’’ہم گولین تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘

اوآرایف کے سربراہ سدھیندر کلکرنی اور زاروے یونیورسٹی غازیانتپ کے پروفیسر ڈاکٹر انور عالم کا خطاب
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:(معیشت نیوز)’’ترکی میں فتح اللہ گولین کی تحریک پر جس طرح پابندی عائد کی گئی ہے نہ ہم صرف اس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ ہم گولین تحریک کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘ان خیالات کا اظہار آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے سربراہ سدھیندر کلکرنی نے ہندوستان میں گولین تحریک سے وابستہ احباب کی موجودگی میں ترکی سےملازمت چھوڑکر آئے زاروے یونیورسٹی غازیانتپ کے پروفیسر ڈاکٹر انور عالم کے سامنے کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’فتح اللہ گولین نہ صرف جمہوریت کے حامی ہیں بلکہ امن و انسانیت کے پیامبر ہیں لہذا ہندوستان میں جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ہم بھی ان کے ساتھ ہیں۔‘‘
آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کےپروگرام ہال میں ’The Coup, Gulen Movement and Future of Democracy in Turkey”پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر انور عالم نے کہا کہ ’’میںفتح اللہ گولین سے وابستہ زاروے یونیورسٹی غازیانتپ میںبطور پروفیسرملازمت کر رہا تھا لیکن راتوں رات کایا پلٹ گئی۔یونیورسٹی بند کر دی گئی اور مجھے ہندوستان واپس آنا پڑا۔‘‘ریاست بہارکےضلع گیا سے تعلق رکھنے والےپروفیسر انور عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’رجب طیب اردغان نے ترکی کو یرغمال بنالیا ہے۔راتوں رات فتح اللہ گولین کی تحریک پر جس طرح پابندی عائد کی گئی اور پانچ ہزار سے زائد تعلیمی ادارے جس طرح بند کئے گئے یہ ایک سوچی سمجھی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں حکومت کی شمولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’ناکام فوجی بغاوت کےبارےمیں ترکی کو پتہ ان مساجد سے چلا جہاں نصف گھنٹے کے اندر ہی اذانوں کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا۔آخر مسجدوں سےآذان دے کر عوام کو بیدار کرنے کی پلاننگ کہاں ہوئی؟ انور عالم نے کہا کہ ’’اب تک جتنے فوجی بغاوت ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں خواہ وہ ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت ہو یا پاکستان سمیت دیگر ممالک میں صرف یہی ایک بغاوت ایسی ہے جو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی۔کیا بغاوت کرنے والے اتنے نااہل تھے؟‘‘انہوں نے کہا کہ ’’گولین تحریک مکمل نیشنلزم کی تحریک ہے ،ان کے اندر ترکی قومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔اگر ان کا بس چلے تو وہ قرآن کی تلاوت بھی ترکی زبان میں ہی کریں ایسے موومنٹ کو کچلنا دراصل جمہوریت کا گلا گھونٹنا ہے۔‘‘
مختلف مثالوں کے حوالے سے پروفیسر انور عالم نے کہا کہ’’دراصل رجب طیب اردغان ’’رئیس‘‘بن کر تمام مسلمانوں کی قیادت کا خواب دیکھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ملک اور قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ملک میں اسلام کو کریمنلائز کیا جارہا ہے وہ ہرجگہ اسلام کی اجارہ داری چاہتے ہیں چونکہ انہیں فتح اللہ گولین کی تحریک سے خوف لاحق تھا کہ مستقبل میں کہیں یہ راہ کا روڑا نہ بن جائیں لہذاانہوں نے نہ صرف نیشنلزم کی تحریک کو نشانہ بنایا بلکہ وہ تمام اداروں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں جو کسی بھی طور پر گولین سے وابستہ ہیںآخر بیس یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے کیا معنی ہیں؟‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’گولین کسی خاص مسلک و مشرب کوپرموٹ کرنے والےنہیں ہیں نہ ہی کسی خاص مذہب کی اجارہ داری چاہتے ہیں بلکہ وہ تو اس فکر کے حامل ہیں کہ ہر مذہب میں پیغمبر آئے ہیں لہذا ہمیں سب کا احترام کرنا چاہئے۔ایک سیکولر کردار کے حامل کو دہشت گرد بناکر امریکہ سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں کہ ہندوستان سے ترکی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں جاری گولین تحریک پر پابندی عائد کی جائے ،آپ کا کیا کہنا ہے؟ پروفیسر انور عالم کہتے ہیں’’کسی کے مطالبے پر اگر کارووائی ہوتی رہی تو ہر ملک اپنے مخالفین کے بارے میں مطالبہ شروع کردےگا۔لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت اسے سنجیدگی سے نہیں لےگی۔‘‘