Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مختار عباس نقوی اور ظفر سریش والا میں سیاسی رسہ کشی

by | Sep 18, 2016

اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی مہاراشٹر کے سابق اقلیتی وزیر ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ(تصویر: معیشت)

اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی مہاراشٹر کے سابق اقلیتی وزیر ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ(تصویر: معیشت)

مرکزی وزیر نقوی کاامسال حج کی قیادت نہ کرنا جبکہ بیشتر معاملات میں ظفر سریش والا کی رسائی بھی شیعہ رہنما کی ناراضگی کا سبب بنی ہوئی ہے
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
نئی دہلی:(معیشت نیوز)ہندوستان سے ہر برس حج امور کی نگرانی اور خیر سگالی وفد کی قیادت عموماً مرکزی وزراء کرتے رہےہیں لیکن نریندر مودی کے دست راست ظفر سریش والا وزارت میں نہ رہتے ہوئے بھی خیر سگالی وفد کی قیادت کرکے کئی ایک کے کان کھڑے کرچکے ہیں۔خیر سگالی وفد کی قیادت نہ کرنا بلکہ شرکت سے بھی معذور رہنا اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختارعباس نقوی کو سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے۔ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ شیعہ رہنما نقوی یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ انہیں اس بار حج امور کی قیادت کا موقع ملے گا لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی دور اندیشی اور ایران سعودی عرب تنازع کے پیش نظر انہوں نے کسی شیعہ رہنما کو سعودی عرب خیر سگالی وفد میں بھیجنا مناسب نہ سمجھا اور فال نیک ظفر سریش والا کے نام نکلا۔
ذرائع کے مطابق مختار عباس نقوی کی گرفت اقلیتی امور کی وزارت پر ڈھیلی پڑتی جارہی ہے انہوں نے اب تک کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو خوش کر سکے۔نجمہ ہپت اللہ نے اقلیتوں کے لئے مختص رقم واپس کرکے جہاں مودی کی ناراضگی مول لی تھی وہیں مختار عباس نقوی آر ایس ایس کا چہیتا ہوتے ہوئے بھی اپنی کشتی کو منجدھار میں دیکھ رہے ہیںجس کا واضح ثبوت حج خیر سگالی وفد میںشامل نہ کیا جانا ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا حج خیر سگالی وفد کی قیادت کے دوران سعودی عرب میں پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جبکہ ساتھ میں سعودی عرب میںہندوستانی سفیراحمد جاوید کو بھی دیکھا جاسکتا ہے(تصویر کریڈٹ عرب نیوز)

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا حج خیر سگالی وفد کی قیادت کے دوران سعودی عرب میں پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جبکہ ساتھ میں سعودی عرب میںہندوستانی سفیراحمد جاوید کو بھی دیکھا جاسکتا ہے(تصویر کریڈٹ عرب نیوز)

ظفر سریش والا نے سعودی عرب میں پریس کانفرنس کرکے حج امور کو وزارت خارجہ سے وزارت اقلیتی امور میں منتقل کرنےکی جو مخالفت کی ہے وہ اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اقلیتوں میں دن بہ دن پائی جانے والی ناراضگی میں نقوی کے کردار کو بھی اہم سمجھا جارہا ہےجبکہ ظفر سریش والا مودی کی چھوی بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
مرکزی حج کمیٹی کی طرف سے فریضہ حج ادا کرنے والے حجاج بھی ظفر سریش والاکی خبر گیری سے خوش نظر آرہے ہیں اور یہی بات مختار عباس نقوی کو کھائے جارہی ہے حالانکہ ظفر سریش والا ان تمام ناراضگیوں سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں ۔معیشت ڈاٹ اِن سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر کہتے ہیں’’حج امور کو وازارت خارجہ سے اقلیتی امور میں منتقل کرنے کی سفارش من موہن سنگھ کی حکومت میں کی گئی تھی لیکن جب میںنے بذات خود پورے معاملے کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ اگر کچھ ایسا ہو ا تو اس سے صرف اور صرف حجاج کرام کو نقصان پہنچے گا۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کی مخالفت کی ہے اب اگر اس سے مختار عباس نقوی صاحب کو تکلیف پہنچی ہے تو مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘ سریش والا کہتے ہیں’’وزارت اقلیتی امور کے پاس کوئی انفراسٹرکچر نہیں ہے کیونکہ یہ صرف مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم اے آر انتولے کو خوش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔جبکہ وزارت خارجہ کے پاس ایسے افسران کی ٹیم ہے جو ہمہ وقت خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔امسال بھی ریاستی ومرکزی سطح کے ۶۴۰سرکاری افسران حجاج کی خدمت پر مامور تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے تمام ممالک کے بالمقابل ہندوستانی وفد زیادہ آرام سے تھا۔‘‘
ظفر کہتے ہیں ’’اقلیتی امور کی وزارت کا بجٹ من موہن سنگھ کی حکومت میں محض ۳۲ سو کروڑ تھا جسے نریندر مودی حکومت نے ۳۹سو کروڑ کیا ہے حالانکہ ملک کا بجٹ ۱۲لاکھ کروڑ ہے ۔ہمیں تو اس بجٹ سے استفادہ کرنا چاہئے جس سے کہ تمام لوگ مستفید ہو رہے ہیں ناکہ اقلیتی امور کے جھانسے میں آنا چاہئے‘‘۔نقوی کی ناراضگی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ظفر کہتے ہیں ’’مجھے کسی وزارت میں شامل نہیں ہونا ہے اور وہ بھی اقلیتی امور جیسی وزارت کو تو میں کسی لائق ہی نہیں سمجھتا لہذا نقوی صاحب کو میری ذات سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے‘‘۔
واضح رہے کہ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سے جب رابطہ کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فون کال ریسیو نہیں کیا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...