داعش کی مخالفت کا مطلب

daish ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)

پچھلے دنوں داعش کے متعلق مضامین پرہمارے ایک خیر خواہ قاری نے ہم سے شکایت کی کہ داعش کی مخالفت میں آپ شام میں صدر بشار الاسد کے مظالم کو بھول رہے ہیں؟ داعش کی مخالفت میں مضامین لکھ کر گویا آپ یہ بتا نا چاہ رہے ہیں کہ داعش کے مقابلہ شام کا صدر بشار الاسد اور ان کے حامی حق بہ جانب ہی نہیں بلکہ داعش کی دہشت گردی کے شکار اور مظلوم بھی ہیں۔ کہیں داعش کی اس مخالفت کا مطلب بشارالاسد کی حمایت تو نہیں؟یہ بات صرف انہی کے نہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کے ذہن میں بھی آئی ہوگی سو اسکا جواب دیناہم ضروری سمجھتے ہیں ۔تو صاحب! داعش کی مخالفت میں بشارالاسد کے مظالم کو نظر انداز کر نے کا سوال ہی نہیں اٹھتااور داعش کی مخالفت میں ہمارے مضامین میں کہیں ایک لفظ بھی بشار الاسد کی حمایت میں نہیں تھا ۔اور داعش کی مخالفت بھی ہم نے شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کی نیت سے قطعی نہیں کی اور ہم سمجھتے ہیں کہ داعش کے بہانے بشارالاسد کی حمایت کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ بشارالاسد کے اقدامات بھی داعش کی طرح مخالفت ہی کے لائق ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حمایت یا مخالفت جو کچھ ہو وہ محض مسلک ،فرقہ ،گروہ ،جماعت یا جذبات کی بنیا د پر نہ ہو بلکہ شامی عوام کی بنیاد پر ہو اور وہ بھی مبنی بر انصاف ہو کیونکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ’انصاف کے علمبردار بنو چاہے اس کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے کسی عزیز پر ہی کیوں نہ پڑ تی ہو‘ تو آئیے شام کے متعلق اور بشارالاسد کی حمایت یا مخالفت سے متعلق کوئی رائے قائم کر نے سے پہلے شام کی موجودہ صورت حال پر نظرڈالتے ہیں ۔ ’عرب عوامی انقلاب ‘ شام میں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا ہے ۔شام کی آبادی میں شیعہ اور سنی کا بہت بڑا اور واضح فرق ہے وہاں سنی آبادی زیادہ ہے لیکن حکمرانی شیعہ علوی فرقہ کے پاس ہے اور حکومت پر الزام لگتا آیا ہے کہ وہ سنیوں کو نظر انداز او ر ہراساں کرتی ہے، اس لئے یہ خانہ جنگی مسلکی تنازعہ کی صورت ابھری ہے ۔اسی طرح یہاں کردوں کی بھی کافی آبادی ہے ۔کرد سنی ضرور ہیں لیکن وہ ایک الگ قوم کی حیثیت یا شناخت کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور شاید اسی قومی تفریق کی وجہ سے وہ سنیوں سے بھی بر سر پیکار ہیںاس طرح یہ خانہ جنگی مسلکی قومی اور علاقائی بھی ہو گئی ہے۔شام کی حکومت کے خلاف جو گروہ لڑ رہے ہیں وہ آپس میں متحد نہیں بلکہ باہم دست و گریباں ہیںاسی طرح اس خانہ جنگی میں علاقائی اور بین الا قو ا می طاقتوں کا رول بھی بڑا قبیح ہے ۔سودی عرب اور اس کے اتحادی ابتداء سے عوامی حمایت کے نام بشار الاسد کی مخالفت کر رہے ہیں اور اب ان کی معزولی کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ ایران بشارالاسد کے خلاف شامی عوام کے احتجاج اور مظاہروں کو اور اب خانہ جنگی کو امریکہ و اسرائیل کی سازش کہتا آیا ہے اوراب بشارالاسد کی معاشی اور عسکری مدد بھی کررہا ہے اور حزب اللہ تو باقائدہ علی الاعلان شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہے ۔اور یہ دونوں خیمے اپنے اپنے نظریات میں مخلص نہیں بلکہ ان کا یہ عمل دراصل سنی اور شیعہ تفریق اور خطہ میں اپنی یا اپنے مسلک کی برتری قائم کر نے کی نیت پر مبنی ہے۔جس کا ثبوت بحرین ہے کہ جب عوامی انقلاب بحرین پہنچتاہے تو دونوں کے چہروں پر پڑے نقاب کو اٹھا دیتا ہے ۔بحرین کا معا ملہ شام کے بالکل الٹ ہے یہاں اکثریت شیعہ ہے لیکن حکومت سنی خاندان کے پاس ہے،اوریہاںبھی حکومت پر شیعوں کو نظر انداز کر نے کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ یہاں سعودی عرب اور ایران کی پالسی بھی اسی مناسبت سے بالکل الٹ ہے ایران یہاں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج اور مظاہروں کی حمایت کرتا ہے اور حکومت کی معزولی چاہتا ہے جبکہ سعودی عرب عوامی انقلاب کو ایرانی سازش قرار دے کر حکومت کا حامی و ناصر ہے۔اس کا مطلب ہے ایران اور سعودی عرب دونوں کی پالسی بد نیتی پر مبنی ہے اور یہ دونوں ممالک اور ان کے اتحادی’ عر ب عوامی انقلاب‘ کو اپنا اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے استعمال کر رہے اور اسی مناسبت سے اسے مختلف مقامات پر مختلف صورتوں میں ڈھال رہے ہیں۔ اس دوران بین الاقوامی طاقتوں میں سے ایک طرف امریکہ اور اسکے اتحادی بھی اپنی چال میں مصروف ہیںشام میں یہ لوگ ’عوامی رائے ‘ کے احترام کی دہائی دے کر بشار الاسد کی مخالفت کر رہے ہیںاور انکی معزولی چاہتے ہیںجبکہ انہی لوگوں نے مصرمیں عوامی رائے کے احترام میں منتخب ہوئے صدر کی فوج کے ذریعہ معزولی کی حمایت کی ہے وجہ صاف ہے کہ بشارالاسد کی پالسی اب تک امریکہ مخالف رہی ہے یہاں تک کہ اس شیعہ صدر نے عراق کے سنی حکمراں صدام حسین کے خلاف امریکی حملہ کی بھی مخالفت کی تھی ،سو امریکہ اور اسکے اتحادی یہاں ’عوامی حمایت ‘کا کھیل کھیل رہے ہیں وہ تو روس اور چین نے انکی خواہشات پوری نہیں ہونے دیں ورنہ وہ شام کو کب کا لبیا بنا دیتے جسے وہ’ عوامی حمایت‘ کے نام پر خانہ جنگی کی نہ ختم ہونے والی آگ میں جھونک کر فرار ہوگئے۔اور اس آگ نے اچھے خاصے ملک کو چار باہم دست و گریباںٹکڑوں تقسیم کر رکھا ہے۔ دوسری طرف بشار حکومت کی حمایت میں روس کے باقائدہ اس جنگ میں شریک ہونے کی وجہ سے یہ خانہ جنگی امریکہ و روس کی سرد جنگ کا بھی میدان ہو گئی ہے ۔ٍجو شامی عوام کے لئے مزید مہلک ہے۔ اس صورت حال میں بھی شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت اسلئے نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنا اقتدار بچانے کے لئے اپنے ہی ملک کے عوام( جن کی حفاظت اور حقوق کی ادائیگی کے وہ ذمہ دار ہیں) کے نہ صرف انسانی شہری اور مذہبی حقوق پامال کر رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف طاقت کا بھی بے دریغ استعمال کر رہے ہیںان کی افواج بغاوت کچلنے کے لئے مردوں عورتوں بوڑھوں اور بچوں کی تمیز کئے بغیر ٹینک، ہیلی کاپٹر گن شپ ،مشین گن، راکٹ، مارٹر ہتھ گولوں، بموں اور بندوقوں کا بے دریغ استعمال تو کر ہی رہی ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا ہے اسی طرح عورتوں کے خلاف جنسی زیادتی کو وہ لوگ نفسیاتی ہتھیار کی طرح استعمال کر رہے ہیںنیز انہوں نے اپنے مخالفین کے زیر کنٹرول یا حمایتی علاقوں کا پوری آبادی سمیت سخت محاصرہ کر رکھا ہے جس میں اشد ضروریات زندگی کا سامان یا کسی بھی قسم کی کوئی ضیر جنگی مدد کے داخلے کی اجازت بھی بہت مشکل سے ملتی ہے لیکن حضرات !جو کچھ بشارالاسد کر رہے ہیںالزام ہے کہ کم و بیش وہی کچھ ان کے مخالفین بھی کر رہے ہیںتو ایسی صورت میں کیا ان کے مخالفین کی حمایت صحیح اور حق بہ جانب ہوگی؟اسی طرح اگر شام کی موجودہ صورت حال میں بشارالاسد معزول کر دئے گئے تو ان کے بعد کون لوگ شام کے ذمہ دار اور عوام کے نمائندے ہوں گے ؟ یہ سوال بڑا اہم اور پیچیدہ ہے ابھی جس طرح کے حالات وہاں ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ بشارالاسد کی معزولی سے وہاں خانہ جنگی میں کوئی فرق نہیں پڑیگا بلکہ ان کے مخالف گروہبدستور آپس میںلڑتے رہیں گے ۔داعش کی جنگی طاقت کا اندازہ لگانے والوں کا خیال ہے کہ وہ لمبے عرصہ تک معرکہء کارزار گرم رکھ سکتی ہے اور داعش کے مقابل دوسر ے باغی گروہوں کو امریکہ کی حمایت و مدد بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔اور اگر بشار کے بعد امریکی اتحاد نے داعش کے خلاف باقائدہ زمینی جنگ بھی شروع کردی تو اس کا تصفیہ جلد ہی ہوجائیگا ایسا کچھ نظر نہیں آتا ،اور اگر داعش کو ختم کردیا گیا تو بھی دوسرے باغی گروہ متحد ہوجائیں گے اور شام میں عوامی جمہوریت آجائیگی اور امن و امان قائم ہوجائیگا اس کی ضمانت نہیں دی جاسکتی بلکہ قوی خدشہ ہے کہ ایسے حالات میں شام میں بھی وہی ہوگا جو لبیا میں ہوا یا اس سے بھی خراب۔یا پھر ایسا ہوسکتا ہے کہ امریکہ اپنے علاقائی حلیفوں یا غلاموں کی مدد سے مصر کی طرح شام کے اقتدار پربھی کوئی( کٹھ پتلی) فوجی جنرل بٹھا دے ۔اور عوام پھر اسی حالت میں آجائیں جیسے بشار کے زمانے میں تھے۔لہٰذا ہمارا خیال ہے کہ شام کی خانہ جنگی میںکسی بھی فریق کی حمایت سے پہلے سارے منظر نامے کو نظر میں رکھنا اور شامی عوام کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *