منبر سے صدائیں دینے والے ہارون موزہ والا نے خاموشی اختیار کرلی

ہارون موزہ ولا معیشت کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے (تصویر معیشت)
ہارون موزہ ولا معیشت کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے (تصویر معیشت)

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن کے انتقال پر اہل ممبئی سوگوار،تمام حلقوں نے ملت کا عظیم نقصان قرار دیا
دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:(معیشت نیوز) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بانی رکن خیر امت ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری ہارون موزہ والا کا آج دوپہر ۱۲بجے انتقال ہوگیا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔نماز جنازہ عشاء بعد ادا کی جائے گی جب کہ تدفین بڑا قبرستان مرین لائنس میں رات ۹ بجے ہوگی۔ہارون موزہ والا ممبئی کی نہ صرف سماجی و ملی شخصیت تھے بلکہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ۔بھنڈی بازار کے مغل مسجد سے متصل خیر امٹ ٹرسٹ میں ان کی موجودگی سیکڑوں خاندانوں کے مسائل کے حل کا سبب بنتی رہی ہے۔صبح کے دس بجے سے شام کے پانچ بجے تک جہاں پریشان حال افراد اپنا اپنا دکھڑا لیے حاضر ہوتے تھے وہیں شام کے پانچ بجے کے بعد دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والے ذکر و فکر کی محفل سجاتے تھے۔

ہارون موزہ والا معیشت کے پروگرام میں دانش ریاض سے میمنٹو لیتے ہوئے(فوٹو :معیشت)
ہارون موزہ والا معیشت کے پروگرام میں دانش ریاض سے میمنٹو لیتے ہوئے(فوٹو :معیشت)

ہارون موزہ والا نےامت کی فکر رہنمائی کے لیے مختلف اخبارات میں ’’صدائے منبر‘‘کے عنوان سے اصلاحی کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ہندوستان کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتا تھا۔مرحوم راقم سے گفتگو کے دوران اکثر کہا کرتے تھےکہ’’ صدائے منبر‘‘میں جو باتیں میں تحریر کر رہا ہوں میری خواہش ہے کہ اسے خطبات جمعہ میں دوران تقریر ہمارے ائمہ استعمال کریں اور امت کی اصلاح کا کام کریں،کیونکہ میں نے اپنی تحریروں میں مسلک و مشرب کے علی الرغم ان باتوں کا تذکرہ کیا ہے جو روزانہ کے عمومی مسائل ہیں اور ہر مسلم گھر جس کا شکار ہورہاہے ،میری تحریر مشاہدات پر مبنی ایسے حل پیش کرتی ہےکہ جس سے کئی گھر سدھر چکے ہیں‘‘۔آل انڈیا ملی کونسل کے ذمہ دار مولانا محمود دریابادی کہتے ہیں’’ہارون صاحب کی شخصیت مختلف جہتوں کا احاطہ کرتی ہے نرم گفتگو،نرم مزاج لیکن اصولوں کے معاملے میں بڑے سخت تھے۔مذہبی ،سماجی دینی و ملّی لوگوں میں وہ صف اول میں شامل تھے۔۱۹۷۲میں جب یوسف پٹیل صاحب وغیرہ نے ممبئی میںآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کیا توبانیوں میں آپ بھی شامل تھے۔بیماروں ،طالب علموں،غریبوں کے ساتھ آپ کے معاملات صدقہ جاریہ ہیں اللہ رب العزت انہیں اس کا اجر عطا کرے گا۔‘‘
ممبئی کی سماجی شخصیت خیر امت ٹرسٹ کے ذمہ دار علی ایم شمسی نے تعزیتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہارون بھائی سے میرا رشتہ ۳۵چالیس سال پرانا ہے ۔دینی و ملی کاموں میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نےان سے ایسے کام لیےہیں جو امت کی بھلائی کا سبب بنا ہے خیر امت ٹرسٹ کے قیام کے بعد انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی کے لیے وقف کردی تھی اب ان کا نعم البدل ملنا مشکل ہے۔اللہ کرے کہ ان کے وارث اس کام کو سمجھیں ،میں پوری ملت کے ساتھ ان کی تعزیت میں شریک ہوں‘‘۔خیر امت ٹرسٹ کے ممبر معراج صدیقی کہتے ہیں’’میرا ۲۵ تیس سال کا رشتہ ہارون بھائی کے ساتھ رہا ہے۔جب سے ان کی طبیعت خراب تھی اسی وقت سے تشویش لاحق تھی کیونکہ یہ ملت کے ساتھ خیر امت ٹرسٹ کا سب سے بڑا نقصان ہے اب ان جیسی شخصیت کا ملنا انتہائی مشکل ہے۔انہوں نے صرف اصلاح معاشرہ کا ہی کام نہیں کیا بلکہ غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام بھی کرتے تھے اور بڑی تعداد میں دعاۃ کی ٹیم تیار کی تھی۔تعلیمی میدان میں ان کے کام کوطویل مدت تک یاد کیا جائے گا۔‘‘
ہارون موزہ والا کے رشتہ دار ڈاکٹر خلیل میمن کہتے ہیں’’ہارون صاحب کی شخصیت ہندوستان بھر میں محتاج تعارف نہیں انہوں نے جو کام کیا ہے اللہ اس کے بدلے ان کی مغفرت کرے۔‘‘ روزنامہ صحافت کے ایڈیٹر جاویدجمال الدین کہتے ہیں’’آج ہی میں نے صحافت میںمرحوم عبدالستار یوسف شیخ صاحب کے بارے میں لکھے مضمون میں ان کا ذکرکیاہے-میمن رہنماءمرحوم یوسف پٹیل بابائے قوم کہلائے جاتے تھےاورہارون صاحب ان کےدست راست تھے-پہلے محمدعلی روڈپر میمن کیمونٹی کے ایک ٹرسٹ میں آدم نور کے ساتھ بیٹھتے تھے پھر امام باڑہ میں خیرامت ٹرسٹ کی باگ ڈور سنبھال لی -لڑکیوں کے مدرسہ کے روح رواں رہے-پٹیل ہائی اسکول ممبرا سے بھی وابستہ رہے-شاید 80کے آس پاس تھے لیکن چاک وچوبنداورتندرست، اتنی عمر کے باوجودامت کی تعلیمی، سماجی مذہبی اورطبّی خدمات کرتے رہے-جتنا ہوسکاکردیتے ورنہ راستے ہموار کردیتے اور دوسرے اداروں تک جانے کامشورہ دیتے اور ہوسکتا تو سفارشی مکتوب بھی سونپ دیتے-مسلم محلوں میں کبھی کبھی پیدل ہی نظر آئے-نصیحت آموز مضامین لکھتے اور کئی اخبارات میں شائع ہوتے رہے اورپسند بھی آئے-اللہ تعالی جواررحمت میں جگہ عطافرمائے:(آمین)
سینئر فوٹو جرنلسٹ سنجے سولنکی کہتے ہیں’’ہارون صاحب بڑے ’’مہان آدمی‘‘ تھے ،موت تو ہر کسی کو آنی ہے لیکن ان کی موت چلتے پھرتے ہوئی ہے جسے ’’سوکھد موت‘‘کہتے ہیں یہ انہیں لوگوں کو ملتا ہے جو مہان ہوتے ہیں۔میں نے انہیں جس طرح دیکھا ہے تو یہی محسوس ہوا ہے کہ ان کی ضرورت ہر کسی کو تھی،بھگوان ان کی آتما کو شانتی دے‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *