مسلم پرسنل لا ءدین و ایمان کا حصہ ، ہم کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہو سکتے

پٹنہ میں منعقدہ امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ میں کئی اہم فیصلوں کو منظوری
پٹنہ : (عادل فریدی) امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس آ ج مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء روز اتوار کو مرکزی دفتر امارت شرعیہ کے کانفرنس ہال میں امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر شریعت مد ظلہ نے اپنے کلیدی بیان میں فرمایا کہ ابھی سب سے اہم مسئلہ مسلم پرسنل لاء اور قانون شریعت کے تحفظ کا ہے ، حکومت اور عدالت کی نیت مسلم پرسنل لا کے سلسلہ میں صاف نہیں ہے ،یہ عدالت کانہایت نامناسب قدم ہے کہ ا س نے ایک ایسے معاملہ میں جس کا تعلق مسلمانوں کے مقدمہ سے نہیں تھا،نہ ا س میں مدعیہ مسلمان تھی نہ مدعا علیہ مسلمان لیکن پھر بھی عدالت نے اس میں مسلمان عورتوں پر ہونے والے مفروضہ ظلم کا شوشہ چھوڑ کر حکومت سے اس کا موقف معلوم کیا اور حکومت نے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے اپنے خفیہ اور نفرت انگیز ایجنڈہ کے تحت ایسے موقف کا اظہار کیا جو سراسر مسلمانوں کی پرسنل لا کے خلاف اور آئین میں ان کو دیے گئے حق کو سلب کرنے کے مرادف ہے ۔اور جس کو اس ملک کے مسلمان کسی صورت میں بھی قبول نہیں کر سکتے ۔ انہوںنے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ بابا صاحب امبیڈ کر نے کہاتھا کہ کوئی پاگل حکومت ہی ہوگی جو اس ملک میں یکساں سول کوڈ نافذکرنے کے بارے میں سوچے گی ، اور آج بی جے پی حکومت کی جو منشاء ہے اور جو طریقہ کار حکومت نے اپنا یا ہے ،اگر بابا صاحب امبیڈکر اس کو دیکھتے تو یقینا حکومت کے ایسے اقدام پر ان کی زبان سے ایسا ہی جملہ نکلتا۔ کیوں کہ اس ملک میں صرف مسلمانوں کا ہی پرسنل لا نہیں ہے بلکہ مختلف پرسنل لا موجود ہیں ، ٹرائبل کا الگ پرسنل لا ہے ، دلتوں کا الگ پرسنل لا ہے ،سکھوں ، پارسیوں ، جینیوں ، اور بدھوں اورناگاؤں کا الگ پرسنل لا ہے ، اور سب لوگ اپنے اپنے پرسنل لا، رسم و رواج اور کسٹم کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ امیر شریعت مدظلہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور میڈیا کے ذریعہ ایسی بات پھیلائی جا رہی ہے جس سے محسوس ہو تا ہے کہ ہر مسلمان ایک سے زیادہ شادی کرتا ہے اور ہر مسلمان اپنی بیویوں کو تین تین طلاق دیا کرتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے ،سینسس کی رپورٹ کے مطابق ایک سے زیادہ شادیوں اور طلاق کا تناسب مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں ہے ،بلکہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی اور طلاق کا تناسب سکھوں ، جینیوں ، عیسائیوں ، پارسیوں سے بھی کم ہے ۔ہمارا سارامعاملہ چاہے وہ ایک،دو،تین طلاق کاہو،ایک سے زائد شادی کا ہویاپھر خلع کا ہو اس کی بنیاد ہماری مذہبی کتاب اور شریعت میں موجو د ہے اور دستور ہند کی دفعہ ۲۵ کے تحت ہمیں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔ اس لیے مسلم پرسنل لا نے حکومت کے اس موقف کے خلاف آواز بلند کی ہے، لاء کمیشن کے گمراہ کن سوال نامہ کامتفقہ طور پر بائکاٹ کرنے کا فیصہ کیا ہے اور حکومت کے موقف کے خلافا ور مسلم پرسنل لا کی حمایت میں رائے شماری کے لیے دستخطی مہم چلایاہے ، سبھی لوگ اس تحریک میں شامل ہوں اور پوری قوت کے ساتھ اس کو کامیاب بنائیں ۔شرکاء میں سے تما م لوگوں نے بیک آواز حضرت امیر شریعت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تحریک کو مضبوطی کے ساتھ کامیاب بنانے کا عہد کیا ۔ حضرت امیر شریعت نے معاشرتی اصلاح کے سلسلہ میں امارت شرعیہ کی طرف سے شرع ہونے والی تحریک اصلاح معاشرہ و تحفظ شریعت کے زیر اہتما م معاشرتی اصلاح پر بھی توجہ دینے کی اپیل کی ۔ اس کے بعد ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی نے نظامت کی رپورٹ پیش کی ، جس میں انہوں نے اصلاح معاشرہ ، حالات حاضرہ،مسلمانوں کی تعلیمی و اقتصادی صورت حال، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مسلکی کشمکش اورمارت شرعیہ کے جملہ شعبہ جات کی کارکردگی،اور امارت شرعیہ کی طرف سے انجام دیے گئے ریلیف وغیرہ کے کاموں پر جامع انداز میں روشنی ڈالی ۔ رپورٹ پر تمام لوگوںنے اطمینان کا اظہار کیا اور اور اس کی تائید و تحسین کی ۔جناب ناظم صاحب نے مسلم پرسنل لا کی طرف سے جاری دستخطی مہم اور امارت شرعیہ کے زیر اہتمام شروع ہونے والی تحریک اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں اب تک کی عملی پیش رفت کا بھی تذکرہ کیااور اس تحریک کو موثر انداز میں کامیاب بنانے کی گذارش کی ۔ وزیر برائے اقلیتی امور حکومت بہار جناب پروفیسر عبد الغفور نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس بات پر اطمینان ہے کہ ہمارے ملی قائدین با وقار ، با وزن اور اہل بصیرت ہیں، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تو انہوں نے صرف ایک ہی مشترکہ بیٹھک کی تھی کہ حکومت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے ملی و دینی قائدین سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بھی نشست منعقد کریں اور ان کے سامنے بھی بی جے پی کے نفرت انگیز موقف کو واضح کریں اور بتائیں کہ بی جے پی کی حکومت مسلمانوںکے خلاف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض ایسی خواتین ہیں جو میڈیا کے ذریعہ مسلم پرسنل لا کے خلاف مسلمان عورتوں کا ذہن بنا رہی ہیں ، اس لیے ایسی مسلمان عالمات کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جو اسلامی قانون کی اچھی واقفیت رکھتی ہوں اور مسلم پرسنل لا اور اسلامی قانون کے مسئلہ کی صحیح ترجمانی کر سکیں ۔ اس کے علاوہ اتحاد یکجہتی کی فضا کو عام کرنے کی ضرورت ہے ، سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے مسلم نوجوانوں کو بچنے کی بھی دعوت دینی چاہئے ۔ سمستی پور سے ممبر اسمبلی اختر الاسلام شاہین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امیر شریعت نے جن باتوں کو رکھا وہ قابل تعریف ہے ، آج بہت طریقہ سے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، سیاسی مفاد کی خاطر اکثریتی فرقہ کو اقلیت کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ، سوشل میڈیا کے ذریعہ نوجوان نسل کو مسلمانوں کے خلاف متنفر کرنے کی کوشش کیجا رہی ہے ، ان چیزوںکی طرف بھی توجہ کرنے کی ضروت ہے۔سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے ملک میں خانہ جنگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔اس لیے ایسے ماحول کے خاتمے کے لیے ہم امارت شرعیہ کی تحریک اصلاح معاشرہ کا خیر مقد م کرتے ہیں ۔جناب حسن احمد قادری ناظم جمعیۃ علماء بہار نے کہا کہ امیر شریعت نے بر وقت آواز بلند کی ہے اور پوری امت کو بیدار کیا ہے ، یہ بات حقیقت ہے کہ علماء ہی اصل قیادت کے حقدار ہیں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اتنا باوزن اور با وقار ادارہ ہے کہ اس سے پہلے بھی حکومت کو اس کے آگے جھکنا پڑا ہے اور یہ حکومت بھی جھکے گی ۔اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر اور قائدین کو لمبی عمر دے کہ ان کی قیادت میں ملت کے تحفظ کا کام بخوبی ہو تا رہے۔جناب مولانا نذر الحفیظ ندوی استاذ ندوۃ العلماء لکھنؤ نے کہا کہ میں حکومت کو احساس دلانا چاہتا ہوں کہ اس ملک کے مسلمان بہت حساس ہیں اور وہ شریعت میں کسی بھی صورت میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ۔ مولانا شکیل احمد قاسمی امام و خطیب شاہ گدی مسجد نے کہا کہ امارت شرعیہ نے اصلاح معاشرہ کی جو تحریک چلائی ہے وہ قابل ستائش ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت ہے کہ برادران وطن کی طرف بھی اصلاح معاشرہ کی اس تحریک میں توجہ دی جائے اور ان تک اسلام کی صحیح تعلیم پہونچائی جائے ، انہوںنے دینی مدارس میں عصری تعلیم کے معیار کو بلند کرنے اور عصری اداروں میں دینی تعلیم اور اخلاقیات کے درس کو شامل کرنے کا بھی مشورہ دیا۔ جناب جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ حضرت امیر شریعت کی نظر ہندوستان کے آئین ، ہندوستانی عدالتوں اور اسلامی قانون کے ساتھ ساتھ ملکی قانون پر بھی بہت گہری ہے ، انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا نے جن امور کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے ، اس میں پوری ایمانداری کے ساتھ ہم سب کو شریک ہونا چاہئے۔دار العلوم وقف دیوبند کے استاذ جناب مفتی شمشاد صاحب نے فرمایا کہ ہمارے درمیان ابھی حالات بہت نازک ہیں ،قانون شریعت میں تبدیلی اور ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے ، لیکن اس ملک کا مسلمان کبھی ایسا نہیں ہو نے دے گا اور جب تک مسلمان زندہ ہیں اسلامی تشخص اور مسلم پرسنل لا کے ساتھ زندہ رہیں گے ۔ مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے لیے مسلمان ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ۔ پروفیسر یسین صاحب رانچی ،جھارکھنڈ نے کہا کہ دعوت و اصلاح کے کام کو مسلمانوں اورغیر مسلموں دونوں کے درمیان کرنا چاہئے ۔مولانا عبد الحفیظ صاحب کٹک ، اڑیسہ نے کہا کہ اڑیسہ کے تمام مسلمان حضرت امیر شریعت اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور ہر آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہیں ۔ مولانا ابو طالب رحمانی صاحب کولکاتا ، مغربی بنگال نے کہا کہ حضرت امیر شریعت مد ظلہ نے امارت شرعیہ کی امارت سنبھالنے کے بعد سے مختصر مدت میں جو کارنامہ انجام دیا ہے اس سے ہم سب کا حوصلہ دو بالا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علما و ائمہ کو ملکی قوانین اور عصری تقاضوں سے پوری طرح واقف کرانے کے لیے ورکشاپ کرایا جانا مفید رہے گا ۔ شرکاء کے اتفاق سے اس اجلاس میں مندرجہ ذیل تجاویز پاس ہوئیں ۔ تجویز بابت مسلم پرسنل لا :۱۔ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس زور دے کر اعلان کرتا ہے کہ مسلم پرسنل لا ہمارے دین و ایمان کا لازمی حصہ ہے ، اور ہم اس سے کسی قیمت پر دستبردار نہیں ہو سکتے ہیں ، اس لیے حکومت اور لا کمیشن کی جانب سے ہر ایسی تجویز و تحریک کو رد کرتے ہیں ، جس سے مسلم پرسنل لا پر آنچ آتی ہو اور جس کے نتیجے میں یونیفارم سول کوڈ کی راہ ہموار ہوتی ہو۔اس معاملہ میں ہم سب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں، بورڈ کی طرف سے جو احکام و ہدایات موصول ہو ں گی اس کو رو بہ عمل لانے کے لیے ہم سب ہر طرح تیار ہیں ۔ دستخطی مہم کو کامیاب کرنے کے لیے جد و جہد کا آغاز کر دیا گیاہے ، اور جلد ہی امارت شرعیہ کے توسط سے دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو وقت مقررہ تک ارسال کر دیا جا ئے گا ، پھر وہاں سے ویمنس کمیشن اورلا کمیشن کو اسکین کر کے ای میل کے ذریعہ بھیجا جا ئے گا ۔۔ لا کمیشن کی جانب سے جو سوالنامہ جاری کیا گیا ہے ، ہم اسے پورے طور پر رد کرتے ہیں۔تجویز بابت فرقہ وارانہ صورت حال :۲۔ امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ اس وقت ملک میں ایک خاص طبقہ کی طرف سے نفرت اور عدم رواداری کی فضا پیدا کی جا رہی ہے، پورے ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگائی جا رہی ہے ، ان لوگوںکی کوشش یہ ہے کہ اس ملک کی جو سیکولر شبیہ ہے اس کو تار تار کر کے ملک کو ایک غیر سیکولر اور فاشسٹ ملک بنا دیا جائے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ انتہائی حکمت عملی کے ساتھ ان حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جا ئے، ملک میں ہندو مسلم اتحاد و قومی یکجہتی کی وہی فضا پیدا کی جائے جو جنگ آزادی کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں نے پیدا کی تھی تا کہ فرقہ پرستوں کے ایجنڈے کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس سلسلہ میں حالیہ دنوں میں دسہرہ کے موقع پر مختلف شہروں میں جو فساد کی فضا بنی ہے ، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متاثرین کو مناسب معاوضہ ادا کریں اور قصور واروںکو سزا دی جا ئے ۔ تجویز بابت تعلیم :۳۔ مجلس شوریٰ کے اس اجلاس کا یہ احساس ہے کہ مسلمانوں کے لیے تعلیم کا مسئلہ کافی اہمیت کا حامل ہے، بنیادی دینی تعلیم اور معیاری دینی و عصری تعلیم کے میدانوں میںطلبہ آگے بڑھ رہے ہیں ،مگر اس پیش رفت کواور تیز کرنے کی ضرورت ہے، اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ تعلیم کی تحریک کوموثر بنانے کی فکر کی جائے ، دینی مکاتب کے قیام ، مدارس کے استحکام اور اعلیٰ و معیاری تعلیم سے اپنے لڑ کے لڑکیوں کو آراستہ کرنے کے سلسلہ میں حوصلہ مندانہ اقدام کیا جائے ، اس بات کی کوشش کی جائے کہ تعلیم کے بارے میں شعوری بیداری پیدا ہو ۔تجویز بابت دہشت گردی :۳۔ امار ت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا یہ احساس ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے ، اس کی وجہ سے پوری دنیا میں بے قصور اور معصوم لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اس لیے آج کا یہ اجلاس دہشت گردی خواہ کسی بھی صورت میں اور کسی کی طرف سے بھی ہو پوری قوت کے ساتھ مذمت کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب یا مذہب کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ایسے لوگ کسی بھی قسم کے رحم کے مستحق نہیں ہیں ۔ اور یہ اجلاس شرکاء سے اپیل کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی عالمی مہم کی حوصلہ افزائی کریں ۔ ۴۔ساتھ ہی ہم دہشت گردی کے نام پر بے گناہ لوگوں کی گرفتاری اور ان کو دی جانے والی اذیت کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بے گناہوں کو فوراً رہا کرے اور ان کو جس ذہنی ، جسمانی اور معاشی پریشانیوںسے گذرنا پڑا اس کے لیے مناسب معاوضہ ادا کرے۔تجویز بابت شام و فلسطین :۵۔امارت شرعیہ کا یہ اجلاس فلسطین اور شام میں جاری طویل جنگ کی صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اپنے قدیم موقف کو دہراتے ہوئے وہاں ہورہے مظالم کی مذمت کرتا ہے اور بشار الاسد اور اس کی حامیوں کے بے قصور عوام پر کیے جارہے ظالمانہ حملوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے ، ساتھ ہی عالمی طاقتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حملہ آوروں کی مخالفت کرے اور مظلوموں کی حمایت کرے ۔ ساتھ یہ اجلاس ہندوستان کی حکومت سے بھی امید کرتا ہے کہ وہ مظلوموںاور بے قصوروں پر ظلم کرنے والوں سے دوستانہ سفارتی تعلقات قائم نہیں رکھیں گے ۔ ہم اقوام متحدہ کے ذریعہ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کی ملکیت قرار دینے کے فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ساتھ ہی اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت اور فلسطینیوں کی ان کے حقوق کی بازیابی کے سلسلہ میں حمایت کرے۔ تجویز بابت اصلاح معاشرہ :۶۔ امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس امارت شرعیہ کی جانب سے ایک ماہ تک چلائی جانے والی تحریک اصلاح معاشرہ اور تحفظ شریعت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہم سب اس تحریک کے ساتھ ہیں ، اس سلسلہ میں امارت شرعیہ نے جو خاکہ تیار کیا ہے ، اس کے مطابق ضلع بلکہ بلاک کی سطح پر کوشش کریںگے کہ ان خاکوں کے مطابق اپنے اپنے علاقے میں کام کریں ۔اس اجلاس کا آغا زمولانا قاری مجیب الرحمن قاسمی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، اجلاس کی نظامت کے فرائض مولانا محمد سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ نے انجام دیے ، مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے تجویز تعزیت اور مختلف شعبہ جات امارت شرعیہ کی کاکردگی رپورٹ پڑھ کر سنائی ، مولانا سہیل احمد ندوی نے امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ اور اسپتال کی رپورٹ پیش کی، جناب سمیع الحق صاحب نے گذشتہ سال کی آمد و خرچ کا گوشوارہ پیش کیا اور آئندہ سال ۱۴۳۸ھ کے لیے پانچ کروڑ بائیس لاکھ چالیس ہزار روپئے کا بجٹ پیش کیا۔ اس اجلاس میں مندرجہ ذیل لوگوں نے بھی اظہار خیال فرمایا ،مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی، انوار عالم ایڈووکیٹ،عبداللطیف انجینیر دھنباد، مفتی نعمت اللہ کھگڑیا، جمعیۃ علماء سورت کے ذمہ دارجناب مولانا مفتی ارشد میر ،مولانا محمد عالم قاسمی امام دریا پور مسجد، مولانا خالد نیموی بیگو سرائے،حاجی ظفیر احمد کٹیہار، ، ماسٹر زاہدصاحب کشن گنج، ڈاکٹر اقبال صاحب رانچی، جناب عرفان صاحب راور کیلا ۔ اجلاس میں جناب فیروز صدیقی ، جناب مشرف علی صاحب پھلواری شریف، نجم الحسن نجمی ، قاری یعقوب فریدی مہتمم مدرسہ دعوۃ الحق ، ماسٹر عبد الجبار صاحب،مولانا حنیف صاحب مدھے پورہ، مسلم صاحب کشن گنج ،مطیع الرحمن صاحب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ، مولانا قاسم صاحب مظفر پوری قاضی شر یعت، شفیع مشہدی چیر مین بہار اردو مشاورتی بورڈ، عبد القیوم انصاری چیرمین انجمن ترقی اردو بہار، ڈاکٹر جمال اشرف، جناب نقیب احمد انصاری ، جناب ڈاکٹر وسیم صاحب پورنیہ ،خورشید انور عارفی ، راغب احسن ایڈووکیٹ ، مولانا مشہود احمد ندوی پرسنپل شمس الہدیٰ ، محمد مظاہر ، مفتی نذر توحید صاحب چترا ، جناب عزیر صاحب رانچی ، مولانا عبد المتین ارریہ کے علاوہ بہار ، اڑیسہ ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے ارکان شوریٰ اور مدعوئین کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔اس موقع پر ڈاکٹر عبد الغفور صاحب وزیر اقلیتی فلاح کی کتاب’’قاضی عبد الستار بحیثیت ناول نگار‘‘ کا اجرا ء بھی عمل میں آیا ۔ اخیر میں حضرت امیر شریعت کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا ۔