ہیں جو تقارب زمانی کے اعتبار سے محمد ﷺ سے سب سے زیادہ قریب ہیںپھر ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہے؟ انہیں مسلم معاشرہ میں کلی طور سے محجوب (holistically hidden) کیوں بنایا گیا؟ ان کو مسلم معاشرہ سے کیوں محو کیا گیا؟ تیرہ سو سال میں کبھی سیرت عیسی کو سامنے کیوں نہیں آنے دیا گیا؟ ظاہر ہے اسکی واحد ذمہ دار مذہبی قیادت ہے. وہی اس کو رواج نہ دینے اور سیرت النبی (مسیح) کو مخفی رکھنے کی واحد وجہ ہیں. مذہبی قیادت خواہ وہ روایتی ہو یا عصری وہی اسکا اصل سبب ہے. ورنہ اوپر پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سیرت عیسی مسلم معاشرہ میں کلی طور سے اجنبی، غیر معروف، غیر مطلوب حتی کہ غیر ضروری بنی رہے اور تیرہ سو سال تک بلا انقطاع مسلم معاشرہ میں محو رہے حتی کہ عیسائیت کیساتھ دوستی، جنگ، معاہدات، معاملات، تجارت کسی بھی موقع پر اس کی طلب و ضرورت بھی نہ ہو….
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ سیرت عیسی میں ایسی کونسی بات ہے جس سے مسلم معاشرہ میں چلی آرہی مذہبی قیادت (سنی-سلفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، حیاتی، مماتی، جمعیتی، بریلوی، اشرفی، ازہری، چشتی، تبلیغی، تحریکی، گروہی، شیعی-اثناء عشری، روافضی، زیدی، تفضیلی، اسماعیلی، امامی، نصیری، ماتریدی، اشعری، ادارہ جاتی، روحانی، خانقاہی، عربی، ایرانی….) ایک طرف سے سب کو خطرہ لاحق ہے؟ سیرت عیسی کا ولادت سے لیکر صلیب تک ایسا کونسا پہلو ہے جس کے افشاں ہوجانے سے مذکورہ قیادت خائف ہے؟ مسلم مذہبی قیادت کو سیرت عیسی سے مسلم معاشرہ کے واقف ہوجانے سے ایسا کونسا خوف ہے؟
اس کے جواب کیلئے سیرت عیسی کی تفصیلی بحث میں جائے بنا قلب سلیم رکھنے والی سعید ارواح اور تحقیق پسندوں کیلئے یہاں صرف اتنا عرض کردینا کافی ہیکہ حضرت عیسی کی بنیادی لڑائی اور پورا معرکہ حامل قرآن (توراۃ) وقت کی مسلم مذہبی قیادت سے تھا. کاش یہ امت حضرت مسیح کے ان مواعظ کا دور حاضر کے تناظر میں تطبیقی مطالعہ کرے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہود کے علماء احبار و فقیہوں کے بارے میں جو کچھ آپ حضرت عیسی فرما رہے ہیں اس کا ایک ایک لفظ مسلم علماء، مذہبی قیادت اور اِس عہد کے فقہاء پر صادق آ رہاہے. حضرت عیسی کی مخاطب اُس وقت کی صدوقی اور فروسی مذہبی قیادت-در-قیادت اور اس امت کی چلی آرہی شیعی اور سنی قیادت-در-قیادت کا ایک ہی پیٹرن اور ایک ہی معاملہ ہے. تاریخیات، تعبیرات، تشریحات، تطبیقات، روایات، توارثات، طبع، مزاج اور رویہ و نفسیات سارا کا سارا اس حد تک ایک ہے گویا کہ دونوں ایک جسم کے دو ہاتھ ہوں، ایک جسم کی پاؤں کی دو جوتیاں ہوں، ماپنے پر دونوں ایک ایک بالشت برابر ہوں، حق اور فطرت سے نکلنے میں جو سفر کیا ہو تو دونوں ایک ہی سوراخ میں داخل ہوئے ہوں.
نبی آخر الزماں ﷺ نے اس ہیبتناک اور خوفناک پیٹرن کے اس امت میں درآنے سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“لتتبعن سنن الذین من کان قبلکم….شبرا شبرا، ذراعا ذراعا” اور ایک دوسری حدیث میں ہے “حذو النعل بالنعل” یعنی تم انہیں کی طرح ہوکر رہوگے “ایک ایک ہاتھ ایک ہاتھ جیسا دوسرا ہاتھ، ‘ایک ایک بالشت اورپاؤں کے دو جوتوں کی طرح.
آج مذہبی فساد کی تاریخ اور اسکے “سابقہ پیٹرن سے کلی طور سے بے خبر معاشرہ” میں اس بات کا مفہوم وہ لیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ اس کے میکانزم اور nexus تک پہنچا جاسکتا ہے جو ایک باشعور اور مذہبی فساد کی تاریخ اور اس کے “سابقہ پیٹرن سے کلی طور سے باخبر معاشرہ” میں اسکا مفہوم لیا جاسکتا ہے اور مذہبی فساد کے اس میکانزم اور nexus کو سمجھ کر اس سے اس امت کو بلکہ پوری انسانی دنیا کو اسی طرح آزاد کرانے کا آغاز کیا جاسکتا ہے جس طرح حضرت عیسی نے اس کا آغاز کیا تھا اور اسی طرح اس میکانزم، دائمی nexus اور اس کے حامل طبقہ کو معاشرہ میں پیدا نہ ہونے دینے کیلئے کارروائی کی جاسکتی ہے جیسے حضرت عیسی نے کی تھی. یہی ان کی سیرت کا اول تا آخر بنیادی پہلو ہے. یہی سیرت النبی-مسیح کا وہ پہلو ہے جو مذہبی قیادت کے خوف کی وجہ ہے.
اسطرح اس ام السؤال کا جواب اور اصل وجہ واضح ہوجاتی ہیکہ اگر سیرت عیسی مسلم معاشرہ میں عام ہوجاتی ہے تو وہ سابقہ پیٹرن، حضرت عیسی کی لڑائی اور معرکہ اور وہ پورا مذہبی فساد اور میکانزم آج کے مسلم معاشرہ میں از خود چلتا پھرتا نظر آجائیگا اور پوری طرح بے نقاب ہوکر “شبرا-شبرا”، “ذراعا-ذراعا”، “حذو النعل بالنعل” یعنی ایک ہاتھ جیسے دوسرے ہاتھ کی طرح، ایک پاؤں کی جوتی جیسی دوسری جوتی کی طرح سب ایک ایک بالشت ناپ ناپ کر تول تول کر برابر اور واضح ہوجائیگا. حضرت عیسی کے مذہبی قیادت سے تخاطب کا ایک ایک لفظ آئینہ ہے. اگر صرف ایک لفظ بھی اسکا اٹھا لیں تو آج کے ایک ایک سلسلہ کو unveil کردینے کیلئے کافی ہو.
حقیقت یہ ہیکہ مسلمان:
1- کسی بھی قسم کی نظریاتی امت کے بجائے پوری طرح ایک آباء پرست قوم بنادئے گئے ہیں
2- مسلمان محمد ﷺکو “نبی بمخالف عیسی، موسی و آخرین” کے مانتے ہیں (جو قرآن کی رو سے نبی کا انکار ہے)
Muhammad v/s Jesus, Moses and other prophets
3- مسلم معاشرہ میں محمد ﷺ سلسلہ رسالت و نبوت کی ایک کڑی نہیں بلکہ دیگر انبیاء اور خاص طور سے حضرت عیسی، موسی کے بالمقابل گویا کہ ایک عربی نمائندہ کے طور پر نئی قوم کی داغ بیل ڈالنے آئے تھے (استغفر للہ)
Muhammad The Arabian Emperor
4- اس طرح مسلمان بمخالف عیسائی، یہود، ہندو وآخرین ہیں. یعنی اگر دیگر اقوام کیساتھ تصادم کا ماحول ختم کردیں تو ہماری انسانی دنیا میں کوئی بنیادی شناخت اور کوئی انسانی کام ہی باقی نہ رہے
Muslims v/s Christians, Jews, Hindus and other communities
اس کے برعکس اور قرآن کے مطلوبہ کردار کے بر خلاف سیرت عیسی کے تعلق سے مذکورہ مسلم تاریخی عصبیانہ روش کے بالمقابل سردست عیسائیت کی تین باتوں کا ذکر ضروری ہے:
1- 9/11 کے معا ًبعد امریکہ میں مختلف چرچ یا کیتھولک چرچ نے توراۃ، انجیل اور زبور کے درس کیساتھ ساتھ ہفتہ میں ایک دن درسِ قرآن کا اہتمام کیا اور اس کے لئے ہر چرچ میں مسلم اسکالر کا تعین و اہتمام کیا.
2- (الف) 98-1997 میں امریکی مصنف کینس کو قرآن کے عیسائیت سے متعلق ایک لفظ کی تحقیق کی سخت ضروت آن پڑی کہ آخر اس کا مفہوم کیا ہے. اس تحقیق کا محور یہ تھا کہ قرآن کے اس لفظ کا الگ الگ مسلم عہد میں مسلمانوں میں کیا کیا مفہوم لیا گیا ہے.
(ب) اس نے اس لفظ کی تحقیق کیلئے مختلف مسلم کتب اور تواریخ کا مطالعہ کیا اور مصر سمیت تین مسلم ملکوں کا دورہ بھی کیا اور مسلم اکالرس سے ملاقاتیں کیں.
(ج) بالآخر عدم اطمینان اور مطلوبہ تحقیق نہ مل پانے پر اس نے صحاح ستہ کی بعض کتب، تفسیر ابن کثیر، طبری اور دیگر متقدمین کی تاریخی کتب کا مطالعہ کیا.
کینس کی ضرورت قرآن کے جس لفظ کے الگ الگ مسلم عہد میں لئے گئے مفہوم سے متعلق تھی وہ لفظ ہے “الروم”.
3- رینیساں سے ماقبل کا مذہبی پاپائیت، مذہبی استحصال اور فرقہ وارانہ تعصبات کا خونی دور دیکھنےوالی عیسائیت نے بیسویں صدی میں دہائیوں کے جد و جہد، علمی مساعی اور دہائیوں کے طویل باہمی مذاکرات کے بعد کئی بڑے تاریخی اور طویل المدت فیصلے لئے اور تمام متنازع امور ولادت مسیح، مریم، تکفیر کی مختلف فیہ بنیادیں جن سے ایک فرقہ کے نزدیک دوسرا کافر ہوجاتا ہے، طلاق، آمد مسیح، انجیل…وغیرہ پر باہمی نظر ثانی، تحقیق اور تعبیر جدید کا فیصلہ کیا. بالآخر اس دو ہزار سالہ تاریخ کو بدل ڈالنے والے تاریخی کام میں ناقابل حل شدید دشواریاں سامنے آئیں اور آگے بڑھنے کیلئے کسی نئی صورت کی تلاش شروع ہوئی تب 1968 میں اس وقت کے کیتھولک پوپ نے اپنے عالمی عہدہ سے اس کار عظیم کی خاطر استعفی دیکر خود کو فارغ کیا اور پورے انہماک اور تحقیق و حلم سے آگے بڑھایا اور دشوار ترین و پیچیدہ ترین گتھے ہوئے مسائل کے حل پر غیر معمولی پیش رفت ہوئی. موصوف کی سرپرستی میں یہ تاریخی جد و جہد کامیابی کیساتھ آگے بڑھی. اور بالآخر یکے بعد دیگرے تجاویز و تدابیر کے بعد ایک تجویز پر سب متفق ہوگئے جسکا عنوان ہے کہ ہم 350 عیسوی تک یعنی 350 سے ماقبل کی تعبیرات پر لوٹ جائینگے اور اسکے بعد کے تصورات و اعتقادات اور “شناخت” کو کالعدم قرار دیکر ترک کردینگے. اور اب 350 عیسوی کی تعبیرات کا کام بھی سخت علمی کاوشوں کے بعد تقریبا مکمل ہوکر ختم ہوگیا ہے. اور اسی کے اثرات ہیں کہ نائن الیون کے بعد تاریخ میں پہلی بار آرتھوڈاکس اور پروٹسٹنٹ چرچ کے ساتھ ساتھ امریکہ کے باہر سے ہوتی آرہی کیتھولک قیادت اب اندرون ملک قائم ہوگئی. اسی طرح انگلستان چرچ نے اپنی علیحدہ عالمی شناخت کو انگلینڈ کی قیادت تک محدود کرکے کیتھولک عالمی قیادت کو قبول کرلیا اور خود کو اسکا ماتحت قرار دیدیا. اس فیصلہ کا مطلب تھا عہد برطانیہ عظمی کے دوران سترہوں صدی سے بیسویں صدی آخر تک بشمول ہندوستان(قدیم)، اردن، شام… اور دنیا کے طول و عرض میں انگلو-چرچ کے ماتحت قائم ہونے والے تمام چرچ کا ویٹیکن (کیتھولک) ماتحتی میں چلے جانا جبکہ خود برطانیہ کے چرچ کا بالواسطہ کیتھولک ماتحتی میں چلے جانا. ویٹیکن کی علم و حلم پر مبنی سخت اور طویل کاوشوں کے تحت انگلستان چرچ کی جانب سے یہ فیصلہ جس شخص نے لیا اور یہ عظیم قربانی دی وہ شخص قرآن فہمی کیلئے عیسائی دنیا میں معروف ہے. اسکی دیگر صلاحیتوں میں عربی، فارسی، لیٹِن اور سنسکرت پر معیاری دسترس بھی معروف ہے.

(نوٹ: مذکوررہ مضمون پہلے فیس بک پر پوسٹ کیا گیا تھالہذا لوگوں نے اس پر کمنٹ بھی کیا ہے افادہ عام کی خاطر ہم اسےبھی شامل کر رہے ہیں۔ادارہ معیشت)
Muhammad Shafiq
دین اسلام بھی مذہب میں تبدیل ہوچکا ہے اس کو بھی واپس دین کی شکل میں لانے کے لیے اتنی ہی محنت درکار ہوگی ۔۔ بہت سخت فیصلے کرنے ہونگے ۔
Ali Akhtar Khan
A well-researched, very informative and ‘in many ways, eyes-opening article. It’s topical, too. However, being in Urdu and use of somewhat terse language and highly technical terminology in the text, has rendered it less profitable to those whose Urdu is not so strong. If it gets translated into English, its reach may increase many fold and it may serve its purpose much better. Please do it and re-post.
Yasar Mahmood
اس قسم کے قومی ثقافتی تصادمات (Clash of Civilisations)ہی ہیں جنہوں نے نظریہ و شعور اور فطری و اصولی بنیادوں پر قائم اس امت__”امت وسط” (سورۃ البقرۃ) کو ایک “آباء پرست اور علاقائی عربی ثقافت کی حامل قوم” بنادیا جسکی دنیا کے آزاد اور اصول پسند علمی ارتقائی معاشروں میں آج واحد شناخت آباء پرستی (Past-Attachment) اور عربی ثقافت (Old Arabian-Tribe Culture) بن گئی ہے. جبکہ تیرہ سو سالہ طویل عرصہ تک مذہب کے نام پر عربی ملوکی و استعماری شہنشاہتوں کے ماتحت رہنے کی وجہ سے اس قوم کی طبع، مزاج، نفسیات اور رویہ عربی و ملوکی ہے. دین اصول، نظریہ، فطری ضوابط اور علم و شعور کو علاقائیت، علاقائی ثقافت یعنی عربیت سے بدلکر انسانی دنیا میں بین الاقوام، بین الملل اور بین المذاہب مستقل قومی تصادمات ہی کو دین قراردیدینے کا واحد ہدف اور مقصد عربی استعمار و ملوکیت کا علاقائی و عالمی استحکام و توسیع تھا. یہ تیرہ سو سال سے بلا فصل جاری قومیت، مستقل قومی تصادمات، ثقافتی تصادماتی فضا اور ماحول ہی ہے جس نے ہر عہد میں “عربی علاقائی معاشی سیاسی اسٹراٹجک اہداف و مقاصد” (Arabian-Colonial-Geo-Political Strategic Purposes) کو پورا کیا اور ہمیشہ عربی ملوکی استعمار کے علاقائی و عالمی استحکام و توسیع کا کام کیا. یہی وجہ ہیکہ عرب ملوک اور حکام نے ہمیشہ قومی ثقافتی تصادمات (Clash of Civilisations) کو مذہب کے نام پر فروغ دیا اور اسکو کبھی ختم نہ ہونے دیا. اسی سلسلہ کی تازہ مثال درجذیل ہے:
23 دسمبر 2015 کو برونائی کی اسلامی حکومت نے اعلان کیا ہیکہ اگر کسی بھی مسلمان نے عید میلاد النبی-مسیح میں شرکت کی تو پانچ سال قید اور بیس ہزار ڈالر جرمانے کی ایکساتھ سزا ہوگی:
5 years prison and $ 20 thousand fine to celebrate the Christmas:
Muslims in the Sultanate of Brunei faces penalties of up to five years in prison and a fine of $ 20 thousand, in the event of finding any of them is in the process celebration of Christmas, for anyone Muslim who celebrates Christmas in the Sultanate of Brunei
https://arabic.rt.com/news/805051-السجن-بعيد-الميلاد-سلطنة-بروناي/
السجن 5 سنوات لمن يحتفل بعيد الميلاد في سلطنة بروناي
يواجه المسلمون في سلطنة بروناي عقوبات تصل إلى السجن خمس سنوات ودفع غرامة تبلغ 20 ألف دولار، في حال العثور على أي منهم وهو بصدد الاحتفال بعيد الميلاد.
arabic.rt.com ·

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *