Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

عہد حا ضر اور صلح حد یبیہ

by | Feb 10, 2016

Tawaf e Kaba

سید قمر الا سلا م

تار یخ اسلا م میں صلح حد یبیہ نظر یا تی سیا ست کی اعلیٰ تر ین مثا ل ہے ، یہ ایک ایسا و اقعہ ہے جس کے نتیجے میں اسلا م حد و د عر ب سے نکل کر بین الا قو امی حیثیت اختیا ر کر گیا ۔ شو ال سنہ ۶ ہجر ی میں نبی کر یم ﷺ کو خو اب میں بشا ر ت ہو ئی اور ذ و ا لقعد ہ سنہ ۶ ہجر ی میں آ پ مکہ ر و انہ ہو ئے ، سا تھ میں چو د ہ سو صحا بہ کرا م بھی شر یک سفر تھے ، ذ و ا لحلیفہ پہنچ کر عمرہ کا لبا س ز یب تن کر لیا ۔ قر با نی کے جا نو رو ں کو نشا ن ز د کیا اور جب اسلا می کا رو اں ’’ عسفا ن ‘‘ پہنچ گیا ، تو بنو خز ا عہ کے ایک شخص نے آ کر بتا یا کہ قر یش نے اپنے تما م حلیفوں کو اکٹھا کر نا شر و ع کر دیا ہے ، وہ مسلما نو ں کو مکہ میں دا خل ہو نے سے بہر صو ر ت ر و کنا چا ہتے ہیں ۔
رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہلا بھیجا : ہم عمر ہ کی غر ض سے آ ئے ہیں نہ کہ جنگ کے لیے ۔ جنگ و جد ال نے قر یش کو اند ر سے کھو کھلا کر دیا ہے، ان کے حق میں بہتر یہ ہے کہ ایک مد ت کے لیے ہم سے مصالحت کر لیں اور مجھ کو اہل عر ب کے ہا تھ پر چھو ڑ د یں ، اگر و ہ لو گ اس پر ر ضا مند نہیں ہو تے ، تو اس ر ب کی قسم جس کے قبضے میں میر ی جا ن ہے ، میں ان سے لڑ تا ر ہو ں گا ، یہا ں تک کہ میری جا ن ہے ، میں ان سے لڑ تا ر ہو ں گا ، یہا ں تک کہ میر ا سر تن سے جد ا ہو جا ئے ، یا اللہ اپنا فیصلہ ظا ہر فر ما د ے ۔
جب قر یش کو یہ با ت معلو م ہو ئی ، تو انھو ں نے حیل و حجت کی ، لیکن با لآ خر عر وہ بن مسعو د ثقفی کی فہما ئش پر وہ گفت و شنید کے لیے ر ضا مند ہو گئے ۔ عر وہ ، ر سو ل اکر م ﷺ کے پاس آ ئے ، آ پ سے تبا دلہ خیا ل کیا اور صحا بہ کر ام کی محبت و عقید ت کا دل مو ہ لینے و لا منظر بھی د یکھا ۔ مسلما نو ںکی طر ف سے ر سو ل اللہ نے حضر ت عثما ن ؓبن عفا ن کو سفیر بنا کر بھیجا ، قر یش نے حضر ت عثما ن کو نظر بند کر دیا اور یہ خبر عا م ہو گئی کہ حضر ت عثما ن قتل کر د یے گئے ۔ ر سول اکر م نے اس پر نہا یت کڑ ا ر خ ا پنا یا اور بو لے : خو ن عثما نؓ کابد لہ لینا ہما ر ا فر ض ہے ۔اس کے بعد اصحا ب ر سو ل نے آ پ ﷺ کے ہا تھ پر جا ں نثا ر ی کی بیعت کی اور مر نے ما ر نے کی قسمیں کھا ئیں ، بعد میں معلو م ہو ا کہ یہ افو ا ہ تھی ۔
آ خر کا ر قر یش کی طر ف سے سفا ر ت کے لیے عبد اللہ بن سہیل یا سہیل بن عمر و کو بھیجا گیا اور اس معا ہد ے کی تکمیل ہو ئی ۔ مشہو ر ا سکا لر ڈا کٹر حمید اللہ نے اس کے متن کو من و عن نقل کیا ہے ، ہم اس کا تر جمہ پیش کر ر ہے ہیں :
یہ صلح نا مہ محمد بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن سہیل ( یا سہیل بن عمر و ) کے اتفا ق سے طے پا یا ہے ، ان د و نو ں نے د ر ج ذ یل نکا ت پربا ہمی مصا لحت کی ہے :
۱۔ فریقین کے در میا ن دس سال تک جنگ بندرہے گی، امن و ماان بحال ہو گا ۔
۲۔ محمد ﷺ کے اصحا ب میں سے جو شخص حج، عمرہ یا تجا رت کے اراداے سے مکہ آئے گا اس کی جان و مال کو امن حا صل ہو گا ، اسی طرح قر یش کا کو ئی فر د شا م اور مصر کے سفر میں مد ینے کے را ستے سے گز ر ے، تو اُسے بھی جان وما ل کا اما ن ملے گا۔
۳۔ قر یش کاجو شخص اپنے ولی کی اجاز ت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس چلا جا ئے ، تو اُ سے قر یش کے پاس واپس بھیج دیا جا ئے گا ، لیکن اگر آپ کے سا تھیو ں میں سے کو ئی قر یش کے پاس آ جا ئے تو اُ سے و اپس نہیں کیا جا ئے گا ۔
۴۔ ہما رے سینے ایک دو سرے کے لیے کشا د ہ ر ہیں گے اور ہم ایک دوسرے کے خلا ف ڈ ھک چھپ کر ، یا کھلم کھلا کو ئی بھی کا رر وا ئی نہیں کریں گے ۔
۵۔ تما م قبا ئل کو یہ اختیا ر ہو گا کہ وہ محمد ﷺ یا قر یش میں سے جس کے سا تھ چا ہیں حلیفا نہ قا ئم کر سکتے ہیں ۔
۶۔ اس سا ل آ پ بغیر عمر ہ کے و اپس جا ئیں گے اور آ ئند ہ سا ل تین د نوں کے لیے آ پ لو گو ں کے لیے ہم مکہ خا لی کر دیں گے ۔ آ پ سفر ی ہتھیا رو ں اور نیام میں ر کھی ہو ئی تلو ا روں کے سا تھ تین ر و ز یہا ں ٹھہر سکیں گے ۔
یہ مصا لحت بہ ظا ہر یک طر فہ تھی ، جس کے سبب اصحا ب ر سو ل ر نجید ہ بھی ہو ئے ، کیو ں کہ وہ اس مصا لحت کو اسلا م کی ذ لت سمجھ ر ہے تھے ، مگر ابھی و ہ وا پس مد ینہ پہنچے بھی نہ تھے کہ اللہ رب العز ت نے اُ نھیں فتح مبین کی خو ش خبر ی سنا دی ۔ اس صلح کے ذ ر یعے مسلما نو ں کو اتنے فا ئدے ہوئے جو بر سو ں جنگ و جد ال کے بعد بھی ممکن نہ تھے ، مثلاََ:
۰ ہجر ت کے بعد سے اب تک مسلما نو ں کے قتا ل میں مصر و ف ر ہنے کی وجہ سے مخا لفین تک اسلا م کی صحیح معلو ما ت نہیں پہنچ سکی تھیں ، لیکن جب صلح میں دس بر س تک جنگ بند ی کا معا ہد ہ ہو ا تو اُ س سے مسلما ن اور مشر کین کے در میا ن کھلی فضا پید ا ہو گئی ، آ مد و ر فت کا سلسلہ شر وع ہوا ، لین د ین کے معا ملا ت ہو نے لگے ، ایک دو سر ے کے اخلاق و کر د ا ر کو قر یب سے د یکھنے کا مو قع ملا ، اس سے پہلے مشر کین کے دل میں مسلما نو ں کے با ر ے جومنفی تصو را ت تھے ، وہ تبد یل ہو نے لگے اور ایک صا ف و شفا ف کر دار اور اعلیٰ اخلاق کی کشش ا ن کے لیے اسلا م سے قر یب کا ذ ر یعہ بن گئی۔
۰ صلح حد یبیہ نے اند ر و ن ملک تصا د م جیسے حا لا ت سے نجا ت د ی اور یہ مو قع فر اہم کر دیا کہ عر ب سے با ہر بھی د عو ت کی ا بتد ا کی جائے ۔ چنا نچہ عمر ۃ القضا ء کے فو راََ ہی بعد یعنی یکم محر م سنہ ۷ہجر ی کو حضو ر ﷺ نے سلا طین و ا مر اکود عو ت د ینا شر و ع کر دیا ۔
۰ مملکت مد ینہ کے لیے قر یش کے علا وہ خیبر کے یہو د بھی مستقل خطر ہ بنے ہو ئے تھے اور بہ یک وقت دو د شمنو ں سے بر سر پیکا ر ہو نا نقصا ن دہ تھا ، اس لیے نہ تو قر یش کی طرف پیش قد می کر نا ممکن تھااور نہ خیبر کو د با نا آ سا ن تھا ،لیکن قر یش سے مصا لحت کے بعد یہو د یو ں پرقا بو پانا آ سا ن ہو گیا اور پھر خیبر ، وا دی ا لقر ی ، تیما ، تبو ک اور فد ک کی یہو د ی بستیا ں یکے بعد د یگر ے فتح ہو تی چلی گئیں ، اِ د ھر و سط عر ب کے قبا ئل بھی د ھیر ے د ھیر ے مسلما نو ں کے تا بع فر ما ن ہو نے لگے ۔
۰ اب قبا ئل عر ب کو یہ اختیا ر مل گیا تھا کہ وہ حکو مت مد ینہ کا سا تھ د ے ، اس کی ر و سے نئے قبا ئل بے ر و ک ٹو ک مسلما نوں کی حما یت کر سکتے تھے ، بلکہ بنو خز اعہ نے تو عین معا ہد ہ کے وقت ہی مسلما نو ں کے سا تھ حلیفا نہ تعلق کا اعلا ن کر دیا ۔
۰ عر ب میں یہ رو اج تھا کہ حر مت وا لے مہینو ں میں جنگیں مو قو ف ہو جا ئیں اور بے رو ک سب کو کعبہ میں حا ضر ی کا اختیا ر ہو تا ، یہ ایک مسلم با ت تھی ۔ لیکن قر یش نے اپنی انا کے ز عم میں مسلما نو ں کو کعبہ تک آ نے نہیں د یا ، اس سے سا ر ی د نیا پر قر یش کی ہٹ د ھر می و اضح ہو گئی اور مسلما نو ں کے تعلق سے ہم در دی اور لگا ؤ پید ا ہو ا ۔
امت مسلمہ کا مو جو د ہ بحر ان اور زصلح حد یبیہ
عا لمی منظر نا مے پر نگا ہ ر کھنے وا لا اچھی طر ح جا نتا ہے کہ مسلم د نیا کس بے کسی میں مبتلا ہے ، اجتما عی اور انفر ا د ی ، سیا سی اور سما جی ، ملکی اور بین الا قو می ہر سطح پر مسلما نو ں کو جس شر مند گی کا سا منا ہے ، وہ سا ر ی د نیا کے سا منے ہے ۔ ہما را ما ننا ہے کہ تا ر یک حا لا ت میں امید کی صرف ایک کر ن ہے اور وہ ہے سر چشمہ ہد ٔ ایت ، سیر ت نبو ی کی طرف وا پسی ، اس لیے کہ ذ ا ت ر سو لﷺ سا ر ی کا ئنا ت کے لیے ’ ربا نی اسو ۂ حسنہ ‘ کا د ر جہ ر کھتی ہے ، جس سے ہٹ کر کو ئی بھی کو شش ، اچھے انجا م تک نہیں پہنچا سکتی ۔
شخصیا ت کے بجا ے مقصد پر نظر ر کھیں
آ ج کچھ لو گ ایسے پید ا ہو گئے ہیں ، جو دین حق سے ز یا دہ چند مشہو ر نا مو ں کے ار د گر د ا پنی اور امت کی تو ا نا ئی صر ف کر رہے ہیں ۔ ذ ہن میں ہر وقت یہ با ت ر ہنی چاہیے کہ د ین کُل ہے ، اس کے علاوہ ہر شے محض ایک جز کا د ر جہ ر کھتا ہے ۔ کو ئی بھی شخص خو اہ علم و فضل میں کتنا بھی عظیم ہو ، و ہ دین و مذ ہب اور مسلک کا مر ا د ف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی بھی عا لم کو ہد ایت و ضلا لت یا کفر و ایما ن کی کسو ٹی بنا یا جا سکتا ہے ۔ یہ حق قر آ ن و سنت کے لیے تا قیا مت محفو ظ ہے ۔ ہما ر ی نگا ہ چند نا مو ں کے بجا ے ، کتا ب و سنت پر ہو نی چاہیے ۔ آ ج ہر شخص اپنی محبو ب شخصیت کو عالم کے لیے و اجب التقلید تصو ر کر تا ہے ۔ شا ید یہی وجہ ہے کہ امت اب تک اتحا د سے محر و م ہے ۔
صلح نا مہ لکھنے کا آ غا ز ہو ا ، رسو ل ﷺ نے حضر ت علی کو حکم د یا لکھو :
سہیل نے کہا کہ ہم ر حمن و رحیم کو نہیں جا نتے، ہما رے یہا ں با سملک اللہ لکھنے کا ر واج ہے ، تو آ پ بھی و ہی لکھے ۔ حضو ر ﷺ نے قبو ل کر لیا ۔ پھر آ پ نے کہا لکھو :
یہ معا ہد ہ محمد رسو ل اللہ اور سہیل بن عمر و کے در میا ن ہوا ۔ سہیل نے کہا : اگر ہم لو گ آ پ کو رسو ل اللہﷺ ما نتے ہو تے ، تو آ پ سے جنگ کیو ں کر تے ؟ اس لیے آ پ اپنا اور اپنے والد کا نا م لکھوا ئیے۔
چنا نچہ حضو ر ﷺ نے اپنے ہا تھ سے اُ سے مٹا کر اس کی جگہ ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھو ا یا ۔
صلح حد یبیہ کا یہ منظر ہما ری مخلصا نہ تو جہ کا طا لب ہے کہ نبی کر یم ﷺ کا مقصد اتنا عز یز تھا کہ دو ایسے الفا ظ کو مٹا دیا گیا جن کی صد ا قت میں کو ئی شبہ نہیں ۔ اس سے وہ لو گ عبر ت حا صل کر یں جو چند نا مو ں اور نعر وں کو اصل د ین سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ظا ہر ہے کہ کو ئی نا م ان مٹا ئے جا نے وا لے الفا ظ سے افضل نہیں ہو سکتا ۔ تو دین و مذ ہب کا عنو ا ن کسی کو کیو ں کر بنایا جا سکتا ہے ۔اس لیے دا عی کی نگا ہ میں بہر صو ر ت دین کی اہمیت ہو نی چا ہیے ۔
وقتی نقصا ن کے بجا ے د ائمی مفا د کو پیش نظر ر کھنا
جس وقت صلح نا مے میں یہ شر ط لکھی گئی کہ قریش کا کوئی آ د می مد ینہ پہنچ جائے ، تو وہ واپس کر دیا جا ئے گا لیکن اگر کو ئی مسلما ن مکہ چلا جا ئے تو اُ سے وا پس نہیں کیا جا ئے گا ، عین اسی وقت ابو جند ل بیڑ یاں پہنے ہو ئے پہنچ گئے ۔ سہیل نے کہا : اس شرط کے مطا بق یہ پہلا شخص ہے ، جسے آ پ کو ہما رے سپر د کر نا ہو گا۔ حضو ر نے فرما یا : ابھی تو معا ہد ہ ادھو را ہے ، اس لیے ابو جند ل کو اس شر ط سے الگ سمجھا جا ے ۔ سہیل نے کہا : پھر تو صلح ہو ہی نہیں سکتی ، چوں کہ اس صلح میں بہت سی مصلحتیںتھیں ، اس لیے آ پ نے ابو جند ل کو قر یش کے سپر د کر دیا گیا۔
مسلما نوں کے لیے یہ ہیجا ن انگیز منظر تھا اور ابو جند ل کی حا لت ان کے لیے نا قا بل بر د ا شت تھی ، لیکن رسو ل ﷺ کی نظر اس اعلیٰ مقصد پر تھی ، جس سے د ین کے عظیم مفا د و ابستہ تھے ، اس لیے اس در د نا ک منظر کو آ پ نے نہا یت سنجید گی کے سا تھ بر د اشت کیا اور مصا لحت کو قا ئم ر کھا ۔ یہ نکتہ ہما رے لیے بڑ ی اہمیت ر کھتا ہے کہ دا عی کی نگا ہ میں بہر صو ر ت ذ ا ت و سما ج کے بجا ے د ین کا اعلیٰ مقصد ہو نا چا ہیے۔
ٹکر اؤ سے پرہیز اور مصا لحت میں نئے امکا نا ت کی تلا ش
کچھ لو گوں پر اقا مت دین کا نشہ اس قد ر سو ا ر ہے کہ وہ ہرتیسر ے آ د می کو بم با ر و د سے اُ ڑ ا د ینا چا ہتے ہیں ، وہ جہا د کے ذ ر یعے احیا ئے د ین کا خو اب د یکھ ر ہے ہیں ، اس غلط طر ز فکر و عمل نے اسلا م کی شبیہ کو بر ی طر ح دا غ دا ر کر دیا ہے ۔ اللہ اپنی پہچا ن ا ر حم الر احمین کے لفظ سے اور پیغمبر اسلا م کا تعا ر ف رحمتہ للعا لمین کے لقب سے کر و اتا ہے ، لیکن پچھلے چند بر سو ں میں جہا د مقد س کے نا م پر جو تحر یکا ت منظر عا م پر آ ئی ہیں ، ان کے عمل و کر دا ر سے رحمت کا کو ئی مفہو م نہیں پیدا ہو تا ۔ دو سر ی طر ف ایک گر وہ ایسا بھی ہے ، جو اپنے مو قف سے اختلا ف ر کھنے و الو ں کی کر دا ر کشی کی مہم میں لگا ہو ا ہے ، ہر جلسہ ، ہر کا نفر نس اور ہر محفل میں ان کا یہی مشغلہ ہے ، جس کا اثر یہ ہو ر ہا ہے کہ عا م مسلما نو ں کا علما سے جو وا لہا نہ تعلق تھا ، وہ کمز و ر پڑ گیا ہے ۔ چنا نچہ اس قبیح عمل سے بچنے کے سا تھ ، ہمیں سیر ت ر سو ل سے رو شنی لینے کی ضر و ر ت ہے ۔ ایسے لو گ مد عو کی ہد ایت سے زیا دہ اس کو بر سر عا م ر سو ا کر نے کے خو ا ہش مند ر ہتے ہیں اور مخا لفین کی قلعی کھو ل کر وہ فخر و ا نبسا ط محسو س کر تے ہیں ، وہ مد عو سے لڑ جھگڑ کر د عو ت د ینے پر یقین ر کھتے ہیں جو کھلی ہو ئی حما قت ہے ۔
ہجر ت کے بعد سے چھ سا ل تک مملکت اسلا میہ د شمنو ں کے سا تھ بر سر پیکار ر ہی ، اس کی و جہ سے اعلیٰ پیما نے پر د عو تی مہم شر و ع نہیں ہو سکی تھی، اس لیے اب قتل و قتا ل کے بجا ے مصا لحت اور امن وا ما ن کے سا یے میں اسلا می د عو ت پُر ز و ر طر یقے پر شر و ع ہو ئی ، جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ اعلا ن نبو ت کے بعد سے اب تک کے انیس بر سو ں سے کہیں زیادہ اسلا می د عو ت کا دا ئر ہ وسیع ہوا ، خا لد بن و لید اور عمر و بن عا ص جیسے سپہ سا لا ر اسلا م کے دامن میں آ گئے ۔
آ ج سب سے بڑ ی ضر و ر ت یہ ہے کہ رسو ل ﷺ کی سیر ت طیبہ با لخصو ص صلح حد یبیہ جیسے واقعا ت سے عبر ت اور نصیحت حا صل کی جائے ، جس میں ہما رے تما م مسا ئل کا حل مو جو د ہے اور اس کے بغیر نہ تو د عو ت میں د ر د و سو ز پیدا ہو سکتا اور نہ ہی اقا مت دین کا خو اب شر مند ۂ تعبیر ہو سکتا ۔ یہ صد ی اسلا م کی صد ی ہے ، لیکن کیا ذ ہنی طو ر پر ہم اسلا م کی فتح مبین کے لیے تیا ر ہیں ؟ یہ سب سے بڑ ا سوا ل ہے .

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...