امریکہ میں ہم جنس پرستوں پر فائرنگ ، 50 ہلاک ، 53 زخمی،

FLORIDA FIRING

مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے یہ کسی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے: ماہرین کے خدشات
اورلینڈو، فلوریڈا : (معیشت نیوز و ایجنسی) امریکہ کے فلوریڈا میں ہم جنسوں کے نائٹ کلب ’’پلس ‘‘میں اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں 50 لوگوں کے ہلاکت کی تصدیق کردی گئی ہےجبکہ 53 دیگر افراد اس واقعے مین زخمی ہوئے ہیں۔امریکی اور صیہونی میڈیانے اسےعراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ [داعش]سے متاثر ایک افغان نوجوان کی کارروائی قرار دیا ہے۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق زخمیوں کو طبی امداد پہنچائی جا رہی ہے جبکہ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ امریکی صدر نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ اورلینڈو کے میئر بڈی ڈائر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ ترپن زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔ انہوں نے فائرنگ کے اس بہیمانہ واقعے کو ’ناقابل یقین‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گورنر سے وہ ریاست میں ہنگامی حالات کے اعلان کی درخواست کر چکے ہیں۔ فائرنگ شروع ہونے کے بعد اگرچہ کلب میں موجود تیس لوگوں کو کامیاب طریقے سے نکال لیا گیا تھا باوجودیکہ بھاری ہلاکت کاخطرہ ٹالا نہ جا سکا۔
بتایا جاتا ہے کہ ہفتے کی شب ہم جنس پرستوں میں مقبول’’ پلس‘‘ نائٹ کلب میں فائرنگ کرنے والا نوجوان عمر متین افغان نژاد امریکی شہری تھا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور بھی ہلاک ہو چکا ہے۔ اورلینڈو کی پولیس نے بتایا ہے کہ ایک ہنگامی سیل قائم کر دیا گیا ہے، جہاں لوگوں کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق متعدد لاشیں ابھی تک کلب کے اندر ہی موجود ہیں، جنہیں نکالنے میں وقت درکار ہو گا۔مقامی پولیس نے بہر حال شہر کی صورتحال کو مجموعی طور پر قابو میں بتا یا ہے اور کہا ہے کہ لوگ خوفزدہ نہ ہوں۔ پولیس سربراہ جان مینا کے مطابق حملہ آوراے آر -15 طرز کی حملہ آور گن سے لیس تھا، جس نے کلب میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ حمل آور اکیلا ہی تھا۔ تحقیقاتی افسران نے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ کارروائی ’داخلی دہشت گردی‘ کے تناظر میں پرکھی جا رہی ہے لیکن ایسے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ کہیں حملہ آور ریڈیکلائزڈ تو نہیں ہو چکا تھا۔
ایف بی آئی نے کہا ہے کہ حملہ آور کی شناخت ہو چکی ہے اور اس کے گھر والوں کو بنیادی معلومات فراہم کرنے کے بعد اس کی شناخت ظاہر کی جائے گی۔ تاہم امریکی و صیہونی میڈیا رپورٹوں کے مطابق حملہ آور افغان مسلمان عمر متین تھا، جس کی عمر انتیس برس تھی۔ صیہونی میڈیا اپنی خبروں میں اس بات کو اچھال رہا ہے کہ حملہ آور کا رحجان ’اسلامی شدت پسندی‘ کی طرف مائل تھا۔
امریکی صدر بارک اوبامہ نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اس واقعے کی تحقیق اور مکمل چھان بین کے لیے فلوریڈا کی ریاستی حکومت کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
البتہ دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ’’امریکہ میں صدارتی انتخابات کی ہمہ ہمی چل رہی ہے۔صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پہلے ہی مسلمانوں کےخلاف مہم چھیڑ چکے ہیں۔جبکہ صیہونی مقتدرہ امریکی انتخابات میںڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی چاہتا ہے۔لہذا اس بات کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا کہ عین انتخابی ماحول میںدہشت گردانہ حملہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں ہے۔‘‘ماہرین کے مطابق’’اب تک کے رجحانات کی روشنی میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ صیہونی مقتدرہ کے امیدوار مختلف مقامات پر پیچھے چل رہے تھے جبکہ مسلمانوں سے متعلق ڈونالڈ ٹرمپ کی رائے کو بھی عوام نے مسترد کر دیا تھا لیکن اس حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف جہاں رائے عامہ ہموار کرنے میں آسانی ہوگی وہیں صیہونی مقتدرہ اپنے امیدواروں کو بہتر طور پر متعارف کر اسکے گا۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *