پاکستان میں مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے
شیخ منظر عالم
گذشتہ ہفتے گورنر سندھ نے تاجروں و صنعتکاروں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھانے میں پاکستانی تاجروں وصنعتکاروں کا اہم کردار ہے ۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر دور میں ارباب اختیار تاجروں و صنعتکاروں کی تقریبات میں اسی قسم کے بلند و بانگ دعوے اورلفاظی کرتے ہیں اور پھر دوسرے دن ہی فراموش کر بیٹھتے ہیں جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جون 2013سے ہمارے موجودہ ارباب اختیار اور صنعت وتجارت سے منسلک وزراء و افسران بالا خوشنما لفظوں اور خوش کن تقریروں سے پاکستان کی صنعت و تجارت کو ترقی دینے کی باتیں کررہے ہیں مگر عملی طورپر اعدادوشمار کے مطابق برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے ۔مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق 2013-14میں ہماری برآمدات 25078ملین ڈالرز اور درآمدات 41668ملین ڈالرز تھی اس طرح ہمارا مالیاتی خسارہ 16590ملین ڈالرز تھا، 2014-2015میں ہماری برآمدات میں کمی آئی جو 24089ملین ڈالرز پر آئیں اور درآمدات 41280ملین ڈالرز تھیں اس طرح ہمارا مالیاتی خسارہ بڑھ کر 17191ملین ڈالرز ہوگیا، اب 2015-2016کے نو ماہ کے دوران ہماری برآمدات میں کمی آتے ہوئے 16393ملین ڈالرز تک ہی پہنچ پائی ہیں جبکہ درآمدات 29581ملین ڈالرز کی سطح پر ہیں اس طرح حالیہ مالیاتی سال کے نو ماہ میں ہمارا مالیاتی خسارہ 13188ملین ڈالرز ہے جس میں مزید اضافہ ہونے کی توقع ہے۔یہی ہمارے ملک کے ارباب اختیار کی اپنی معاشی و اقتصادی ترجیحات سے لاتعلقی و لاپرواہی ہے کہ ہماری برآمدات میں کمی ہوتی جارہی ہے کیونکہ ہمارے ارباب اختیار نعروں اور تقریروں میں تو پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے ، برآمدات بڑھانے اور پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کی باتیں کرتے ہیں مگر عملی اقدامات کرنے میں غیر سنجیدہ روئیے اختیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ سنگاپور جس کا رقبہ صرف 278اسکوئر میل اور آبادی 55لاکھ کے لگ بھگ ہے اور قدرتی وسائل کی کمی بھی ہے مگراس کی سالانہ برآمدات 518بلین ڈالرز سے زائد ہے جبکہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے سنگاپور دنیا میں تیسرے نمبر پر اور کم کرپٹ ممالک میں اس کانمبر ساتواں ہے ۔ اسی طرح فلپائن جس کا رقبہ 115831اسکوئر میل اور آبادی 10کروڑ سے زائد ہے اس کی برآمدات 62بلین ڈالرز سے زائد ہیں۔ اسی طرح تھائی لینڈجو رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے اور صرف سیر وسیاحت کے لئے مشہور تھا وہ بھی پاکستان سے معاشی طور پر انتہائی مضبوط ہوگیا ہے اور اس کی سالانہ برآمدات 214.97ارب ڈالرزسے ذائد ہوچکی ہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کا رقبہ 340509اسکوئر میل اور آبادی بیس کروڑ سے زائد ہے جو کہ معدنی و قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالامال ہے اور قدرت نے اپنے بیش بہا سمندری ، پہاڑی ، دریائی اور میدانی خزانوں سے ہمیں نوازا ہوا ہے اس کی برآمدات میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے جو اب کم ہوتے ہوئے توقع ہے کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک صرف بیس اکیس ارب ڈالرز تک ہی پہنچ پائے گی۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کاسہ لیسی پر تلے رہتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے دست سوال دراز رکھتے ہیں اور یہی ہمارے ملک کی ترقی کی راہ میں اہم روکاوٹ ہے کیونکہ یہی عالمی مالیاتی اداروں کی سازش ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں اور بھیک کے چنگل میں پھنسا کر غلام بناکر رکھا جائے اور اپنی من مانی شرائط پر ان کا استحصال کیا جائے۔یہی قرضوں اور بھیک کا نظام قوموں کو ذہنی طور پر غلام اور مفلوج بنارہا ہے مگر اس جانب ارباب اختیار کو توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ہے بلکہ اپنے شاہانہ انتظامی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے قرضوں کے حصول میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منافقانہ کامیابی کے شادیانے بجاتے ہیں اورملک وقوم کو قرضوں کی گہری دلدل میں دھنسا رہے ہیں جس کے بھیانک نتائج آنے والوں وقتوں میں ملک و قوم کو ہی بھگتنے پڑیں گے ۔اس کے علاوہ ہمارے معاشی و منصوبہ بندی کے اداروں میں بیٹھے ہوئے دانشور اور کچھ تاجر و صنعتکار برآمدات میں کمی کو عالمی کساد بازاری سے جوڑ رہے ہیں تو یہ صحیح ہے کہ عالمی منڈی میں کساد بازاری کا رجحان ضرور آیا ہے مگر اس کے باوجودہم سے کہیں چھوٹے ممالک مثلاً تھائی لینڈ، سنگاپور، فلپائن اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور اس کی برآمدات میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے جس کی وجہ ان ممالک کی مناسب معاشی منصوبہ بندیاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہماری معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا بھی ہے کیونکہ ترقی چاہے سماجی ہو، معاشرتی ہو، ثقافتی ہو یا معاشی ہو یااقتصادی ہوبغیر تعلیم کے ہر قسم کی ترقی محض خام خیالی ہے مگر تعلیمی میدان میں بھی ترقی کے بارے میں ہمارے ارباب اختیار صرف خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیںکیونکہ یونیسکو (UNESCO) کی 2015کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58.7فیصد ہے جبکہ ہمارے سے بھی کئی چھوٹے ملک یہاں تک کہ پسماندہ ملک میں بھی خواندگی کی شرح ہم سے کہیں ذیادہ ہے جیسا کہ سوڈان میں 75.9 فیصد، اریٹیریا میں 73.8 فیصد، سری لنکا میں 92.6فیصد، بھوٹان میں 64.9 فیصد، سنگاپور میں 96.8فیصد، فلپائن میں 96.3فیصد، سائپرس میں 99.1فیصد جبکہ انڈیا میں 72.1فیصد ہے۔ اس لئے معاشی ترقی کے لئے تعلیمی ، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی قوم تعلیم کے بغیر معاشی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتی۔ ہماری معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ امن وامان کے مسائل بھی ہیں کیونکہ امن وامان کی دگرگوں صورتحال میں کوئی بھی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ اپنی سرمایہ کاری کو نکالنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ۔ خیر یہ بات قابل اطمینان اور فرحت بخش ہے کہ ہماری عسکری قیادت ملک کے امن وامان کے مسائل حل کرنے میں اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے اوراس کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ہیں جس کی وجہ ملک میں امن وامان کے مسائل میں کافی بہتری آئی ہے اورجس طرح عسکری قیادت اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے رہی ہے تو توقع کی جارہی ہے کہ ملک کے امن وامان کے مسائل حل ہوجائیں گے اور اس طرح سے ملک کی معاشی ترقی کی راہیں بھی استوار ہوں گی۔بقول شاعر۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔