مظلوموں کی آواز مہا شویتادیوی

مہا شویتا دیوی
مہا شویتا دیوی

نور اللہ جاوید
ادب صرف جذبات کو مہذب اور احسن طریقے سے اظہار کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم تخلیق کار اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعہ مظلوم ، بے کس ، مجبور و مقہور اقوام وطبقات کو انصاف دلانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ سماج و معاشرہ میں بیداری ، شعور اور آگہی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ادب برائے ادب یا پھر ادب برائے تعمیر ایک مستقل موضوع ہے ۔مگر بلاشبہ جنہوں نے ادب کو تعمیر کا ذریعہ بنایا ان کی ادبی خدمات سے سماج وہ طبقہ بھی فیض یاب ہواجنہیں لکھنے پڑھنے سے جان بوجھ کر محروم کردیا گیا ہے ۔ادب کے ذریعہ جن ادباء و شعراء نے مظلوموں کی دادرسی، سماجی نا ہمواریوں اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے آواز بلند کی ان میں مہا شویتا دیوی کا نام سب سے نمایاں ہے ۔
1926میں متحدہ ہندوستان کے ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی مہا شویتا دیوی نے کم و بیش 6دہائیوں تک اپنی تحریروں اور سرگرمیوں سے مظلوم و مقہور افراد کو انصاف دلانے کی جد و جہد کی ہے ۔وہ کہتی تھیں کہ ’’میری سرگرمیاں ہی میری تحریر ہے اور میری تحریر ہی میری سرگرمیاںہیں‘‘۔یعنی ان کا موقف تھا کہ ادباء وشعراء کی ذمہ داریاں صرف تحریر سے مکمل نہیں ہوتی ہے بلکہ ضرورت پڑنے میدان عمل میں آکر آواز بلند کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔اسی اصول پر وہ زندگی بھرگامزن رہیں۔مہا شویتا دیوی کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے تھا جو عموماً زمین سے کٹے ہوتے ہیں ،انہیں عام آدمی کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے ۔مگر مہا شویتا دیوی نے اس تصور کو نہ صرف خارج کیا بلکہ نصف صدی تک وہ مظلوم و مقہور افراد کی آواز بن کر زندگی گزاردی۔ان کا خاندانی پس منظر ادب و ثقافت اور کلچر سے وابستہ ہے۔مہاشویتا دیوی کے والد مانس کھٹک مشہور شاعر اور ناول نگار اور بنگالی ادباء و شعراء کے کلو تحریک کے روح رواں تھے ۔چچا ریتویک کھٹک مشہور فلم ساز تھے ۔ والدہ دھریتری دیوی مصنفہ اور سماجی کارکن۔مامو سجن چکرورتی اکانامک پولیٹیکل ویکلی کے بانی ایڈیٹر اور شو ہر بیوجن چکرورتی مشہور ڈرامہ نگار اور لیفٹسٹ انڈین پیوپلس ٹھیٹر ایسوسی ایشن کے بانی ممبر ۔ظاہر ہے ان ماحول میں آنکھیں کھولنے والی شخصیت میں خود اعتمادی ، شعور و آگہی میں بلندی پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ نندی گرام اور سینگور میں جبراً حصول اراضی کے خلاف تحریک کے دوران جب ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے مہا شویتا دیوی سے پوچھا کہ ’’کیا آپ خوف زدہ نہیں ہوتی ہیں کہ حکومت کوئی کارروائی کرے گی‘‘ ؟ مہا شویتادیوی نے کہا ’’ میں ریتویک کھٹک کی بھتیجی اور بیوجن چکرورتی کی بیوی ہوںخوف کیا چیز ہے میں نے کبھی جانا ہی نہیں ہے ‘‘؟۔
100سے زاید کتابوںکی مصنفہ اور سیکڑوں مضامین لکھنے والی مہا شویتا دیوی کی تحریروں میں ما فوق الفطرت کہانیاں نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کی تحریریں سماج اور معاشرہ کی عکاسی کرتی تھیںاور بے خوف و نڈر ہوکر ظلم و تشدد اور زیادتی کا سینہ چاک کرتی تھیں۔وہ ہندوستان کی ان مصنفین میںسے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اپنی تحریروں کا موضوع دلت اور قبائلیوں بالخصوص خواتین کو بنایا۔ان کی مشہور کتاب’’دروپتی‘‘ میں ایک قبائلی خاتون کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے جسے سیکورٹی فو رسیس نکسلی ہونے کے الزام میں گرفتار کرتی ہے اور اس کے بعد اس کی عصمت دری کی جاتی ہے۔’’دروپتی ‘‘ پولس کے مظالم کے ایک نئے رخ سے روبرکراتی ہیں وہ نکسلیوں کے خاتمے کی آڑ میں جنگلور اور پہاڑوں کو فروخت کرنے کی سازش کو بھی بے نقاب کرتی ہیں ۔
گیان پیٹھ، ساہتیہ اکاڈمی ، پدم بھوشن اور رومن میکسیکے اور نہ جانے کتنے اور ایوارڈ ہیں جسے مہا شویتادیوی کونہ سرفراز کیا گیا ہو۔مگر وہ اس مقام پر پہنچ گئیں تھیں جہاں ایوارڈ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔وہ ایک مشن پر تھیں جس کا مقصد مظلوموں کو انصاف دلا نا تھا۔سائنس و تکنالوجی کے اس دور میں جب اسمارٹ سٹی کا تصور پروان چڑھ رہاہے،ہریالی، شادابی، ہرے بھرے کھیت کی جگہ بلند و بالا عمارتیںلے رہی ہیں۔ کہانی اور ناول کے پلاٹ میں سرسبز و شاداب کھیت، خوبصورت ندیاں اور رنگ برنگ کے درخت کے سایہ کی جگہ جدید تکنالوجی نے لے لی ہے ۔جہاں دوستی، رواداری، قربانی ، ایثار کا کوئی جذبہ نہیں ہے ۔کہانیاں بھی مفادپرستی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان حالات میں مہا شویتا دیوی نے اپنی کہانیوں اور تحریروں کے ذریعہ ہمارے ضمیروں کو جھنجھورنے کی کوشش کی ۔انہوں نے جس طریقے سے اپنے تحریروں کے ذریعہ قبائلیوں کے مسائل کے اجاگر کیا شاید ہی کسی اور نے کیا ہے ۔قبائلیوں کو زمین و جائدادا ور زندگی کے تمام وسائل سے محروم کرنے کی سازش کے بے نقاب کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ذات پات کے نظام میں جکڑے ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے ہندئو اپنی عیش و عشرت کیلئے قبائلیوں سے زمین چھین رہے ہیں ، جنگلوں کو بے دریغ کاٹا جارہاہے ،پہاڑ تک کو بخشا نہیں جارہا ہے ۔ملک کایہ اشرافیہ طبقہ قبائلیوں کی خواتین تک کوبخش نہیں رہے ہیں ۔ان کی تصانیف میں ارانیر ادھیکار(جنگلوں پر قبضہ)چھوٹی منڈا اوم تار تیر(Choti Munda and His Arrow) تیتو میر، دھولی،1975میں مشہور ہوئی کتاب ’’ہزار چوراسی ماں‘‘جسے بعد میں پردہ سمیں پر بھی فلمایاگیاقبائلیوں کے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔یہ وہ سب کتابیں ہیں جس میں انہوں نے قبائلیوں کو موـضوع بحث بناتے ہوئے بتایاکہ قبائلی ہم جیسے نام نہاد مہذب سے کہیں زیادہ مہذب اور باشعور ہیں ۔کیوں کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو گھروں سے محروم نہیں کرتے ہیں۔مہا شویتا دیوی نے خود اپنی کہانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’’میں حقیقی کہانیوں پر یقین رکھتی ہوں جو عام آدمی کی زندگی پر مبنی ہوتی ہے ،میں عام لوگوں کے مسائل ، ان کے مشکلات اور پریشانیوں کو سامنے رکھ کر کہانیاں لکھتی ہوں تاکہ سماج میں بیداری پیدا ہواور ان میں سماجی ناانصافی کے خلاف جد و جہد کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔
ایک طرف وہ2006میں فرینکفرٹ کتاب میلہ کے افتتاحی تقریب میںیاد گار خطبہ دیتے ہوئے ہندوستانی وراثت اور تہذیب کو پورے خوداعتمادی سے بیان کرتی ہیں کہ میرا دل ہندوستانی ہے جہاں ہر ایک کو سمونے اور جگہ دینے کی صلاحیت ہے ۔جہاں کی خوبصورتی ہی تکثیریت ہے مگر دوسری طرف وہ ہندوستان کوسرمایہ داریت کی طرف ڈھکیلنے کی تمام کوششوں کے خلاف سینہ سپر بھی ہوتی ہیں ۔وہ نکسلی علاقوں میں سیکورٹی فورسیس کی تعیناتی ، قبائلیوں کے خلاف کارروائیوں کے خلاف احتجاج بلند کرتے ہوئے پوچھتی ہیں کہ آخر ان قبائلیوں کا قصور کیا ہے ؟ کیاانہیں خواب دیکھنے کا حق نہیں ہے؟ کیاانہیں انصاف حاصل کرنے کا حق نہیں ہے ؟ وہیں وہ صنعت کاری کے نام پر کسانوں سے جبراًزمین چھیننے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں ۔نظریاتی طور پر یکسانیت ہونے کے باوجود وہ بایاں محاذ حکومت کے خلاف مورچہ سنبھالتی ہیں بلکہ اس تحریک کی روح رواں بنتی ہیں جس کی وجہ سے بایاں محاذ کا 34سالہ دور اقتدار کا سورج غروب ہوجاتا ہے اور بنگال کی سیاست میں ممتا بنرجی کا سورج طلوع ہوتا ہے ۔ممتا کی قربت کے باوجود جب ممتا بنرجی حکومت کی تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہیں تو اس وقت وہ ممتا بنرجی جو انہیں ماں کا درجہ دیتی ہے کی تنبیہ و توبیخ کرنے سے گریز نہیں کرتی ہیں ۔ان کی نظر میں اظہار خیال کی آزادی ہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے اور اس کا گلا گھونٹ دیا گیا تو جمہوریت کی روح ختم ہوجائے گی۔
مہا شویتادیوی ایک اعتبار سے خوش نصیب بھی ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں اپنی آنکھیں موندلی ہیں جب حب الوطنی اور قوم پرستی کے نام پر ایسی لکیر یںکھینچ دی گئی جہاں حق کی آواز بلند کرنا ملک کی غداری کے مترادف ہے ، حقوق انسانی کی دہائی ملک دشمنی قرار پاتا ہے ۔ان حالات میں مہا شویتا دیوی جیسی شخصیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے اگر آج کے حالات میں وہ اگر اسی تیور میں لکھتی تو شاید انہیں بھی ملک دشمن قرار دیدیا جاتا ، کیوں کہ آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اختلاف رائے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ؟یہاں صرف دو آپشن ہے ؟دوستی یا دشمنی۔تنقید کرنے والا دشمن اور ملک کا غدار اور دہشت گردہے ۔چاپلوسی ، خوشامد ، خود غرضی کمال ہنر ہے ۔جہاں عدم رواداری ،گائے رکشا کے نام پر دلتوں اور اقلیتوں پر مظالم کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن اور اس کی حمایت میں آواز بلدنے کرنے وائے پدم شری ، پدم بھوشن جیسے انعامات کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔کیا ان حالات میں کسی مصنف ، صحافی، سماجی کارکن میں کشمیر، چھتس گڑھ اور دیگر نکسلی علاقوں میں حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرآت ہے؟ کیا بے باک صحافی ، قلمکار ان حالات میں سکون سے زندہ رہ سکتا ہے ؟ ۔
مگر اس مایوس کن حالات میں فیض احمد فیض کی زبان میں ’’مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح یاب ہوکر رہے گی اور آخر کار جنگ و نفرت اور ظلم و کدروت کے بجائے ہماری باہمی زندگی کی بناوہی ٹھہرے گی جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی۔خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی ۔مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است۔اب دیکھنا ہے کہ مہا شویتا دیوی کی وارثت کو کون آگے بڑھتا ہے اور اس کا حشر کیا ہوتا ہے ۔
md.nurullahjawaidqasmi@yahoo.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *