نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أما بعد!
۱۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی امت بنایا ہے، جو اس کی اتاری ہوئی کتاب کی حامل ہے اور جس کو خیر امت کا لقب دیا گیا ہے؛ اس لئے شریعت الٰہی کی مکمل اطاعت اور اس کی حفاظت ہمارا بنیادی فریضہ ہے،ہمیں شریعت جان و مال، عزت و آبرو اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے، اگر ہمارا دل اس جذبہ سے خالی ہو تو ہمارا ایمان نامکمل ہے، مسلمانوں کو جیسے اپنی نماز، اپنی مسجدیں اور عبادت کے طور طریقے عزیز ہیں، اسی طرح جو بات بھی اللہ کی کتاب اور پیغمبر اسلام کی سنت سے ثابت ہو، وہ اسے عزیز ہے، اس لئے موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ اور بالخصوص خواتین امت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ شریعت الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے، ہمیں ہرگزبہکانے والوں کے بہکاوے اور غلط فہمی پیدا کرنے والوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
ہمارا یقین ہونا چاہئے کہ اللہ نے ہمیں جس دین سے نوازا ہے، اس سے نہ صرف ہماری آخرت کی کامیابی متعلق ہے؛ بلکہ اسی میں ہماری دنیا کی فلاح و کامرانی بھی رکھی گئی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی شریعت پوری طرح انسانی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے، ایک مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام فراہم کرتی ہے جو کمزوروں کی رعایت، شرم و حیا، عفت و پاکدامنی کی بلند اقدار اور ایثار و انصاف پر مبنی ہے، اس نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں، ان کی صنفی خصوصیات کا پورا تحفظ کیا ہے اور انہیں کسب معاش کی ذمہ داریوں سے فارغ رکھا ہے، مشرق سے لے کر مغرب تک کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس کے برعکس مغر بی تہذیب نے انہیں سامانِ تجارت اور آزادی کے نام پر سماج کے ظالم مردوں کی ہوس کا غلام بنادیا ہے، اس لئے خواتین اسلام کو صاف طور پر کہنا چاہئے کہ ہم اللہ کی شریعت پر مطمئن ہیں، خدا کا قانون ہمارے لئے سایہ رحمت ہے اور ہمیں اس کے مقابلہ میں کسی اور قانون کی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ قانون شریعت کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم خود شریعت پر عمل پیرا ہوں، ہماری زندگی اللہ کے حکم کے مطابق بسر ہو، ہم ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں، اگرچہ مسلمانوں میں طلاق کے واقعات بمقابلہ دوسری قوموں کے کم ہیں۔ لیکن جو کچھ واقعات پیش آرہے ہیں، وہ بھی نہ صرف شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں، بلکہ اس طرح دوسروں کو ہمارے دین اور ہماری شریعت پر زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے، ان ہی مسائل میں تین طلاق کا مسئلہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن مجید سے کھلواڑ قرار دیا ہے؛ اس لئے ہر فرد امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے اور سماج میں شعور پیدا کرے؛ تاکہ طلاق کے بے جا استعمال کا سدباب ہو، شریعت نے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی ترکہ کا حقدار قرار دیا ہے، دنیا کی معلوم تاریخ میں اسلام پہلا مذہب ہے، جس میں عورتوں کو حق وراثت عطا کیا گیا ہے؛ لیکن افسوس کہ ملک کے اکثریتی سماج سے متاثر ہوکر بہت سے مسلمان بھی اس حق کی ادائیگی میں غفلت سے کام لیتے ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ یہ گناہ، حق تلفی اور ظلم ہے۔
۳۔ کومن سول کوڈ مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے، مسلمانوں نے اس ملک کے لئے جو قربانیاں دی ہیں، وہ صرف اس لئے نہیں کہ اس ملک میں رہنے کے لئے چندگز زمین حاصل ہو جائے اور ان کے خورد و نوش کا انتظام ہوجائے، بلکہ انہوں نے اپنے دینی تشخص اور تہذیبی شناخت کے ساتھ اس ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ نہ صرف مسلمانوں کا مطالبہ ہے؛ بلکہ یہ ملک میں بسنے والی دوسری اقلیتوںاور آدی واسیوں کا بھی مطالبہ ہے، ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر تہذیبی ملک میں یکساں خاندانی قوانین قابل عمل نہیں ہیں، اگر بداندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے ایسا کوئی قانون مسلط کرنے کی کوشش کی تو مختلف طبقات میں محرومی کا احساس پیدا ہوگا، حب الوطنی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور یہ ملک کے امن و امان کے لئے خطرناک ہوگا، اس لئے نہ صرف مسلمان ہونے کی حیثیت سے؛ بلکہ ایک محب وطن شہری ہونے کے اعتبار سے بھی ہم اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کو دستور ہند کے مطابق اپنے تشخصات کے ساتھ رہنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور ان پر زبردستی کوئی قانون مسلط نہیں کیا جائے۔
۴۔ یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومت ہند کی طرف سے داخل کئے جانے والے حلف نامہ اور لاء کمیشن کی طرف سے کومن سول کوڈ کے بارے میں جاری کئے جانے والے سوال نامہ کے پس منظر میں مسلمانوں نے زبردست اتحاد، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا ثبوت دیا ہے، اور مسلک و مشرب اور تنظیمی و جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر پوری ملت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے، فرقہ پرست طاقتوں نے خاص طور پر مسلم پرسنل لا کے تحت آنے والے ایک ایسے مسئلہ کو اٹھایا ہے کہ جس کا مقصد مسلکی اختلاف کو ہوا دینا اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا تھا، لیکن مسلمانوں کی مذہبی اور ملی قیادت لائق تحسین ہے کہ اس نے دشمنان اسلام کے اس خواب کو چکنا چور کردیا، لہٰذا پوری ملت کا فریضہ ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کی اس فضاء کو قائم رکھے اور ہرگز کسی ایسی سازش کا شکار نہ ہو جو ہماری صفوں میں بکھرائو پیدا کردے۔
۵۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ لڑائی اکثریتی فرقہ یا کسی خاص مذہب پر یقین رکھنے والوں کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ان مٹھی بھر فرقہ پرستوں اور فاشست طاقتوں کے خلاف ہے، جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنے اور اس کی جمہوری قدروں کو پامال کرنے پر تلی ہوئی ہے، اوراِس لئے جو لوگ اس ملک سے محبت رکھتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ وطن عزیز امن و آشتی کا گہوارہ ہو اور کثرت میں وحدت کے اصول پر کاربند رہے، بورڈ ان تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دستور میں دی گئی ضمانت کے مطابق مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ساتھ دیں۔
۶۔ ملک اس وقت جس صورت حال سے گزررہا ہے، اس میں ہوسکتا ہے کہ بورڈ کو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے بعض فیصلے کرنے پڑیں، تو جیسے اس وقت دستخطی مہم میں تمام مسلمانان ہند نے بورڈ کی آواز پر لبیک کہا ہے، امید ہے کہ آپ مستقبل میں بھی اسی طرح بورڈ کے فیصلوں پر عمل کرنے میں اتحاد اور یک جہتی کا ثبوت دیںگے اور اس بات کا بھی خیال رکھیں گے کہ آپ کے لئے جو حدیں مقرر کی جائیں، ان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہی اپنے جذبات کا اظہار کیا جائے اور اشتعال سے بچتے ہوئے جمہوری طریقہ پر اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا جائے۔(مؤرخہ۲۰؍ نومبر ۲۰۱۶ء)
٭٭٭