
تقسیمِ ہند: کیا انسانی ذہن کی تقسیم کا شاخسانہ تھا

ہند و پاک کی سیاسی و عسکری قیادت کے نام ایک پیغام
یاسر محمود فلاحی
(راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ترجمان بی جے پی کے حالیہ سکریٹری رام مادھو نے’’اکھنڈ بھارت ـ‘‘کی گفتگو کا آغاز کرکے تقسیم ہند کی بحث کو ایک بار پھر چھیڑنے کی کوشش کی ہے۔ہندوستانی عوام اس بات سے واقف ہے کہ تقسیم ہند میں سنگھ پریوار نے انتہائی گھنائونا کردار ادا کیا تھا۔حتی کہ سنگھ پریوار سے وابستہ ناتھورام گوڈسےنے کرم چند گاندھی(بابائے قوم مہاتما گاندھی) کو گولی مار کر ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ جو کوئی بھی مسلمانوں کے حقوق کے لیے گفتگو کرے گا اس کا یہی حشر ہوگا۔اسی طرح نگریزوں کے اشاروں پر محمد علی جناح نے ہند و پاک کے لاکھوں انسانوں کی لاش پر جواسلامی جمہوریہ قائم کیاتھا آج وہ کن صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اس کی واضح تصویر آئے دن اخبارات کی شاہ سرخیوں میں نظر آتی ہے ۔حالیہ مضمون اس حوالے سے اہم ہے کہ دونوں جگہ کا حکمراں اور سازشی ٹولہ کس طرح عوام کو دور رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے جبکہ اس کے علی الرغم آج بھی برصغیر کی عوام ایک دوسرے کو اتنا ہی چاہتی ہے جتنا ایک گھر کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کا خیال کرتے ہیں۔ادارہ معیشت)
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ: “مشرق” سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
آج ایک سو چھبیس کروڑ انسانوں کیلئے قابل نفرت و ناقابل برداشت ہیں پینتیس کروڑ (جبکہ سرکاری طور پر 18 کروڑ-2011) پڑوسی.
اور پینتیس کروڑ انسانوں کیلئے قابل نفرت و ناقابل برداشت ہیں ایک سوچھبیس کروڑ پڑوسی.
ایک سو چھبیس کروڑ اور پینتیس کروڑ انسانی رنگارنگ پھولوں سے مزیّن ایک ہی درخت کی دوشاخیں اور دو چمن (ہند-و-پاک) ایک دوسرے کیلئے مضرمہلک اور آمادہ بہ قتل ہیں.
آج اس جدائی و تفریق اور خطہ میں مخصوص استعماری اہداف کے حصول کیلئے ایک غیر فطری، غیر اصولی کلی طور سے منفی، قومی و عصبی تقسیم (تقسیم ہند) کے 68 سال بعد گہرائی و گیرائی کیساتھ تاریخی واقعی تجزیہ کی بنیاد پر پورے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس تقسیم کے بعد قائم دونوں نظاموں نے صرف اور صرف بیسویں صدی میں قائم عالمی استعماری مقاصد کی مسابقانہ تکمیل اور توسیع کے سوا کچھ نہیں کیا. چنانچہ دونوں ملکوں کی ہر دو داخلی و خارجی سطح پر عسکری انفرادی، سیاسی، سماجی و معاشی بڑی کارروائیوں، جنگوں، عسکری اقدامات وغیرہ کی 68 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ دونوں ملکوں نے قائم “دو قطبی عالمی نظام” یعنی استعماری مقاصد کیلئے بطور خام مال اور ان کے خارجی آلہ کی شکل میں کام کیاہے.
اس طرح دونوں ملک “دوقطبی عالمی استعمار” کے ذریعہ اپنے منقسم قیام کے بنیادی مطلوبہ استعماری مقاصد کی تکمیل ایک خود کار آلہ کی طرح میکانکی طور پر 68 سال سے کرتے چلے آرہے ہیں.
اگر ہندِ قدیم (مغل ایمپائر) اور مابعد تقسیم ہند-و-پاک کا عالمی و علاقائی تقابلی جائزہ لیا جائے اور ساتھ ہی ارتقاء پذیر مستقبل کی جانب تیزی سے گامزن انسانی معاشرتی دنیا (futuristic or naturally growing towards the future human world) میں ہند قدیم کی تقسیم نے یہاں کے انسانی ذہن، افکار طبع و مزاج، معاشرتی نفسیات،سماجی و مذہبی رویوں،انسانی اہداف اور انسانی ترجیحات…..پر کیا اثرات مرتب کئے؟ انہیں کس طرح سے غیر محسوس طریقہ سے تحلیل کردیا؟ اور “ایک مستقبل وابستہ عالمی و ارتقائی مشترکہ اجتماعی اپروچ کو کس طرح علاقائی-سلبی-تصادمی-انفرادی-ماضی وابستہ یا مستقبل مخالف اپروچ میں تبدیل کردیا؟”……تو وہ انسانی تاریخ کے بھیانک نتائج کیساتھ اسطرح ہوگا:
1- ہند قدیم ایک عالمی سیاسی عسکری نظام تھاجبکہ ہند-و-پاک ایک محض علاقائ سیاسی عسکری نظام ہیں
2- ہند قدیم ایک ازاد و خود مختار عالمی سیاسی عسکری نظام تھاجبکہ ہند-و-پاک ایک نیم آزاد طفیلی سیاسی عسکری نظام ہیں
3- ہند قدیم ایک عالمی سوپر پاور تھاجبکہ ہند-و-پاک ایک علاقائی باہمی مسابقانہ طاقتیں ہیں
4- ہند قدیم افقی طور پر ایک ارتقائی عالمی نظام تھاجبکہ ہند-و-پاک اپنے عزائم و جدوجہد کے لحاظ سے عمودی طور پر سلبی توسیعی متصادم نظام ہیں
5- ہند قدیم کی بنیادی شناخت “مثالی عادلانہ، ارتقائی، سماجی استحکام و عسکری عالمی نظام” کے طور پر تھی جبکہ “تصادم” تحفظ سے متعلق ایک وقتی و عارضی ضرورت تھی. اور یہی موجودہ انسانی دنیا میں ارتقائی مثالی نظاموں کی اساسی شناخت ہےجبکہ ہند-و-پاک کی “باہمی تصادم” ہی اول و آخر اساسی اور حتمی شناخت ہے
6- ہند قدیم کے سیاسی، سماجی عسکری و عادلانہ ارتقائی اہداف عالمی تھےجبکہ ہند-و-پاک کا اول و اخر واحد ہدف باہمی تصادم ہے اور وہ بھی ہند بمخالف پاک اور پاک بمخالف ہند
7- ہند قدیم کے ایک مکمل ہمہ جہت عالمی نظام ہونے اور عالمی افقی اہداف ہونے کیوجہ سے کسی بھی قسم کے روایتی حریف کا تصور ہی محال ہےجبکہ ہند-و-پاک کے 68 سال سے ایک لمحہ کیلئے بھی ایک دوسرے کیلئے روایتی حریف سے مختلف کسی بھی قسم کی بنیادی و فطری انسانی اپروچ کا شائبہ بھی نہیں دیکھا جاسکا۔
8- ہند قدیم کا اثر و رسوخ عالمی تھا اور مختلف اقوام و ممالک کے مسائل کے حل کیلئے ایک مضبوط مؤثر عالمی فورم تھاجبکہ ہند-و-پاک عالمی اثر و رسوخ کے تناظر میں ہر لحاظ سے طفیلی ریاستیں ہیں جبکہ 68 سال سے باہم متحارب مسائل و علاقائی تنازعات کے خول میں بند ثانوی ریاستیں ہیں…..یعنی جو عالمی طور پر اس لحاظ سے یا مذکورہ غیر فطری سلبی شکل میں “فطری طور پر اصلاح و ارتقاء طالب انسانی معاشرت” کیلئے بطور ریاست کے ناقابل قبول ہیں۔
9- ہند قدیم اپنی عوامی مقبولیت اور عوامی حقوق عوامی امنگوں و آرزووں کی تکمیل کیلئے مکمل طور سے عوامی مسائل سے واقف اور مسائل پر ازادانہ گفتگو کیلئے اپنی جدوجہد کے اعتبار سے مستعد ریاست تھی.
اور کسی بھی قسم کے عوامی وقتی یا بنیادی مسائل مطالبات اور حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہند قدیم کو کوتاہ اور نا اہل فرض کرلینے پر بھی یا مسائل کے سامنے آنے اور ان کے مطالبات کو خارج میں منتقل (divert) کرنے کیلئے یا حفظ ماتقدم کے طور پر ہی عوامی ذہن و نفسیات کو کسی خارجی مسئلہ ،کسی تصادم، مذہبی منافرت پھیلانے، قرب و جوار میں خطرہ پیدا کرنے یا باور کرانے” وغیرہ کی ہر گز حاجتمند نہیں تھی جبکہ ہند-و-پاک نے مذکورہ سارے مسائل اور عوامی حقوق و مطالبات وغیرہ کے تعلق سے مکمل و مستقل نااہلی کو چھپانے اور ہر ایسے موقع پر عوامی اجتماعی ذہن اور نفسیات کو ایک دوسرے کی نفرت ایک دوسرے سے نفرت ایک دوسرے سے تصادم اور ایک دوسرے کو خطرہ دکھاکر 68 سال سے عوامی ذہن کو ڈائوٹ رکھ کر مستقل طور سے “ٹرانس” میں رکھا ہوا ہے جسکا احساس ایک طویل عرصہ گزرجانے کیوجہ سے عوامی نفسیات کو رہا ہی نہیں. دلچسپ بات یہ ہیکہ مذکورہ مقاصد کے حصول کیلئے متعدد منافرانہ و اشتعال انگیز بیانات حتی کے متعدد بالواسطہ و بلاواسطہ تصادمات بھی مشترکہ و باہمی اتفاق کیساتھ مستقل کئے جاتے رہے ہیں اور کئے جارہے ہیں. چنانچہ اس جانب توجہ دلانے والا اس ایک دوسرے سے نفرت و تصادم کی متعفن فضا میں اور خطرہ کے نام پر مکمل “ٹرانس زدہ” عوام کیلئے روایتی حریف کا ایجنٹ اور سازشی قرار پاتا ہے…یہی اس نفسیات کا behavioural response and output ہے.
چنانچہ دیکھا جائے تو یہی وہ بھیانک آخری داخلی نتیجہ ہے کہ؛
الف- ماقبل تقسیم کا عالمی ذہن و نفسیات مابعد تقسیم عالمی سطح سے علاقائی ہوگیا
ب- ماقبل تقسیم کا ذہن و شعور عالمی و انسانی توجہات اور غور و فکر سے مابعد تقسیم علاقائی قومی متحاربانہ توجہات اور غور و فکر سے بدل گیا
ج- ماقبل تقسیم کی عالمی و اصولی ترجیحات سے اجتماعی ذہن علاقائی و حریفانہ ترجیحات میں بدل گیا
د- ماقبل تقسیم کے حکومت و نظام سے بنیادی سماجی ترقی علمی ارتقاء، سماجی و سیاسی اصلاحات، سماجی و عوامی حقوق کی ادائیگی، بنیادی حقوق کی تکمیل، کرپشن کا خاتمہ، عدل و انصاف کا قیام، شفاف عدالتی نظام، مساوات، یکساں حقوق، تحفظ، معاشی فراوانی، تعلیمی اداروں، سڑکوں، نہر، پل، ریلوے…..وغیرہ انفراسٹرکچر کا ترقی یافتہ و تیز رفتار نظام……..وغیرہ عوامی مطالبات، امنگیں، آرزو و تمنائیں سارے کے سارے مابعد تقسیم محض پڑوسی روایتی حریف کیخلاف بیان بازی، نفرت اور اس پر سبقت لیجانے سے بدل گئے اور اول و آخر یہی دونوں جانب حکومتی ذمہ داریاں اور ترجیحات قرار پائیں…اس کلی طور سے غیر فطری و منفی تقسیم کو مذہبی و تقدیسی رُخ دینے کیوجہ سے یہ اتنا غیر محسوس طریقہ سے ہوا کہ یہ ہمارے وجود اور لاشعور کا حصہ بن گیا جبکہ آج 68 سالہ طویل عرصہ گزرجانے کے بعد یہ بر صغیر میں آباد انسانوں کے خون کا حصہ بن چکا ہے. چنانچہ یہ تقسیم جغرافیائی سے کہیں زیادہ مہلک “ذہنی تقسیم-THE PARTITION OF OUR MIND”
پر منتَج ہوئی یعنی جغرافیائی وعلاقائی تقسیم کی تلافی جنگی اقدامات کرتے ہوئے اگر 30-40 سال کے عرصہ میں کی جاسکتی ہے تو اس ذہنی، طبعی، رویہ جاتی، نفسیاتی جینیاتی تقسیم کی تلافی کیلئے کم از کم 70-100 سال کا عرصہ درکار ہوگا. اس لحاظ سے اجتماعی-طبعی-نفسیاتی-رویہ جاتی اصولی طبی جائزہ کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس غیر فطری تقسیم کے بعد آج خطہ کے انسان کسی بھی عالمی ،انسانی معاشرتی، انسانی معاشی، انسانی سیاسی، انسانی تمدنی، انسانی علاقائی ثقافتی، انسانی علمی،انسانی ارتقائی، انسانی اصلاحی…… وغیرہ تبدیلی قیادت اور اس تعلق سے کسی بنیادی کردار کی ادائیگی کے لائق نہیں رہے بلکہ واقعاتی حقائق تو یہاں تک بتارہے ہیں کہ اس خطہ کے لوگ مابعد تقسیم اپنے مخصوص علاقائی قومی تصادمی ذہن، طبع و مزاج، رویہ و نفسیات کی وجہ سے دنیا میں آباد مختلف علاقائی، ثقافتی،تمدنی، فطری ارتقائی صحتمند و اصول پسند معاشروں کیلئے Non-Adjustable ہونے کیوجہ سے متصادم شکل میں ناقابل برداشت بن گئے ہیں.
چنانچہ اج اگر اس جانب کوئی توجہ دلائے تو وہ “مؤقتیت” کے ذہنی اسیر دانشوران کیلئے دین/دھرم اور قوم دشمن ہے یا کم از کم تاریخ ناشناس ہے جبکہ عوام کیلئے وہ مسمّی مخالف ملک و قوم کا ایجنٹ ہے.
چنانچہ ہندوستان میں بچے بچے کے دل میں اسکول اور گھر سے لیکر کرکٹ گراؤنڈ تک نفرت و تعصب پر مبنی تصادم کے اَنمٹ بیج ڈالدئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں گھر ،اسکول ،محلے، کرکٹ گراونڈ، چودہ اگست، تئیس مارچ، مطالعہ پاکستان، کشمیر کا نقشہ، غوری، غزنوی، بن قاسم کی مابعد تقسیم تعبیرات، نظریہ پاکستان…یہ سب کچھ انڈیا سے نفرت کے بیج ہی ہیں جو دلوں میں اتنے گہرے بو دئے گئے ہیں کہ مرتے دم تک ان سے نجات ممکن نہیں ہو پاتی.
چنانچہ داخلی سطح پر اس کا سب سے بڑا فائدہ پچھلے 68 سالوں سے کرپٹ،نااہل،کاسہ لیس، جاھل،سرمایہ دار، زمیندار، رجواڑے، استحصالی، نیم انسان، انسان نما حیوان، بے ضمیر، ضمیر فروش، بے حیاء، بے غیرت، ایک دیہات کی ذمہ داریوں سے بھی نابلد اور نااہل پوری طرح مسلط چلے آرہے ہند-و-پاک کے حکمرانوں کو ہوا ہے جن کے ذریعہ ہر الیکشن، ہر عوامی احتساب، کسی ایسے سانحہ جو اس ناحیہ سے غورو فکر کا طالب ہو ،اتفاقیہ عوامی بیداری اور عوامی مطالبات کے ہر موقع پر اس سب کو پڑوسی ملک و قوم کے بارے میں نفرت انگیز بیان بازیوں،مصنوعی طور سے کسی فوری تصادم یا مبینہ خطرہ کے ذریعہ دبادیا جاتا ہے جو عوامی زخموں پر اکسیر کا کام کرتا ہے. اس غیر فطری عنصرمذکورہ مسلط کلی طور سے نااہل حکمرانوں کی جان طوطے کیطرح اسی باہمی متصادمانہ و منافرانہ متعفن فضا میں بند ہے جبکہ ہند-و-پاک کے عوام کی بھی لذت و تسکین اور نشہ بن گیا ہے اور اسی کے عوام ایڈکٹ ہوگئے ہیں جن کو کرپٹ حکمراں جہالت، عدم سہولیات، کرپشن، غیر شفاف عدالتی نظام، ناانصافیاں، رشوت خوری، تعلیمی اداروں کا نہ ہونا، سڑکوں و بنیادی اسٹرکچر کا نہ ہونا، طبی سہولتوں سے محرومی، اموات کی کثرت، ملکی معاشی دیوالیہ پن…………وغیرہ سب منظور اور بار بار قبول ہے بس ایک نعرہ بھارت/پاکستان کیخلاف بلند کردیا جائے، بس ایک نفرت انگیز بیان دے دیا جائے…اور ایسا کرنے والا ہی قائد ہیرو اور کثیر الجہات ذمہ دارانہ منصب کا اہل ہے.
ممکن ہے ہند قدیم کے تعلق سے بیان کردہ بعض حقائق کو قبول کرنے میں تردد ہو. کیونکہ دنیا میں اور خاص طور سے بیسویں صدی کے مشرق میں اقوام،نظام تعلیم کو اپنی علاقائی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے تیار اور رائج کرتی ہیں جبکہ ماضی کے سانحات و واقعات کی اپنی علاقائی ضرورتوں اور علاقائی مقاصد کے تحت تعبیرات کرتی ہیں اور تاریخ کی تدوین بھی مذکورہ ضرورتوں کے تحت کی جاتی ہے جبکہ حقیقی و واقعی تاریخ کی شناخت اس دور کے ادب ،سفرناموں،شعراء، ثقافت، بیانات، آثار، آثار قدیمہ، باقیات، نقوش، متوازی طاقتوں کے تحفظات و اقدامات اور بیانات و تبصروں، دیگر اقوام کے تبصروں، سفارت کاری، سفارتی معاہدات، خارجی امداد رسانی اور اُس دور میں پورے عالم سے طلبا کی حصول علم کیلئے آمد جبکہ ملکی طلباء کا کسی مخصوص تعلیم کیلئے دنیا کے مخصوص علاقوں کا انتخاب…….وغیرہ سے کی جاتی ہے. لہذا مابعد تقسیم کے رائج کردہ نظام تعلیم اور مابعد تقسیم لکھی گئی تواریخ کے زیر سایہ پروردہ ذہن کیلئے اس تعلق سے سب سے بڑا مانع (factor) یہی “مؤقتیت” کا مرض ہے.
“مشرق” سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ جسطرح سے بھارت+امریکہ، بھارت+ایران، بھارت+امریکہ+ایران، ترکی+یوروپ، ترکی+امریکہ، سعودی عرب+امریکہ، سعودی عرب+فرانس، سعودی عرب+برطانیہ، سعودی عرب+امریکہ+برطانیہ، سعودی عرب+اسرائیل، متحدہ عرب امارات+امریکہ،امارات+برطانیہ+فرانس، امارات+یوروپ+اسرائیل، امارات+ہندوستان، اردن+فرانس، اردن+یوروپ، اردن+اسرائیل، مصر+روس، مصر+جرمن، مصر+امریکہ،مصر+فرانس، مصر+اسرائیل، مصر+ایران+روس، ایران+جرمن، ایران+امریکہ، ایران+سوئٹزر لینڈ….. اور سب سے اہم جاپان+امریکہ، جنوبی کوریا+امریکہ…….وغیرہ کے عظیم تر انسانی مفاد، صحت مند مستقبل،علوم و فنون کے ارتقاء، کامیاب مستقبل، معاشی فراوانی، مسائل کے حتمی حل، غربت کے حتمی طور سے خاتمہ، جھالت سے آزادی، کائنات کے رازوں کی طویل علمی اکتشافی جدوجہد کے ذریعہ معرفت……..یعنی “”انسانی معراج”” جسکو قرآن میں تدریجی فرض عین مطلق قرار دیا گیا:
“(will prove) آیاتنا فی الافاق (BY COSMOLOGY) وفی انفسھم(BY MEDICAL SCIENCE) حتی یتبین لھم (will prove in scientific way through sciences) انہ الحق” (فصلت: 53)
کی خاطر کیا بھارت+پاکستان, پاکستان+بھارت+مشرق, بھارت+پاکستان+مغرب….بلکہ اگر ھند قدیم مغل ایمپائر کے پوری دنیا پر عالمی ہمہ جہت اثرات اور عسکری و سیاسی رسوخ کو سامنے رکھکر کہیں کہ”پاکستان+بھارت+عالمِ انسانیت”کا معاہدہ و معاشی تعاون عالمی استعماری عفریت کو روکنے اور اس سے انسانیت کو آزاد کرانے اور مذہب کے سیاسی، معاشی و علاقائی استعمال کے خاتمہ کیلئے معاشی، عسکری و سیاسی متحدہ طاقت کا احیاء و قیام کیوں ممکن نہیں؟ ایسا علاقائی یا مقامی غیر معمولی و حیرت انگیز عالمی اثر و رسوخ کا حامل متحدہ محاذ کیوں نہیں بن سکتا؟ ہند قدیم کا اپنے تمام تر ہمہ جہت و ہمہ وقتی عالمی اثر و رسوخ کیساتھ متحدہ محاذ کا از سر نَو احیاء کیوں نہیں ہوسکتا؟ اگر ایسا ہوجائے تو زیادہ سے زیادہ 50-100 سالوں کے اندر اندر دنیا سے استعمار اور اسکے زیر سایہ ہر قسم کی ناانصافیوں، مذہب و اہل مذہب کے سیاسی، معاشی وعلاقائی استعمال اور ہر قسم کے مسائل کا خاتمہ،انسانیت کا احیاء اور حقیقی انسان کی بازیافت سے کوئی نہیں روک سکتا.
کیا تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے کہ بڑی بڑی جنگوں،تباہیوں، تاریخی نفرتوں، مستقل مخالفتوں، بڑے بڑے نقصانات وغیرہ کو بھلا کر صحتمند اور ترقی یافتہ مستقبل یعنی عظیم تر انسانی مفاد کی خاطر ایک بڑے حوصلہ و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپسی اتحاد، باہمی تعاون، مشترکہ جدو جہد پر مشتمل مشترکہ متعین futuristic اہداف کی تعیین، معاشی جدوجہد کا آغاز اور اسکے لئے ہر قسم کی متحدہ دفاعی قوتوں کا قیام… عمل میں لایا گیا ہو؟ اور کیا ایسا نہیں ہوا کہ ایسا کرنے کے بعد اسکے وہ غیر معمولی حیرت انگیز طویل المدت نتائج بر امد ہوئے ہوں جو اس مخالفت، تصادم اور عداوت کو ختم کئے بغیر اور بڑے فیصلے لیکر تاریخی دشمنیوں سے باہمی تعاون کیطرف آئے بغیر مذکورہ نوعیت کے نتائج صدیوں میں بھی حاصل نہیں کئے جاسکتے تھے؟؟؟
تاریخ شاہد ہے کہ ارتقائی اپروچ کے حامل معاشروں میں ایسا ہوا ہے اور زندہ و اصول پسند قوموں نے بڑے اور تاریخی جراتمندانہ فیصلے لیکر ایسا کیا ہے. اسکے لئے صرف چند اقوام کا سرسری ذکر ہی کافی ہے کہ جاپان اور امریکہ نے تاریخی و تازہ زبردست تباہی کی حامل عالمی جنگ کو بھلاکر ایک سنہرے اور فوری طور پر منتَج ترقی یافتہ مستقبل کی بِنا ڈالی،اسی طرح جرمن اور یوروپ نے بھی ایک باہمی دوسری خونریز عالمی جنگ کے بعد ایسا ہی کیا، اسی طرح فرانس اور یوروپ نے طویل و تاریخی نفرتوں کے بعد ایسا ہی کیا…اسی طرح مشرق بعید کے ممالک نے ایسا ہی کیا……وغیرہ. جسکے حیرت انگیز اور غیر متوقع فوری futuristic عالمی نتائج برامد ہوئے.
جبکہ ابھی دو سے تین سال قبل سوڈان کو عالمی استعماری طاقتوں کے ذریعہ علاقائی نسلی و مذہبی عصبیانہ بغاوت کے ذریعہ خطہ میں استعماری مقاصد کیلئے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا جسکے بعد نئے وجود سوڈان و جنوبی سوڈان میں متعدد چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں جنکی سرپرستی دونوں طرف عالمی طاقتیں خطہ میں استعماری مقاصد کیلئے کررہی تھیں…قربان جائیے سوڈانی قیادت کی بصیرت، دور اندیشی، حوصلہ و جرات اور سب سے اہم اسکی Futuristic-Approach پر کہ انہوں نے ایک بڑا علاقہ کھودینے، تیل کے ذخائر نکلتے ہی ان سے محروم ہوجانے اور متعدد جنگوں و عداوتوں کے بعد جبکہ ابھی زخم دوسالہ قلیل عرصہ کی وجہ سے تازہ تھے…کے باوجود ایک منافرانہ عوامی ماحول میں کامیاب و صحتمند مستقبل کے عظیم تر علاقائی مفاد کی خاطر انہوں نے باہمی علاقائی سیاسی اسٹراٹجکل معاشی علاقائی عسکری طویل المدت نوعیت کے معاہدے کرلئے اور ایک قسم کا متحدہ محاذ قائم کرلیا اور اس پر متعدد سازشانہ دھماکوں و سانحات کا کوئی اثر نہیں پڑنے دیا.
آج اگر دوطرفہ عوامی مطالبات کے احیا کے بعد بھی حکومتی و عسکری ذمہ داران اور حکام ایسا صرف تاریخی نفرتوں کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہی Past-Attachment یعنی مستقبل مخالف (Anti-Future) اجتماعی سلبی اپروچ ہے جبکہ مذہب کی نگاہ میں یہ کفر (الزخرف: 23-25، البقرۃ: 91) ہے نیز ماضی کی بنیاد پر مستقبل کو ختم کرنا ہے. یہی کفار مکہ کا مرض (ماضی وابستگی، آباء پرستی یعنی مستقبل مخالف اپروچ) تھا اور اگر کھل کے کہدیاجائے تو یہی انبیاء و کفار کی لڑائی کی اسا س ،ماضی و مستقبل کی لڑائی ہے کہ انبیاء مستقبل کے نمائندہ بنکر مستقبل کو ماضی (آباء پرستی: رسوم رواج اصنام[Rituals] پرستی اصول مخالفت) سے آزاد کرانے کیلئے آتے ہیں جبکہ مخاطب اقوام یا کفار ماضی (اباء پرستی: رسوم رواج، اصنام[Rituals] پرستی، اصول مخالف روش) کی محافظ بنکر کھڑی ہوجاتی ہیں یعنی “ماضی بمخالف مستقبل کی غیر فطری اپروچ”. یہ روش فی الواقع بر صغیر کے ایک سو چھبیس کروڑ+پینتیس کروڑ=161 کروڑ نفوس جو انسانی دنیا کی کل سات سو کروڑ ابادی یعنی کل انسانی ابادی کے سات حصوں میں سے 1.5 حصہ ہےکے مستقبل کیساتھ کھلواڑحق تلفی اور اسے صحتمند و ترقی یافتہ علم و ہنر کی معراج اور عالمی قیادت کے منصب سے روکنا ہے.
چند لوگوں کو منتخب کرکے ایکسو اکسٹھ کروڑ (1.61 Billion) انسانوں کے مستقبل کو ان کے حوالہ اور ان کے مستقبل کا مالک بناکر ان کو ایکسو اکسٹھ کروڑ (Billion 1.61) انسانوں کی قیادت مستقبل میں صحتمند بقا (Survival) مستقبل کی ضروریات کی تکمیل اور مستقبل میں علمی، ذہنی،سماجی، اکتشافی، سائنسی، اخلاقی و سیاسی تیز رفتار و پائیدار ترقی و استحکام کیلئے اور تاریک،کمزور و غیر ترقی یافتہ مستقبل سے حفاظت کیلئے دی جاتی ہے. اگر ہمارے “ارضِ ہند و پاک” کی سیاسی و عسکری قیادت اور دانشوران کو 68 سالہ متصادمانہ، منافرانہ، سلبی، منفی و کلی طور سے غیر فطری مستقبل مخالف اپروچ کے بعد اب اکیسویں صدی میں بھی اسکا احساس و شعور نہیں ہوگا تو پھر کب ہوگا؟؟؟
اسکو اسطرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان یا پاکستان کے ہر قسم کے علاقائی و عالمی، قصیر المدت و طویل المدت جو بھی عوامی و انسانی مسائل کے حل،ضروریات کی تکمیل، علوم فنون کے ارتقاء، خلائی مشنز، عالمی و خطہ میں اثر و رسوخ کے قیام،، عسکری قوت کا استحکام و توسیع….وغیرہ قسم کے اہداف ہیں انکا حصول ملکی سطح پر یا جغرافیائی طور سے بعید کسی بھی ملک کے تعاون و اشتراک سے جس مدت میں+جتنے مصارف و جدوجہد کیساتھ+جن خطرات کے زیر سایہ اور جتنی حسن و خوبی و مضبوطی کیساتھ ہوگا وہ باہمی اشتراک و متحدہ ہند-پاک محاذ کے قیام کے بعد اس سے دس گنا کم مدت+دس گنا کم مصارف+دس گنا زیادہ محفوظ اور دس گنا زیادہ مضبوطی و حسن و خوبی کیساتھ ہوگا.
واضح رہیکہ مذکورہ تمام انواع کے انسانی حیات اور عوامی مستقبل کیلئے انتہائی ضروری لا تعداد ایسے مشن اور اہداف ہیں جنکا باہمی متصادمانہ ماحول کیوجہ سے سرے سے آغاز ہی نہیں کیا جاسکا ہے.
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہمیں ترقی، عدل و انصاف، ہر قسم کے کرپشن سے ازاد نظام اور ضروریات کی تکمیل و مسائل کا حل اور صحتمند مستقبل مطلوب نہیں بلکہ روایتی حریف پڑوسی ملک کی تباہی یا اس سے برتری کی بنیاد پر مطلوب ہے خواہ اس متعفن و متصادمانہ ماحول میں اسکا تصور ہی محال ہو.
واضح رہیکہ اس مشترکہ معاشی، سیاسی و سماجی اتحاد اور اسکے آغاز کیلئے ضروری ‘متحدہ عسکری-ایٹمی محاذ، کی راہ میں جو بھی خارجی نوعیت کے موانع ہیں وہ صرف اس وقت تک مؤثر اور بادی النظر میں موانع محسوس ہوتے ہیں جب تک اسکا عملی آغاز نہیں کردیا جاتا. جس وقت اس طرف اقدامی کارروائی کردی گئی اسی وقت ان خارجی موانع کو موانع تصور کرنا بھی مشکل ہوجائیگا. یہ بین الممالک طویل المدت و ہمہ جہت عالمی اتحاد کی واقعاتی تاریخی حقیقت ہے.
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب:
کاش ہم ہند قدیم کی عالمی حیثیت کو سمجھ پاتے!
کاش ہم ہند قدیم کے عالمی اثر و رسوخ کو محسوس کرسکتے!
کاش ہم ہند قدیم کیخلاف عالمی استعمار کے بانیین کی اولین و ترجیحی سازشوں کا ادراک کر پاتے!
کاش ہم عالمی استعمار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہند قدیم کو جان پاتے!
کاش ہم ہند قدیم کے خاتمہ کے پورے عالم پر استعماری گرفت اور اثرات کو محسوس کر پاتے!
کاش ہماری تاریخ متصادمانہ و منافرانہ ماحول میں محض سلبی و منفی انداز سے نہ پڑھائی جاتی!
کاش ہم متحدہ ہند-پاک طاقت کے مابعد تقسیم فوری قیام کی صورت میں ایک استعمار سے بڑی حد تک ازاد انسانی دنیا کا تصور کرپاتے!
کاش ہم متحدہ ہند+پاک طاقت کے پچپن سال قبل (63-1960) قیام کی صورت میں مذہبی تصادمات-مذہبی و نسلی تعصبات، علاقائی ولسانی تعصبات،حریفانہ منافرت، مذہب کے علاقائی سیاسی/معاشی مقاصد (Geo-Eco-Strategic Purposes) کیلئے استعمال… وغیرہ سے ازاد اور محض “اصولوں (دین اللہ/دین فطرت) پر قائم” انسانی دنیا کا تصور کرپاتے!
کاش ہم آج عظیم ترین اعلی و افاقی اور فطری انسانی مقاصد کی خاطر اور انسانی دنیا کو عظیم تبدیلی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک آئیڈیل “مشرقی ارضی جنّت” کے قیام کی خاطر انسانی و فطری عدل و انصاف، اصولوں اور اعلی ترین انسانی اقدار کا نمونہ ایک “متحدہ ہند-پاک بلاک” کی اشد عالمی ضرورت کو محسوس کرپاتے!
کاش اس کے اغاز کیلئے ایک ایسے بڑے جرات و حوصلہ کا مظاہرہ کرکے بڑےغیر معمولی اور تاریخ ساز فیصلہ کو انسانی دنیا کے سامنے پیش کر پاتے کہ جسکی عظمت کو پوری انسانیت سلام کرتی اور پوری انسانی دنیا اس کو انسانی مستقبل کیلئے ایک نظیر بناتی…
جس دن عوامی شعور کی بیداری اور عوامی مطالبات کے نتیجہ میں خطہ کی سیاسی و عسکری قیادت کے ہاتھوں اس تاریخ ساز فیصلہ کیساتھ کرہ ارض کی یہ آفاقی تاریخ لکھدی گئی اسی دن انسان کامل اور آفاقی مشرق کا اقبال سر اقبال علامہ (وفات:1938) کا ہندوستان “نظریاتی و اصولی بنیادوں پر قائم پورے عالم کیلئے نظیر ایک مثالی عادلانہ ارتقائی ہندوستان” مکمل ہوجائیگا:
*سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا*