کالے دھن کے ساتھ پھنستے جا رہے ہیں بی جے پی لیڈر واسوانی

سنیل واسوانی کا گھر جہاں انکم ٹیکس کی چھاپہ ماری ہوئی ( تصویر بہ شکریہ انڈین ایکسپریس)
سنیل واسوانی کا گھر جہاں انکم ٹیکس کی چھاپہ ماری ہوئی ( تصویر بہ شکریہ انڈین ایکسپریس)

بھوپال (معیشت نیوز) دوسروں پر کالا دھن رکھنے کا الزام لگانے والی بی جے پی اب اپنے پارٹی عہدیداروں کے کالے دھن سے شرمسار ہوتی نظر آرہی ہے۔مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں بی جے پی لیڈر سشیل واسوانی کے ٹھکانوں پر انکم ٹیکس محکمہ کے چھاپے کی کارروائی تیسرے دن بھی جاری ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس کی اب تک کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ سشیل واسوانی کے بیراگڑھ واقع مہانگر کوآپریٹیو بینک میں نوٹ بندی کے بعد پانچ دنوں میں 100 کھاتے کھولے گئے۔ ان میں تقریبا دو درجن بینک اکاؤنٹ ایسے ہیں، جن میں ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم جمع کی گئی ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد بڑے پیمانے پر بینک کے ذریعے کالے دھن کو سفید کیا گیا ہے۔ تحقیقات میں شامل افسر یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بینک کے ذریعے 500 اور 1000 روپے کے کتنے پرانے نوٹ ایکسچینج کئے گئے۔ دراصل کوآپریٹیو بینکوں کے ذریعے 10 سے 15 نومبر کے درمیان پرانے نوٹ بدلے جا رہے تھے۔ اس کے بعد ریزرو بینک نے شکایتیں ملنے پر کوآپریٹیو بینکوں سے نوٹ تبدیل کرنے پر روک لگا دی تھی۔

بی جے پی لیڈر سنیل واسوانی
بی جے پی لیڈر سنیل واسوانی

واضح رہے کہ سشیل واسوانی مدھیہ پردیش راجیہ سہکاری آواس سنگھ اور مہا نگر کو آپرییٹو بینک کے چیرمین رہ چکے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ کرن مہا نگر کو آپریٹیو بینک کی موجودہ چیرمین ہیں۔بینک کے ڈائرکٹروں میں واسوانی کے اثر والے ڈائرکٹرس کی بڑی تعداد ہے۔واسوانی شہر میں تین ہوٹل کے مالک ہیں،یہی وجہ ہے کہ بیراگڑھ علاقے میں واقع رہائش کے علاوہ ہوٹل اور مہانگر کوآپریٹیو بینک پر ایک ساتھ منگل کی صبح چھاپہ ماری کی گئی تھی۔

بی جے پی لیڈر کے ان واقعات کی وجہ سے  پارٹی کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچتا جا رہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی کالے دھن کی لڑائی متاثر ہو رہی ہے ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن جو پہلے ہی یہ کہتا رہا ہے کہ نوٹ بندی سے قبل ہی بی جے پی لیڈران کو ان کی خبر ہوگئی تھی وہ ان واقعات کو بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی لیڈران پڑے پیمانےاس میں شامل ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *