
بجٹ 2016-17ء میں جموں وکشمیریکسر نظر انداز

کیا حکومت سازی میں پی ڈی پی کا لیت ولعل مرکزی بجٹ میں ریاست کو نظر انداز کرنے کا موجب بنا؟
اظہر رفیقی
آزادیٔ اظہار،بغاوت،افضل گورو تنازعہ، ہند پاک تعلقات،جے این یو تحریک اورطلباء یونین لیڈر کنہیا کمار ،عمر خالد، سابق پروفیسر سیدعبدالرحمن گیلانی کے قید وبندپر جاری گرما گرم بحث و مباحثہ کے دوران پارلیمنٹ کے رواںمالی اجلاس میں مرکزی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے عام بجٹ برائے2016-17پیش کیا۔بجٹ پر دقیق بحث ہونے کے بجائے اب پارلیمانی ارکان دیگر سیاسی اشوز پر مباحثوں میں لگے ہیں جب کہ سالانہ میزانیہ کے خدو خال اور اس کے اثرات ومضمرات کے حوالے سے چشم کشا، ذہن رسا اور معلومات افزاء بحث و تمحیص تاحال دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ اس بجٹ پر حکمران ٹولا اگر بغلیں بجائیں تو کوئی انہونی نہیں مگر عام آدمی اسے اپنے لئے راحت کا سامان سمجھے،اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہرسال کی طرح جموں وکشمیر میں بھی چندسیاسی و تجارتی انجمنوں و کاروباری شخصیات کی جانب سے بجٹ2016-17پر بیانات سامنے آئے۔ نیشنل کانفرنس ،کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس کے ساتھ ساتھ اکنامک الائنس ،چیمبرآف کامرس اور ٹریڈ فیڈریشنوں نے اس بجٹ کو جموں وکشمیر کے لئے ایک لایعنی اور غیر مفید بجٹ قرار دیا۔ماہرین ِاقتصادیات اس بات پر حیران و پریشاںنظر آئے کہ مرکزی بجٹ میں پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور یہاں کی اقتصادی ترقی کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ شامل ِ میزانیہ نہیں کیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں واضح اکثریت کے ساتھ بر سر اقتدار آئی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں ریاست جموں وکشمیر کے لئے کئی ایک اہم اعلانات کئے جن میں کشمیر کیلئے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ،جب کہ جموں کیلئے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں کا قیام قابل ذکر تھا۔یہ الگ بات ہے کہ کشمیر میں ان اعلانات کوعملی جامہ پہنانے کیلئے ایک برس میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔سال2015-16کے مالی بجٹ اور تازہ مالی سال کے میزانیہ کا اگر موازنہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سابقہ بجٹ میں جموں وکشمیر کا کم سے کم اعلانات کی حد تک کافی بڑھ چڑھ کر ذکر ہوا تھا ، اس کے برعکس اس بار جموں وکشمیر کو گویا مالیاتی منظرنامے سے ہی ہٹایا گیا ہے۔اس صورت حال کے بارے میں اگر ذرا وسعتِ نگاہ سے بات کریں تو پہلے ان دونوں مالی بجٹ کے سیاق و سباق اور ان دونوں تاریخوں کے احوال و کوائف پرایک طائرانہ نظر دوڑانے کی ضرورت پڑے گی۔
مرکز میں بی جے پی جب اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے والی تھی ،اس دوران ریاست جموں و کشمیر میں انتخابی نتائج سامنے آچکے تھے اور جموں اور کشمیر میں دو متضاد قسم کے منڈیٹ کو جوڑنے کیلئے کوششیں جاری تھیں۔کشمیر میں مفتی محمد سعید کی سربراہی میں پی ڈی پی کو زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں جب کہ جموں میں بھاجپا نے پہلی بار اپنا سکہ جمایا اور کانگریس اور اس کی حلیف سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کا دونوں صوبوں میں تقریباً صفایا ہوا۔کشمیر میں اگرچہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے خلاف ووٹ حاصل کیا تاہم جموں میں بی جے پی باپ بیٹی راج اور خاندانی راج کے خاتمے کے نام پر ہی ووٹ بٹور لئے گئے،لیکن جب ریاست میں حکومت سازی کی بات آئی تو انتہائی چالاکی کے ساتھ دونوں پارٹیوں نے’’ قطب شمالی و قطب جنوبی کو ملانے‘‘ کا شوشہ چھوڑ کراپنی گٹھ جوڑ سرکار وجود میں لانے کا جواز تراشا۔اقتدار کے مسند پر براجمان ہونے کیلئے دونوں پارٹیوں نے ایجنڈا آف الائنس تیار کرنے میں تقریباً 2مہینے صرف کئے ، بالآخر ایجنڈا آف الائنس کی شکل میں ایک تحریری دستاویز پر سمجھوتہ ہوا جس میں طرفین نے اہم سیاسی و اقتصادی امور پر اتفاق کرلیا تھا۔2015-16بجٹ پیش ہونے کے وقت جب بی جے پی اور پی ڈی پی وزارتوں کی تقسیم کے علاوہ دیگر امور طے کررہی تھیں اور درپردہ و اعلانیہ میٹنگوں میں حکومت سازی کیلئے راہیں ہموار کی جارہی تھیں کہ مرکزی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا۔اس وقت بغیر کسی مطالبے اور ڈیمانڈ کے کشمیر کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جب کہ جموں صوبے کے لئے آئی آئی ایم اور آئی آئی ٹی کے مجوزہ قیام کا اعلان کیا گیا۔اس کے علاوہ بھی جموں وکشمیر کیلئے کئی اہم اعلانات کئے گئے جس پر ریاست میں ملا جلا ردعمل ظاہرکیا گیا۔ لطف یہ کہ جموں نے ایجی ٹیشن چلا کر اپنے لئے AIIMSبھی حاصل کیا لیکن کشمیر ایک برس گزر جانے کے باوجود بھی اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا نہیں دیکھ رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ جموں سے بھاجپا نے صرف جموں ضلع تک ہی محدود سمجھتی ہے جب کہ جموں کے مسلم اکثریتی خطے پیر پنچال اور چناب ویلی خطوں کو ہر معاملے میں بھی یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اس بار بھی ریاست میں بجٹ پیش کئے جانے کے وقت اتفاقاً سیاسی صورت حال ویسی ہی ڈانواںڈول ہے لیکن اس کی کیا توجیہ کیجئے کہ اب کے وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے ریاست کو یکسر نظر انداز کردیا جس پر سیاسی مبصرین اور اقتصادی امور پر نظر ودرک رکھنے والے حیرانگی کا اظہار کررہے ہیں۔7جنوری 2016کو ریاست کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے اور دفعتاًریاست ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہوگئی۔توقع کی جارہی تھی کہ اپنے والد کے انتقال کے فوراً بعدمحبوبہ مفتی کے زیر قیادت بی جے پی ،پی ڈی پی گٹھ جوڑ جاری رہتا لیکن دو ماہ گزر جانے کے باوجود بھی اس سمت کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔نتیجتاً ریاست جموں وکشمیر ایک بار پھر گورنر راج کے زیر سایہ آگئی۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کیلئے ایجنڈا آف الائنس کی عمل آوری کی شرط سامنے رکھی اور بحالیٔ اعتماد کے اقدامات کی بات کی لیکن مرکزی حکومت اپنے سابقہ سیاسی حلیف جماعت کے نقطہ ٔ نظر کو اکو موڈیٹ کر نے کے موڈ میں نہیں۔اس کا موقف ہے کہ حکومت ویسے ہی چلا ئی جائے جیسے پہلے چل رہی تھی لیکن اب اس وقت گزر نے کے ساتھ اس ایشو پر پی ڈی پی کے لئے آگے بڑھنا ایک اگنی پریکشا بنتا جارہاہے۔دو ماہ طویل انتظار کے باوجود بھاجپا ریاست میں پی ڈی پی کے سہارے حکومت سازی سے کم وبیش مایوس پڑی ہے اور ا پنی اس قنوطیت کا اظہار مرکزی بجٹ میں ریاست کی مالی ضروریات کے تئیں اپنی طوطاچشمی سے کیا ہے۔ البتہ مبصرین شش و پنج میں ہیں کہ آخر پی ڈی پی کو بھاجپا کے ساتھ آگے بڑھنے میں کیا دقت آرہی ہے۔کیا حکومت سازی کیلئے کسی بھی پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ صرف اقتصادی مراعات کی بنا پر ہونا چاہئے تھا؟ریاست میں اسمبلی انتخابات کے بعد جس طرح پی ڈی پی نے الگ طرح کے سیاسی نظریات رکھنے والی بھا جپا کے ساتھ حکومت بنائی ، اس وقت ایجنڈا ٓف الائنس کے نام پر جو دستاویز تیار کی گئی، اس میں سیاست کم اور اقتصادیات زیادہ حاوی رہی ، وہ چاہے پاور پروجیکٹوں کی واپسی یا سیلاب پیکیج ہو۔عوامی حلقے اس بات سے پہلے ہی بخوبی واقف تھے کہ مرکز میں نریندر مودی کی سربراہی والی بھاجپاسرکار جموں و کشمیر کو کسی طرح کا کوئی سیاسی پیکیج دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی حتٰی کہ مفتی محمدسعید نے جب سری نگر میں یہ صلاح دی کہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات سے منسلک ہواجائے تو مودی نے برسرعام کہا انہیں کسی سے اس بابت مشورہ لینے کی ضرورت نہیں۔ بھاجپا نے اپنی حلیف پارٹی کو چند اقتصادی مراعات دے کر اس سیاسی گٹھ جوڑ کو ایک جواز فراہم کرنے سے بھی گریزکیااور 10مہینے مخلوط اقتدار کے دوران پی ڈی پی کو لگا جیسے اسے خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ہو ا۔ اسی تناظر میں اب مرکز ی بجٹ میں ریاست سے اعراض قابل ِفہم بنتاہے۔ باایں ہمہ ریاستی عوام کو مرکز سے کچھ رعایتوں اور خوش کن اعلانات کی توقع تھی لیکن ارون جیٹلی نے یہاں بھی پیٹھ دکھائی اور اب معاملہ پی ڈی پی کے لئے معاملہ ’’ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن‘‘ کی جیسی ہوگئی ہے۔ پارٹی دو ماہ گزرنے کے بعد بھی اقتدار کی نیلم پری کو گلے لگانے کا رسک لے سکتی ہے اور نہ ہی اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کرکے اپنے لئے آنے والے وقت میں سیاسی بحران کی کیفیت پیدا کرنے کے حق میں ہوسکتی ہے ،کیونکہ اس وقت نیشنل کانفرنس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس ایشو کو لے کر پی ڈی پی پر دبا? بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔دیکھنا ہے کہ آئندہ چند روز میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
…………