
(درمیان میں )امارت شرعیہ کے امیرحضرت مولانا ولی رحمانی، بائیں جانب ناظم امارت شرعیہ انیس الرحمن قاسمی ،جبکہ دائیں جانب اخیر میں ڈاکٹر احمد عبد الحئی کو دیکھا جاسکتا ہے
ماضی کی کمزور قیادت سے پیدا ہونے والی خرابیاں موجودہ امیر شریعت کے لیے چیلنج
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں
ڈاکٹر سید ریحان غنی
پٹنہ :ایک طرف جہاں امارت شرعیہ دو سال کے بعد اپنے قیام کے سو سال مکمل کرنے والی ہے وہیں دوسری طرف یہ زبردست بحرانی اور آزمائش کے دور سے گذر رہی ہے۔ یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ جب قیادت کمزور تھی تو سب کچھ بظاہر ٹھیک ٹھاک تھا اور جب امارت کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی شکل میں مضبوط قیادت مل گئی تو اس میں انتشار جیسی صورت حال پیدا ہوگئی اور اس کی عزت ایک معمولی مدرسے کے جھگڑے کی وجہ سے دائو پر لگ گئی۔ ’’دارالعلوم اسلامیہ‘‘ کا قضیہ کیا امارت شرعیہ کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟ اور ماضی کی کمزور قیادت سے پیدا ہونے والی خرابیاں کیا موجودہ امیر شریعت کے لیے چیلنج نہیں ہیں؟ کیا اس وقت ضرورت اس بات کی نہیں ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھتے ہوئے موجودہ امیر شریعت کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلا جائے؟ کیا اس وقت ملت اسلامیہ کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر بے شمار چیلنجز کا سامنا نہیں ہے؟ کیا یہ پس منظر اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ موجودہ قیادت کو مضبوط کیا جائے؟ آیئے ان سوالات کا جواب ڈھونڈھتے ہیں۔ پہلے 2 مئی کا واقعہ۔ اس کے بعد ماضی کی باتیں۔
2 مئی 2016 سے قبل بہت کم لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ پھلواری شریف سے متصل گائوں گون پورہ میں ایک مدرسہ ہے جس کا نام ’’دارالعلوم اسلامیہ‘‘ ہے اور یہ امارت شرعیہ کی نگرانی میں چلتا ہے۔ اس کے سکریٹری امارت شرعیہ کے مفتی مولانا جنید عالم ندوی ہیں۔ 2 مئی کو یہ خبر ملی کہ انہیں بدعنوانی اور ضابطہ شکنی کے الزام میں امیر شریعت کے حکم سے مدرسے کے سکریٹری اور امارت شرعیہ کے مفتی کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے اور ان کی جگہ پر مولانا سہیل احمد ندوی کو سکریٹری بنایا گیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی مدرسے کے اساتذہ اور طلباء میں بے چینی پھیل گئی اور مدرسے میں حالات کشیدہ ہوگئے۔ خبر یہ بھی ملی کہ امارت شرعیہ کا جو وفد امیر شریعت کا حکم سنانے مدرسہ آیا تھا اسے مدرسے کے طلباء اور اساتذہ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مدرسے میں مارپیٹ بھی ہوئی۔ پولس آگئی۔ معاملہ تھانے تک پہنچ گیا۔ یعنی وہ ادارہ جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک لوگوں کے ہزاروں ہزار ملّی اور معاشرتی مسائل شرعی حدود میں حل کرتا رہا وہ اپنا مسئلہ شرعی حدود میں حل نہ کرسکا اور اس کا معاملہ دُنیاوی عدالت میں پہنچ گیا۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس واقعہ کے بعد امارت شرعیہ کے ناظم مولانا انیس الرحمان قاسمی کی طرف سے پریس کے لیے ایک بیان جاری کیا گیا جو مختلف اخبارات میں شائع بھی ہوا۔ اس بیان میں دارالعلوم اسلامیہ کے سکریٹری مفتی جنید عالم ندوی پر بدعنوانی، حکم عدولی اور بے ضابطگی کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ مفتی جنید عالم ندوی امارت شرعیہ کے دارالافتاء سے منسلک ہوکر بحیثیت مفتی لمبے عرصے سے کام کر رہے تھے۔ اپنی مدت کار میں انہوں نے بہت ساری بے اصولیاں کیں اور امارت شرعیہ کے ضابطے کے خلاف کام کیا۔ ان کو بار بار تنبیہہ بھی کی گئی لیکن وہ اپنے حال پر قائم رہے اور اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے امیرشریعت کی سمع و طاعت سے بھی انکار کیا۔ ناظم امارت شرعیہ نے اپنے تحریری بیان میں مفتی جنید عالم ندوی پر یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے امارت شرعیہ کے باہر اور امارت شرعیہ کے دیگر ذمہ داروں کے بارے میں غلط بیانی کی اور امارت شرعیہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ ان سے بارہا کہا گیا کہ دارالعلوم اسلامیہ کی زمین اور اس سے متعلق تمام کاغذات امارت شرعیہ کے محافظ خانہ میں جمع کریں لیکن انہوں نے ہمیشہ اس حکم کو نظرانداز کیا اور اب تک اس کے اصل کاغذات جمع نہیں کیے۔ دوسری طرف مفتی جنید عالم ندوی کہتے ہیں کہ اس ادارہ کا باقاعدہ ٹرسٹ ہے جس کے ماتحت یہ ادارہ چل رہا ہے اور میں اس کا سکریٹری ہوں۔ اس کے تمام کاغذات میرے پاس امانت ہیں، اسے ٹرسٹ کی اگلی میٹنگ میں پیش کروں گا اور ارکان ٹرسٹ جو فیصلہ کریں گے اس کے مطابق عمل کروں گا۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملہ بہت آسان تھا لیکن ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمان قاسمی نے اس معاملے کو الجھا کر مشکل ترین بنادیا۔ انہوں نے مجھے 4 ماہ سے کافی ذہنی اذیت دی ہے۔ مجھے کئی مواقع پر ٹارچر کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس کی تفصیل کسی موقع پر بیان کریں گے۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ یہی مولانا انیس الرحمان قاسمی ہیں جو 6 سال قبل تحریری طور پر مفتی جنید عالم ندوی کو ان کے حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ دے چکے ہیں۔ ’’امارت شرعیہ تعارف خدمات اور سرگرمیاں‘‘ (مطبوعہ 29 شعبان المعظم 1431ھ) میں مولانا انیس الرحمان قاسمی لکھتے ہیں کہ ’’اس کے (یعنی دارالعلوم اسلامیہ) حساب و کتاب کا نظم بیت المال امارت شرعیہ سے الگ رکھا گیا ہے اور اس کے نظم و نسق کی ذمہ داری امارت شرعیہ کے صدر مفتی محمد جنید عالم ندوی قاسمی پر ڈالی گئی ہے۔ جو دارالعلوم اسلامیہ ٹرسٹ اور دارالعلوم اسلامیہ کی مجلس منتظمہ کے فیصلوں کے مطابق اور حضرت امیر شریعت مولانا نظام الدین صاحب مدظلہ عالی کی سرپرستی اور آپ کی ہدایت کے مطابق اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں—‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً 6 برسوں کے اندر ایسا کون سا معاملہ آگیا کہ مفتی جنید عالم ندوی امارت شرعیہ کے انتہائی بدعنوانی عہدیدار ہوگئے؟ مفتی جنید عالم ندوی کا دعویٰ ہے کہ ’’حضرت امیر شریعت میرا 30 سالہ ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیں، میری کارکردگی کسی سے کم نہیں ہوگی۔‘‘ انہوں نے اپنا یہ معاملہ اللہ کی عدالت میں چھوڑتے ہوئے خود کو مدعی اور امیر شریعت اور ناظم امارت شرعیہ دونوں کو مدعالیہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جس نے اتنی قربانی دی ہو اس پر بدعنوانی اور ضابطہ شکنی کا الزام لگاکر عہدے سے برطرفی کا اعلان کیا گیا۔ اس کا صحیح فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہوگا۔‘‘
اب ذرا امارت شرعیہ کے ماضی بعید کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ یہ کس لیے قائم کی گئی۔ شعبۂ تنظیم، امارت شرعیہ کا بنیادی شعبہ ہے۔ جس کے ماتحت مسلم آبادیوں کو وحدت و تنظیم کی لڑی میں پرویا جاتا ہے اور مسلم آبادی اور گائوں اور محلے کو ایک یونٹ تسلیم کرکے وہاں کے مسلمانوں کو مقامی مذہبی سردار کے ماتحت منظم اور اجتماعی زندگی گذارنے کا درس دیاجاتا ہے۔ اس مقصد کے تحت ریاست بہار کے دور دراز گائوں (نالندہ ضلع کے پنہسہ) میں رہنے والے ایک عالم دین حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کیا اور 19 شوال 1339ھ مطابق 26 جون 1921ء کو پتھر کی مسجد پٹنہ میں علمائے کرام اور مشائخ کے ایک تاریخی اجتماع میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ صدر جلسہ امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ تھے۔ اس اجتماع میں شریک تقریباً 500 علماء و مشائخ کی موجودگی میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ امیر شریعت اوّل مقرر کئے گئے اور نائب امیر شریعت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ بنائے گئے۔اس موقع پر جو مجلس استقبالیہ بنائی گئی تھی اس کے صدر خانقاہ عمادیہ منگل تالاب کے بزرگ حضرت مولانا سید شاہ حسیب الحقؒ تھے۔ اس طرح علماء و مشائخ کا یہ کارواں بلاتفریق مسلک جب آگے بڑھا تو اس نے مڑکر پھر کبھی نہیں دیکھا اور ملت اسلامیہ پر جب کبھی بھی کوئی افتاد آئی تو اس کارواں نے سینہ سپر ہوکر اس کا مقابلہ کیا۔ ہجری تقویم کے مطابق اس قابل قدر ادارے کی عمر 98 سال اور عیسوی تقویم کے مطابق 95 سال ہوگئی ہے۔ اس مدت کے دوران ملت اسلامیہ کے افراد کا بھرپور اعتماد اس ادارے نے حاصل کیا اور ملک و بیرون ملک میں اس کے فیصلے اور اس کے مقاصد کو اعتبار ملا۔ لیکن اس معتبر ادارے کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب امیر شریعت خامس (پانچویں امیر) حضرت مولانا عبدالرحمانؒ کے انتقال کے بعد امارت شرعیہ میں ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں اور مولانا سید محمد ولی رحمانی کے خلاف منظم سازش کی گئی اور حالات ایسے پیدا کردیئے گئے کہ وہ امیر شریعت منتخب نہیں ہوسکیں اور یہی ہوا بھی۔ اگر اس وقت یعنی آج سے 18 سال قبل یکم نومبر 1998 کو حضرت مولانا ولی رحمانی کو امیر شریعت منتخب کرلیا گیا ہوتا تو امارت شرعیہ میں آج جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا اعتبار اور وقار اور بھی بڑھ جاتا۔ اگر امارت شرعیہ کی قیادت مضبوط ہوتی تو ملت کی شیرازہ بندی کے لیے بنائی گئی یہ تنظیم معمولی مدرسے کے معاملے میں الجھ کر انتشار اور بدنظمی کا شکار نہیں ہوتی۔ 18 برسوں کے دوران امارت شرعیہ کا ’ناسور‘ بڑھتے بڑھتے اتنا بڑا ہوگیا کہ وہ پھٹ پڑا اور اس سے نکلنے والے فاسد مواد سے پوری امارت شرعیہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ سوال یہ ہے کہ امارت شرعیہ کی قیادت ادارے کے اندر پنپنے والے ناسور میں نشتر کیوں نہیں لگاسکی؟ اور اس سے وابستہ کچھ لوگوں کے عزائم کو کیوں نہ سمجھ سکی؟ لوگ امارت شرعیہ کے نام پر اپنی ’’ساکھ‘‘ مضبوط بناتے رہے اور الگ ’’عمارتیں‘‘ تعمیر کرتے رہے تو قیادت کیوں خاموش رہی؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ملت اسلامیہ کے ہر فرد کے ذہن میں گھوم رہے ہیں اور انہیں پریشان کر رہے ہیں اور ملت اسلامیہ کا ہر فرد یہ مصرعہ پڑھ رہا ہے۔
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں