۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں ہمارے بزرگوں کی قربانیاں

Jang e Azadi me Musalmano ka kirdaar

مفتی محمد حذیفہ قاسمی ،بھیونڈی ، ناظم تنظیم جمیعت علماء مہاراشٹر موبائیل نمبر : 9320205777
۱۸۵۷؁ ء کی شہر دلی کی جنگ آزادی جو آخر ی مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی۔ یہ جنگ بھی اصل میں حضرت سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے دیگر تین سو؍۳۰۰ رفقاء کی بالا کوٹ کی پہاڑیوں پر شہادت کے بعد وہ باقی ماندہ افراد جو ملک کے دیگر حصوں میں منتشر ہوگئے تھے۔اورانہوں نے مختلف مقامات پر انگریز کے خلاف گوریلا جنگ کے لئے محاذ قائم کر رکھا تھا ۔ مثلا سرحدی مقام استھانہ میں سید صاحب کے انتہائی معتمد اور مخصوص تربیت یافتہ مولانا محمد قاسم صاحب پانی پتی نے ذمہ داری سنبھال رکھی تھی یہاں سے انگریز کے خلاف مسلسل جد و جہد ،مجاہدین کی تیاری اور انگریزی حکومت کو نقصان پہنچانے اور ان پر گوریلا حملوں کا سلسلہ مسلسل جاری تھا ۔ اسی طرح شہر دلی میں حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحٰق صاحب دلی کے محاذ کی قیادت فرما رہے تھے۔جہاں سے ملک کے مختلف محاذوں پر مالیات کی فراہمی اور اسلحہ جات کی فراہمی جاری تھی ۔ ٹھیک اسی طرح صادق پور (پٹنہ) کے محاذ پر حضرت سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ کی فوج کے دو اہم باقی ماندہ سپاہی مولانا عنایت علی اور مولانا ولایت علی صاحبان صوبۂ بہار و بنگال کے مختلف علاقوں سے انگریزی حکومت کے خلاف مسلسل نبر د آزما رہے ۔ یہ ایک ہلکا سا خاکہ ہے سید صاحب کی فوج کے باقی ماندہ افراد کے پورے ملک میں انگریز کے خلاف اگلی جنگ کی تیاریوں اور پورے ملک کو انگریز کے خلاف ایک فیصلہ کن بڑی جنگ کے لئے آمادہ کرنے کا ۔اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی یہ بھی ہے کہ شہر دلی کے محاذ کی قیادت کرنے والے حضرت شاہ محمد اسحٰق صاحب جب ۱۸۴۴؁ ء میں ہندوستان سے ہجرت فرما کر مکتہ المکرمہ تشریف لے گئےتو انہوں نے اپنی جگہ پر حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمتہ اللہ علیہ کو ذمہ داری سونپی جس کو وہ ۱۸۴۴؁ ء سے ۱۸۵۷؁ ء تک بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ۱۸۵۷؁ ء کی شاملی ضلع مظفر نگر کی جنگ جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کی امارت ۔اور مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند ۔ ومولانا رشید احمد گنگوہی سرپرست دارالعلوم دیوبند کی قیادت میں لڑی گئی ہے ۔اور شہر دلی کے محاذ پر بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی جانے والی انتہائی طویل اور فیصلہ کن جنگ جو انگریز کے خلاف ہندوستانیوں کی جانب سے سب سے اہم اور آخری کوشش تھی ۔ اس جنگ میں بھی ہر چہار جانب علماء کی ایک بڑی تعداد قیادت کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خواہ امبالہ کے محاذ پر مولانا جعفر تھانیسری ہوں یا کیرانہ کے علاقے میں مولانا رحمتہ اللہ کیرانوی ہوں ،علی گڑھ کے علاقے میں قاضی عبدالجلیل یا مولانا ریاض الدین ہوں مرادآباد کے علاقے میں مولانا کفایت علی کافی ؔ شہید ہوں یا شاملی کے محاذ پر مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی یا حافظ ضامن شہید وغیرہ ۔ یہ سارے ہی حضرات با لواسطہ یا بلا واسطہ حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمتہ اللہ علیہ کے تربیت کردہ اور ان کے متعلقین میں سے تھے۔اور حضرت شاہ عبدالغنی صاحب ، شاہ محمد اسحٰق صاحب کے جاں نشیں تھے ۔ جو حضرت سید احمد شہید رحمتہ اللہ علیہ کی فوج کے ایک اہم سپاہی اور ان کے بعد اس تحریک کو زندہ رکھنے والے ایک اہم ہیرو تھے ۔ انہیں حضرات کی کوششوں سے پورے ملک میں وہ ماحول بن سکا جس نے یہاں کے باشندوں کو انگریز کے خلاف ایک فیصلہ کن اور طویل جنگ لڑنے اور اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کا مزاج بنا یا تھا ۔ ۱۸۵۷؁ ء کی دلی کی جنگ کے وقوع پذیر ہونے کا پس منظر ۱۸۳۱؁ ء میں حضرت سید احمد شہید اور ان کے رفقا ء کی بالا کوٹ کی پہاڑیوں پر شہادت اور بظاہر انگریزوں کے خلاف پورے ملک میں کوئی مزاحمت باقی نہ رہ جانے کے بعد۔ انگریزوں نے اس ملک کو بزورِ طاقت اپنا غلام بنا لینے اورمختلف مذاہب کے ماننے والوں کا مذہبی استحصال کرنے اور اس ملک کو عیسائی اسٹیٹ میں تبدیل کر دینے کے اپنے دیرینہ پلان کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا تھا ۔ جس کی خاطر ایک طرف تو انہوں نے برطانیہ سے اپنے بڑے بڑے پادری بلا کر پورے ملک کے مختلف شہروں کے مرکزی مقامات پر علی الاعلان عیسائیت کا پرچار اور دوسرے مذاہب والوں کے جذبات کی توہین کرتے ہوئے ان کو مناظرہ کا چیلنج کرنے اور مد مقابل آنے والے مناظرین کو بزورِ طاقت خاموش کردینے کا سلسہ جاری کر رکھا تھا ۔ او ر دوسری جانب یہاں کی عوام کو لبھانے کے لئے امداری ( چیری ٹیبل)معیاری اسپتال اور بلا فیس کے اعلی تعلیمی اسکول و کالجس کھول رکھے تھے۔ جس سے جہاں ایک طرف کمزور نظریہ و مزاج کے لوگ ان چیزوں کی جانب مائل ہوکر اپنے دین و ایمان کا سود ا کررہے تھے۔ ونہیں دوسری جانب مذہب سے وابسطہ افراد اور جن کے دلوں میں دینی و ملی غیرت و حمیت کی ادنیٰ سی رمق بھی باقی تھی وہ ان چیزوں سے انتہائی بیزار اور کسی بھی قیمت پر اس سے چھٹکا را حاصل کرنا چاہتے تھے۔ خواہ اس کی خاطر ان کو کتنی ہی بڑی سے بڑی قربانی کیوں نہ پیش کرنی پڑے ۔ جلتی پر تیل کا کام کرنے والا واقعہ جس کے نتیجے میں ۱۸۵۷ ؁ ء کی شہر دلی کی جنگ وقوع پذیر ہوئی ۔ انگریز حکومت کے توسیع پسندانہ وہ عزائم جن کا اوپر تذکرہ ہوا اس سے آگے بڑھ کر ایک انتہائی گھناؤنی اور کسی بھی قیمت پر ناقابل برداشت حرکت یہ سامنے آئی کہ انہوں نے یہاں بسنے والے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے ایک شرارت یہ کی کہ سرکار کی جانب سے فراہم کیے جانے والے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈیوں کا برادہ ملا دیا ۔ جس سے ہندو مسلم دونوں نفرت کرتے تھے اور دونوں اس کو اپنے مذہب کے منافی سمجھتے تھے۔ ہندو گائے کی ہڈی کے برادے کو اور مسلم سور کی ہڈی کے برادے کو ۔نیزاسی طرح یہاں کی مقامی فوج کو بندوقوں میں استعمال کرنے کے لئے جو کارتوس فراہم کیے جاتے ان کی ٹوپی پر گائے اور سور کی چربی لگی ہوتی تھی۔ اور اس کارتوس کی ٹوپی کو دانت سے کھولنا ہر فوجی پر لازمی قرار دیا گیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ کوئی ہندو جو اپنے مذہب پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو ۔ وہ گائے کی چربی کے استعمال کو کبھی پسند نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح وہ مسلمان جس کو حلال و حرام کی ذرا بھی تمیز ہو اور اس کے دل میں فرمانِ خدا وندی کی ذرا بھی اہمیت ہو وہ کبھی بھی سور کی چربی کے استعمال کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ کلکتہ کے مضافات میں بارکپور اور دم دم ، بہرام پور وغیرہ کے علاقے میں سب سے پہلے اس کا ری ایکشن سامنے آیا ۔ وہاں کے فوجیوں نے اس قسم کے کارتوسوں کے استعمال کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانا چاہا ۔ لیکن انگریز فوج کا کمانڈر جس کا دماغ کبر اور تعلّی کے خناس سے بھرا ہوا تھا ۔ اس نے ان فوجیوں کو مطمئن کرنے کے بجائے ان کے لیڈر منگل پانڈے اور اس کے ایک ساتھی کو اپریل ۱۸۵۷؁ ء میں پھانسی کی سزا دلا دی ۔اور بقیہ فوجیوں سے ہتھیار چھین کر ان کو ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا۔ وہ چنگاری جو شعلہ جوالہ بن گئی اس واقع کے اطلاع جب ملک کے دوسرے علاقوں تک پہنچی تو وہاں کے فوجیوں میں انگریز حکومت کے خلاف بددلی اور بغاوت کے جذبات پروان چڑھنے لگے۔ چنانچہ بنگال کے واقعے کی اطلاع جب میرٹھ کی فوجی چھاؤنی میں پہنچی تو یہاں کے فوجیوں کے جذبات بے قابو ہوگئے ۔ میرٹھ شہر میں انگریز فوج کی ایک بہت بڑی چھاؤنی تھی۔ جس میں ہر وقت دسیوں ہزار فوج مقیم رہا کرتی تھی ۔اور ان کی ٹرینگ اور پریڈ بھی روز مرہ کا حصہ تھا ۔ یہاں کا توپ خانہ ملک کے اہم توپ خانوں میں شمار ہوتا تھا ۔ یہاں چھ ؍ ۶ مئی ۱۸۵۷؁ء کو فوج کی پریڈ کرائی گئی۔ جس میں ۹۰ فوجیوں کو ان کارتوسوں کو دانت سے کھولنے کا حکم دیا گیا ۔لیکن نوے میں ۸۵ فوجیوں نے ان کارتوسوں کو اپنے دانتوں سے کھولنے سے انکار کردیا ۔ ان ۸۵ فوجیوں میں سے ۴۹ مسلمان اور ۳۶ ہندو فوجی تھی ۔ جس کے نتیجے میں ان ۸۵ فوجیوں کو گرفتار کر کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر شہر میرٹھ میں ان کا گشت کر ا کر ان کو دس دس سال کی قید با مشقت کی سزا سناتے ہوئے انہیں جیل خانوں میں ڈال دیا گیا۔ یہ واقعہ جہاں ایک طرف عوام الناس کے لئے انتہائی دل آزاری کا سبب بنا ۔ونہیں ان کے دیگر فوجی ساتھیوں کے لئے یہ ذلت آمیز سلوک نا قابل برداشت ہوگیا۔اور با لآخر میرٹھ چھاؤنی میں انگریز کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیاگیا۔ چناچہ اگلے ہی دن میرٹھ کی چھاؤنی میں فوجی بغاوت ہوگئی ۔ جیل خانے کے دروازے توڑ کر اپنے ساتھیوں کو وہاں سے نکالتے ہوئے مزاحمت کرنے والے ہر آفسر اور ہر فوجی کو قتل کرنے نیز میرٹھ سے دلی کی جانب جاتے ہوئے راستے کی تمام انگریز فوجی چھاؤنیوں کو جلاتے ہوئے میرٹھ کی یہ دیسی فوج بہادر شاہ ظفر کی قیام گاہ شہر دلی میں لال قلع جا پہنچی ۔اور ان سے اس سلسلے میں دخل اندازی کرنے اور ملک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کی درخواست کی ۔ بہادر شاہ ظفر نے اولاً لوگوں کو اتنا بڑا قدم اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی ۔ اور شہر دلی کے کمشنر کو بلا کر اس مسئلے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی ۔لیکن میرٹھ سے آئے ہوئے دیسی فوج کے باغی فوجی کسی کی ایک سننے کو تیار نہ ہوئے۔اور انگریز کمشنر کو بھاگتے ہوئے گولی مار کر ختم کر دیا ۔ جس کے بعد اب معاملہ دونوں طرف سے بالکل بے قابو ہوگیا ۔ انگریز حکومت نے بھی اپنی فوج کو شہر دلی کا محاصرہ کر نے کا آرڈر دے دیا ۔ دوسری جانب بہادر شاہ ظفر نے بھی اس جنگ کی کمانڈ اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔ اور شہر دلی کے قرب و جوار سے انگریز مخالف جتھے جوق در جوق شہر دلی میں جمع ہونے لگے ۔اور بالآخر ایک گھمسان کی جنگ چھر گئی ۔ جس کے نتیجے میں طرفین سے لاکھوں لاکھ انسانوں کی جانوں کا ضیاع ہوا ۔ شروع شروع میں تو انگریزی فوج ہر طرف سے گھر کر شکست سے دو چار ہو رہی تھی۔ گورے انگریز بھاگ کر جدھر جاتے ونہیں مارے جاتے ۔لیکن آہستہ آہستہ انگریز حکومت نے دوسرے صوبوں سےاپنی فوجو ں کو جمع کرنا شروع کردیا ۔ خصوصاً صوبۂ پنجاب کی بڑی فوج جب شہر دلی میں داخل ہوئی ۔ اور انگریزی فوج نے فتح گڑھ کی پہاڑی پر اپنا توپ خانہ نصب کر کے پورے شہر کو اپنے نشانے پرلے لیا اور اس کے بعد توپوں کے گولوں کے ذریعے لال قلعے کی فصیلیں توڑ دی گئیں ۔ اور ایک خونریز جنگ کے بعد بالآخر غلبہ انگیزی فوج کو حاصل ہوا۔ لال قلعے پر انگریزی فوج نے قبضہ کر کے مغل بادشاہوں کے دور کا ہلالی پرچم اتار کر یونین جیک لہرا دیا ۔اور بالآخر ۲۰ ستمبر ۱۸۵۷؁ء کو بہادر شاہ ظفر گرفتار ر لئے گئے۔ ان کے بیٹوں کو خونی دروازے کے سامنے گولیاں مار کر انگریز فوج نے ان کے سر قلم کرکے ان کے ۸۰ سالہ بوڑھے باپ بہادر شاہ ظفر کے سامنے تھال میں رکھ کر اوپر سے دستر خوان ڈال کر ان کے سامنے ناشتے میں پیش کیا ۔بہادر شاہ ظفر کے خاندان کے بقیہ ماندہ افراد کو شہر دلی سے رنگون کے قید خانے میں منتقل کر دیا گیا ۔جہاں انہوں نے زندگی کے بقیہ ایام انتہائی کس مپرسی میں گزارے ۔ ادھر شہر دلی سے قریب امبالا ،تھانیسر ،شاملی، مرادآباد، علی گڑھ وغیرہ پورے علاقے میں انتہائی خونریز جنگ جاری تھی۔ دلی کی شکست کے بعد ان سارے ہی علاقے کے مجاہدین کے حوصلے آہستہ آہستہ پست ہوتے گئے ۔عوام کے پاس ہتھیار پرانے انداز کے اور ان کی فوج بے ترتیب تھی ۔ جب کہ انگریز کے پاس جدید ترقی یافتہ ۔دور تک مار کرنے والے ہتھیار ۔اور ان کی فوج انتہائی منظم تھی ۔ جس کے نتیجے میں شہر دلی اور اس کے مضافات کی یہ خونریز جنگ جو تقریبا چار ماہ دس دن تک جاری رہی وہ بالآخر ناکامی پر ختم ہوگئی ۔اس کے بعد انگریزی درندوں نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے اور انسانیت کے خلاف جو ننگا ناچ ناچا ہے ۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ شہر دلی اور اس کے مضافات کے جانب جانے والے سارے راستوں پر پھانسی کے پھندے نصب کیے گئے تھے۔ اور مسلم قائدین وعلماء کرام کو پکڑ پکڑ کر ان پھانسی کے پھندوں پر ٹانگا جارہا تھا۔ جب پھانسی کے یہ پھندے تنگ پڑنے لگے تو اب طریقۂ کار یہ اپنایا گیا کہ کسی بھی شخص کو ہاتھی کی پیٹھ پر بیٹھال کر کسی پیڑ کی شاخ کے نیچے جاکر پھانسی کا پھندہ شاخ میں باندھ کر اس شخص کی گردن میں پھندہ پہنا کر ہاتھی کو آگے ہانک دیا جاتا۔ یہ لاش پیڑ کی شاخ میں جھول کر رہ جاتی ۔کوئی شخص اس کا کفن دفن کرنے والا نہ ہوتا ۔ مسلم قائدین کے ساتھ کھلواڑ کا ایک طریقہ یہ بھی اپنایا گیا تھا کہ ان کے ہاتھ پیر باند ھ کر توپ خانے کے منہ کے سامنے کھڑا کر کے توپ داغ دی جاتی ۔جسم کے پرخچے اڑ جاتے میلوں دور تک خون کی چھینٹے پھیل جاتیں۔سر کہیں گرتا ۔تو بقیہ اعضاء کہیں اور ۔ ظلم اور تشدد کا یہ عمل عوام سے زیادہ علما ء پر رواں رکھا گیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۵ہزار سے زائد علماء کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ہے ۔جو سب کے سب مسکراتے ہوئے اور دین کے دفاع کا تصور لیے ہوئے جذبۂ شہادت کے تصور سے بخوشی ان پھندوں پر چڑھ کر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرگئے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مولانا کفایت علی کافی ؔ کا بھی ہے ۔ جو مرادآباد اور اس کے قرب و جوار میں انگریز کے خلاف محاذ جنگ قائم کیے ہوئے تھے۔ ان کو بھی انگریز فوج نے گرفتار کر کے تختۂ دار پر چڑھایا ہے ۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ جس وقت مولانا کفایت علی کو انگریز فوج تختۂ دار کی جانب لے کر جا رہی تھی وہ اپنی زبان پر اپنی ایک تازہ نظم ترنم کے ساتھ جھوم جھوم کر پڑھ رہے تھے۔جس کے چند اشعار یہ ہیں ۔
کوئی گل باقی رہے گا ، نے چمن رہ جائے گا پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم سفیرو!باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی ہوشاک پر نازاں نہ ہو اس تن بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی ولیکن حشر تک نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
انگریزی ظلم و جور کا یہ سلسلہ ۱۸۵۷؁ء کی جنگ کی ناکامی کے بعد سے ۱۹۱۲؁ء تک یکساں طور پر جاری رہا ۔ کبھی کم کبھی زیادہ ۔جس کے ڈائریکٹ نشانہ مسلمان بنتے رہے۔ دیگر برادران وطن اکا دکا بنے ہوں تو الگ بات ہے ۔لیکن اصل نشانہ مسلمان اس لئے بنائے جارہے تھے کہ انگریز نے اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں سے لیا تھا ۔ اور اس کو اصل خطرہ ہم ہی سے تھا۔ دوسرے برادران وطن جو پہلے مسلم بادشاہوں کی رعایا ہوا کرتے تھے۔اب انگریز کی رعایا ہو گئے۔ اصل نقصان اور خسارہ تو ہمارا ہوا تھا۔حکومت ہماری گئی تھی ۔عزت نفس اور غیرت نفس ہماری تباہ ہوئی تھی ۔نیز ہم اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے عقیدے کے ساتھ اس راہ میں پیش آنے والی ہر تکلیف اور مصیبت کو عبادت سمجھ کر قبول کر رہے تھے ۔ جس کی ایک دو نہیں سیکنڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ دوسرے برادرانِ وطن جو اس جنگ میں گرچہ ہمارے ساتھ شامل تھے لیکن وہ اس جنگ کو مذہبی نقطۂ نظر سے ہرگز نہیں لڑ رہے تھے۔بلکہ ان کے لئے یہ جنگ ایک علاقائی جنگ کی حیثیت رکھتی تھی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *