
اب عوام پوچھ رہی ہے،کیا ۲۰۱۶ء میں اچھے دن آئیں گے؟
اچھے دنوں کا خواب دکھا کر اقتدار حاصل کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کیلئے ۲۰۱۵ء اچھا نہیں رہا۔ سال کا آغاز ہی دہلی اسمبلی الیکشن میں ناکامی سے ہوا اور اختتام بہار کے زخم کے ساتھ۔ مودی کا ’’کرشمہ‘‘ دونوں ریاستوں میں فیل ہوگیا۔ پنچایت الیکشن اور خاص طور پر گجرات میںبی جے پی کی پسپائی نے یہ تلخ پیغام دے دیا ہے کہ محض بیان بازی ، اچھے اچھے نعرے وضع کرنے اور خواب دکھانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ملک کے بڑے حصے میں قحط جیسے حالات، ضروری اشیاء کی یمتوں میں اضافہ اور اپوزیشن کے سخت تیوروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار کیلئے نیاسال ، سال گزشتہ سے زیادہ چیلنج بھرا رہے گا۔
عاصم جلال
۲۰۱۴ء میں اقتدار پر قابض ہونے والی بی جےپی اور اس کے ون مین شو بن کر ابھرنے والے لیڈر نریندر مودی کیلئے ۲۰۱۵ء بہت اچھا سال ثابت نہیں ہوا۔ سال کاآغاز دہلی میں شرمناک شکست سے اور اختتام بہار کے زخم کے ساتھ ہوا۔ پارلیمنٹ میں کام کاج نہ کے برابر رہا، اقتصادی محاذ پر بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کوئی غیر معمولی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ کروڑوں روزگار کا وعدہ کرنے والی حکومت نے میک ان انڈیا اور اسٹارٹ اپ انڈیا کا نعرہ تو دیا مگر وہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا اپنا وعدہ پور ا نہیں کرسکی۔ یکے بعد دیگرے غیر ملکی دوروں نے نریندر مودی کو ’این آر آئی وزیراعظم ‘ کے لقب سے نواز دیا۔ دادری سانحہ نے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ داغدار کی اور اس کے بعد شروع ہونے والی ایوارڈ واپسی تحریک نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ون رینک ون پنشن کا وعدہ وفا نہ کرنے پر فوجیوں کے احتجاج نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا مگر وہ سابق فوجیوں کو پوری طرح سے مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔ مجموعی طور پر میڈیا کے توسط سے حکومت کی جو شبیہ تیار کی گئی تھی اس کی قلعی ۲۰۱۵ء میں بڑی حد تک اتر چکی ہے۔
دہلی اور بہار میں بی جے پی کی شرمناک شکست نے اپوزیشن کی صفوں میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ ۲۰۱۴ء میں جس اپوزیشن کو سانپ سونگھ گیا تھا اس نے ۲۰۱۵ء میں اپنے وجود کا پورا احساس دلایا۔ اس دوران بی جے پی کا اندرو نی انتشار بھی پوری شدت کے ساتھ باہر آنے لگا ہے۔ نریندر مودی جس کے تعلق سے کہا جارہاتھا کہ ۲۰۱۴ء کی فتح کے بعد پارٹی میں ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی میں جرأت نہیں بچی کو بہار الیکشن کے شرمناک نتائج کے بعدہرطرف سے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کے مارگ درشک منڈل کا بہار الیکشن کی ذمہ داری طے کرنے کیلئے میڈیا میں مکتوب جاری کرنا، ارون شوری کی براہ راست دفتر وزیراعظم پر تنقید اور اسے اب تک کا سب سے کمزور پی ایم او قراردینااور اب رکن پارلیمنٹ کیرتی آزاد کی دہلی کرکٹ اسوسی ایشن کی مبینہ بدعنوانی کے حوالے سے تحریک یہ ظاہر کررہی ہے کہ ۲۰۱۶ء اپنے مرکزی حکومت اور بی جے پی کیلئے مزید مسائل لے کر آرہا ہے۔
دہلی اور بہار کے الیکشن میں وزیراعظم نریندر مودی نے بے انتہا محنت کی تھی اور دونوں الیکشن ان ہی کا چہرا دکھا کر لڑے گئے تھے اس کے باوجود بی جے پی کا چاروں شانے چت ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ عوام ۲۰۱۴ء کے خمار سے باہر آچکے ہیں۔ مودی کا وہ ’کرشمہ ‘ دھیرے دھیرے زائل ہونے لگا ہے جس کے بڑے چرچے تھے۔حد تو یہ ہے کہ بی جے پی اپنا اثر گجرات میں بھی کھونے لگی ہے۔ جہاں وہ گزشتہ ۱۵؍ برسوں سے بلا شرکت غیرے اقتدار پر قابض ہے۔ عوام کو اسمارٹ سٹی کا خواب تو دکھایا جارہا ہے مگر ملک کے بڑے حصے کے قحط سے متاثر ہوجانے کے سبب ۲۰۱۶ء وزیراعظم نریندر مودی کیلئے اپنے ساتھ کئی چیلنج لے کر آرہا ہے۔ اس سال مغربی بنگال، تمل ناڈو، کیرالا ، آسام اور پانڈیچری میں الیکشن ہونے ہیں۔ ان ریاستوں میں بی جے پی پہلے ہی بہت زیادہ اثر نہیں رکھتی جبکہ اپوزیشن کی پارٹیاں بہار میں سیکولر اتحاد کے تجربے کی کامیابی کے بعد اسے دہرانا چاہیں گی۔ مغربی بنگال میں کانگریس بائیں محاذ یا ترنمول کانگریس سے ہاتھ ملا کر زعفرانی پارٹی کے پرکتر سکتی ہے جبکہ آسام میں یو ڈی ایف اور کانگریس کے اتحاد کو بعید از قیاس نہیں کہا جاسکتا۔
سیاسی محاذ کے بعد جس دوسرے محاذ پر مرکزی حکومت کو شدید ترین چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے مہنگائی کا مسئلہ۔ ۲۰۱۵ء میں چونکہ ملک کا ایک بڑا حصہ قحط سالی سے متاثر ہوا ہے اس لئے زرعی پیداوار کا متاثر ہونا فطری ہے۔ایسے میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ مہنگائی وہ موضوع ہے جس پر بی جے پی یو پی اے حکومت کو سب سے زیادہ آڑے ہاتھوں لیاکرتی تھی اب وہ خود اس سلسلے میں دفاعی پوزیشن پر ہے۔ مودی نے چونکہ لوک سبھا الیکشن جیتنے کےبعد عوامی سطح پر پہلا بیان یہی دیاتھا کہ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ اس لئے اب انہیں عوام کو جواب دینا ہوگا کہ اچھے دن کہاں ہیں۔ اس کے علاوہ سالانہ ۲ء۵؍ کروڑ ملازمتوں کا وعدہ پورا نہ ہونے پر وہ نوجوان طبقہ بھی پارٹی سے دور ہوسکتا ہے جس پر پارٹی کا بہت زیادہ انحصار ہے۔
اس بیچ بی جےپی کا اندرونی خلفشار بھی دھیرے دھیرے منظر عام پر آنے لگا ہے۔ بدعنوانی کے خاتمے کے جس نعرے کے ذریعہ انتخابی مہم چلائی گئی بھی اسی بدعنوانی کے الزامات اب بی جے پی لیڈروں پرلگنے لگے ہیں۔ اہم بات یہ ہےکہ یو پی اے سرکار کو سپریم کورٹ میں کھینچنے اور عدالتی محاذ پر اس کی مٹی پلید کرنے میں اہم رول ادا کرنے والے سبرامنیم سوامی اب خود اپنی پارٹی کے خلاف متحرک ہوتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت سازی میں نظر انداز کئے گئے سوامی نے کیرتی آزاد کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جو دہلی کرکٹ اسوسی ایشن کے حوالے سے ارون جیٹلی کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ایسے میں مودی حکومت کیلئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’بہت کٹھن ہے ڈگر پن گھٹ کی۔‘‘n