بچوں کا میلہ ہے بھیونڈی کا اردو کتاب میلہ

علمی و ادبی کتابیں فروخت نہ ہونے سے بیرون ممبئی سے آئے ناشرین پریشان،میلے میں بچوں کا رنگا رنگ پروگرام بھی موضوع بحث
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
بھیونڈی(معیشت نیوز)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام کوکن ایجوکیشن سوسائٹی بھیونڈی کے اشتراک سے رئیس ہائی اسکول میدان میں ۱۷دسمبر ۲۰۱۶ سے شروع ہوا اردو کتاب میلہ دن گذرتے ہی ناشران و تاجرانِ کتب کے لئے مایوسیوں کا پیغام لا رہا ہے۔پورے ملک سے تشریف لائے بڑے بڑے ناشرین اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ صبح سے لے کر شام تک یہاں بچوں اور عورتوں کی تو بھیڑ رہتی ہے لیکن علمی و ادبی کتابوں کے خریدار ناپید نظر آتے ہیں۔
پرانی دہلی سے تشریف لائے نیو کریسینٹ پبلیشنگ کمپنی کے منیجر انور رشید کہتے ہیں’’اس بار قومی کونسل کا اردوکتاب میلہ دراصل ’’بچوں کامیلہ‘‘ہے جس میں قرب و جوار کے بچےاور بچیاں بڑی تعداد میں شریک ہو رہی ہیں ۔بچے اور بچیوں کے ساتھ ان کی مائیں بھی ہیں جبکہ جو بچے ڈائرکٹ اسکول سے آرہے ہیں وہ اپنے اساتذہ یا استانیوں کے ساتھ ہیںلہذا جہاں بچوں کی کتابیں ہیں وہاں بھیڑ لگی ہوئی ہے لیکن جہاں علمی و ادبی کتابیں ہیں وہاں کوئی پوچھنے بھی نہیں آرہا ہے‘‘۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے کتابوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہے انور رشید کہتے ہیں’’ قومی کونسل کی طرف سے جب ممبئی میں کتاب میلہ منعقد ہوتا ہے تو ہم کتابوں کے فروخت کے تعلق سے بہت پُر امید ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب ہمیں مایوسی کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔‘‘رنگا رنگ پروگرام کے لیے اسٹیج کے بالکل سامنے دکان سجائے بیٹھے انور رشید کہتے ہیں’’چونکہ خریدار نہیں ہوتے لہذامیں صبح سے لے کر شام تک صرف پروگرام دیکھتا رہتا ہوں ،یہاں کے پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ پروگرام کا آغاز تو توحید سے ہوتا ہے لیکن اختتام شرک پر کیا جاتا ہے،المیہ تو یہ ہے کہ پروگرام کے دوسرے روز ڈانس کا پروگرام منعقد ہوا اور منتظمین نے سٹی بجا کر پرفارمرس کی حوصلہ افزائی کرنے کو کہا۔انائونسرکے الفاظ یہ تھے کہ ’’آپ سٹی بجائیں ،سٹی اہل بھیونڈی کی شان ہے‘‘۔ کرب کا مظاہرہ کرتے ہوئے انور کہتے ہیں’’میں جب سے آیا ہوں یہ دیکھ کر پریشان ہوں کہ ہمارے اپنے اداروں میں فحش کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے‘‘۔

مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے تشریف لائے معین الدین صدیقی کہتے ہیں’’میرے پاس چونکہ ادبی کتابیں زیادہ ہیں لہذا میرے اسٹال پر آنے والوں کی تعداد بھی کم ہی ہے۔‘‘البلاغ پبلی کیشنز نئی دہلی سے تشریف لائے ابو طلحہ اصلاحی کہتے ہیں’’یہ بچوں کا میلہ ہے اس لئے بچوں کی کتابیں فروخت کرنے والے خوش ہیں ،گذشتہ برسوں میںممبئی کے میلے میں چونکہ اچھا رسپانس ملا تھا لہذا اسی امید میں ہم یہاں بھی آگئے لیکن یہاں تو سنجیدہ قارئین ہی نظر نہیںآرہے ہیں بس بچوں کا ہنگامہ ہے۔ اسکول سے بھر بھر کر طلبہ و طالبات کو لایا جا رہا ہے۔ہاں!فضائل اعمال اور بہشتی زیور کے خریدار کبھی کبھی آجا رہے ہیں‘‘۔
الہدایہ پبلشنگ کمپنی کے مالک ابوالاعلیٰ سید سبحانی کہتے ہیں’’میرے پاس علمی کتابیں ہیں لہذا خریدار ناپید ہیں۔میں تو بس اللہ سے دعا کر رہا ہوں کہ کسی طرح سفری اخراجات نکل جائیں تو جان میں جان ورنہ یہ کتاب میلہ تو خسارے کا سودا معلوم ہو رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ ۲۵دسمبر ۲۰۱۶ تک چلنے والا ’’۲۰واں کل ہند اردو کتاب میلہ‘‘سے ناشرین و تاجران کتبکو بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن منتظمین نے اردو کے سنجیدہ قارئین کی جگہ اردو اسکولوںکے طلبہ و طالبات کی شرکت کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش توکی اور اس کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا بھی استعمال کیا لیکن سنجیدہ قارئین تک اپنا پیغام پہنچانے اور انہیں مذکورہ میلے کا حصہ بنانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔