
سعودی عرب:معاشی حالت غیر مستحکم،خسارے کا امکان

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی(معیشت نیوز) گذشتہ روز ہی سعودی عرب میں ملازمت کر رہے شمس تبریز ہندوستان واپس آگئے ہیں ۔گوکہ انہیں دو سال کا ویژہ ملا تھا اور وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں سوپر وائزر کے عہدے پر براجمان تھے لیکن حوثی باغیوں کی گولہ باری سے انہیں جان کا خطرہ لاحق ہوا اور فوری طور پر انہوں نے ملک واپسی کا راستہ منتخب کیا۔
معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے شمس کہتے ہیں’’وہاں حالات انتہائی کشیدہ ہیں ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں جبکہ جان جانے کا خطرہ بھی لاحق ہے سعودی شہری سرحدی علاقوں کو چھوڑ کر شہر منتقل ہوچکے ہیں یا پھر کہیں اور کا رخ کر لیا ہے۔معاشی طور پر سعودی عرب اب خسارے میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔‘‘
ممبئی میں ایک اوورسیز کمپنی کے مالک حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’سعودی عرب کی مالی حالت دن بہ دن خستہ ہوتی جارہی ہے ۔وہاں سے پہلے جتنا ویژہ آتا تھا اب اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔لہذا مین پاور سپلائی کا کام بھی متاثر ہوگیا ہے ‘‘۔
دریں اثناامریکی ماہر سیاسیات پروفیسر جیمز سیوج نے خیال ظاہر کیا ہےکہ بہت جلد سعودی عرب انتہائی بڑے بجٹ خسارے سے دو چار ہو جائے گا،ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں بجٹ خسارہ اس وقت پندرہ سے بیس فی صد جی ڈی پی کے برابر ہے جس سے ملک کے کرنسی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پروفیسر موصوف نے یہ بھی کہا کہ ان حالات میں سعودی عرب میں نقد پیسہ پانچ سالوں میں ختم ہو جائے گا اوور ملک کو بڑے قرضے لینے پڑیں گے۔یاد رہے کہ ماہ فروری میں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پوئرز نے سعودی عرب کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کر دیا اور کہا کہ تیل کی قیمت میں کمی سے سعودی بجٹ کو بہت بڑا جھٹکا لگ چکا ہے بلکہ یہ عمل جاری ہے۔ ایس اینڈ پی ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ سن 2016 سے سن 2019 تک سعودی معیشت تین فی صد کی بجائے دو فی صد بڑھ جائے گی۔ موڈیز ایجنسی بھی سعودی عرب کی ریٹنگ میں کمی کے امکان پر غور کر رہی ہے۔چند دن پہلے اطلاع ملی کہ سعودی عرب بین الاقوامی بینکوں سے آٹھ ارب ڈالر قرضہ لینا چاہتا ہے بلکہ یہ کہ وہ بانڈز بھی جاری کر سکتا ہے تاکہ بجٹ خسارے پر قابو پا سکے۔سعودی وزارت خزانہ نے غیرملکی بینکوں سے درخواست کی ہے کہ چھہ تا آٹھ ارب ڈالر قرضے کی فراہمی کی شرائط کی وضاحت کریں، وال سٹریٹ جرنل نے بتایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوں سعودی عرب دس سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار بین الاقوامی سطح پر قرضہ لے گا۔
پچھلے دس سالوں سے سعودی عرب جو تیل پیدا کرنے والے دنیا کے اولین ممالک میں سے ایک ہے، کو سب سے زیادہ آمدنی تیل کی فروخت سے ملتی تھی۔ تیل کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں سعودی عرب کو بڑے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، توقع ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ ستاسی ارب ڈالر ہوگا۔ پچھلے سال سعودی عرب کے کرنسی کے ذخائر 737 ادب ڈالر سے 640 ارب ڈالر تک کم ہو چکے ہیں۔
اس سال حکومت نے اخراجات میں کمی کی خاطر سخت انتظامات کا اعلان کیا ہے بلکہ حکام سرکاری اثاثوں کی نج کاری کے امکان پر غور کر رہے ہیں۔