جامعۃ الفلاح کے وفد کا اعظم کیمپس پونے کا دورہ

تعلیمی رہنماپی اے انعامدار اور حضرت مولانامحمد طاہر مدنی کے درمیان اہم امور پر تبادلہ خیال،مدرسہ کو جدید سہولیات فراہم کرانے کی یقین دہانی
نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
پونے(معیشت نیوز) عالمی شہرت یافتہ مدرسہ جامعۃ الفلاح کے ناظم حضرت مولانا محمد طاہر مدنی نے اپنے ممبئی دورہ کے دوران اعظم کیمپس پونے کا بھی دورہ کیا اور مہاراشٹر میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے والی شخصیت پی اے انعامدار سے ملاقات کی۔
حضرت مولانا محمد طاہر مدنی نے اعظم کیمپس میں جاری کمپیوٹر و تکنیکی تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر یہ نظام جامعۃ الفلاح میں بھی رائج ہوجائے تو نہ صرف مدرسے کے بچوں کی تعلیمی لیاقت میں اضافہ ہوگا بلکہ نئی نسل جدید تقاضوں سے آراستہ ہوگی لہذا اس کی کیا صورت ممکن ہے؟ جس کے جواب میں پی اے انعامدار نے کہا کہ’’جامعہ کو تکنیکی تعلیم سے آراستہ کرنا اب ہماری ذمہ داری ہے لہذا آپ جس طرح کی بھی معاونت چاہتے ہوں ہم اسے مہیا کرانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں ‘‘۔

واضح رہے کہ جامعةالفلاح ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو تعلیم و تربیت کے میدان میں نصف صدی سے زائد عرصے سے نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے. قرآن و سنت کی محققانہ تعلیم، جدید و قدیم علوم کا بہترین امتزاج، دعوت دین اور اصلاح معاشرہ کیلئے باصلاحیت افراد کی تیاری، طالبات کی اعلی تعلیم کا نظم، فنی اور تکنیکی تعلیم پر بھی توجہ اور وسعت قلب و نظر کی افزائش جامعہ کے امتیازات شامل ہیں۔
حضرت مولانا محمد طاہر مدنی کے مطابق ’’جامعہ کا قیام ایک تحریکی ادارے کے طور پر عمل آیا. دین کا جامع تصور، اقامت دین کا نصب العین اور دعوتی و اصلاحی مزاج کے افراد کی تیاری، جامعہ نے پیش نظر رکھا ہے. قرآن مجید کو مکمل طور سے شامل نصاب کرنا، احادیث پر گہری نظر اور فقہ مقارن کی تدریس، جامعہ نے آغاز ہی سے اپنا منہج بنایا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’ اللہ کا شکر ہے کہ فارغین جامعہ زندگی کے مختلف میدانوں میں ملک و ملت کی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں. تعلیم و تدریس، تجارت و صنعت، تصنیف و تالیف، صحافت و میڈیا کے مختلف میدان اور ترجمہ و تفسیر کے متنوع محاذ ان کی جولانگاہ ہیں. ملت کے اندر اتحاد و یکجہتی کا مزاج بنانے کیلئے ان فارغین کی خدمات لائق ستائش ہیں‘‘۔

حضرت مولانا طاہرمدنی کے مطابق ’’نصاب تعلیم میں جدید و قدیم کے سنگم کی جو آواز جامعہ نے بلند کی، بعد میں بہت سارے اداروں نے اسے اپنایا، البتہ اس خواب کو آئیڈیل انداز سے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے غیرمعمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے. معیاری نصاب کیلئے ورکشاپ، نصابی کتب کی تیاری اور اساتذہ کی ٹریننگ بہت بڑے منصوبے ہیں، میسر وسائل کے ساتھ جو ممکن ہے، وہ جامعہ کر رہا ہے اور پیش رفت جاری ہے. ہمارا ماننا ہے کہ طلبہ مدارس کو علوم قرآن و سنت کے ساتھ معیاری انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم دے دی جائے تو ان کی افادیت بہت بڑھ جائے گی اور ان کی خدمات کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا.
جامعہ نے علمی و تحقیقی کاموں کی طرف توجہ دی ہے. عمدہ لائبریری اور لائبریری کلچر کو فروغ دینا، توسیعی لکچرس کا اہتمام اور اہم موضوعات پر علمی سیمیناروں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے. ادارہ علمیہ سے اہم کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے اور طلبہ و طالبات کیلئے مضمون نویسی کے مقابلے انجام پاتے ہیں‘‘.انہوں نے کہا کہ ’’جامعہ نے ایک اچھا ہاسپیٹل بھی بنایا ہے جس کی خدمات 24 گھنٹہ تمام لوگوں کیلئے حاصل ہیں۔ اس ہاسپیٹل کو برابر ترقی دی جارہی ہے اور کچھ پیرامیڈیکل کورسز بھی شروع کرنا پروگرام میں شامل ہے.‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’فارغین جامعہ کا ایک انتھائی نمایاںپہلو یہ ہے کہ ان کی تنظیم، انجمن طلبہ قدیم بہت منظم ہے اور مادر علمی کی گرانقدر خدمات انجام دے رہی ہے.نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود جامعہ کی خدمات نمایاں ہیں، لیکن ہم اس پر مطمئن نہیں ہیں اوربہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں. الله کی مدد اور محسنین جامعہ کے تعاون سے ان شاء اللہ ہم مزید پیش قدمی کریں گے اور جامعہ کو ہر لحاظ سے ممتاز بنانے میں کامیاب ہوں گے.ہمارا پونے کا دورہ اوراعظم کیمپس میں جناب پی اے انعامدار صاحب سے ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے‘‘۔

پی اے انعامدار نے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’مدارس کو جدید سہولیات کے ساتھ تکنیکی تعلیم سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔کمپیوٹر اور انگلش کی تعلیم کے ذریعہ ہم مدارس کے بچوں کو جدید دنیا کے مطابق تیار کرسکتے ہیں جہاں وہ ایک اچھاداعی،اچھا تاجر اور اچھاانسان بن کراپنی زندگی گذار سکتا ہے‘‘۔
واضح رہے کہ وفد میں ممبئی کی سماجی و تعلیمی شخصیات جن میں اقراء گیان ایجوکیشن فائونڈیشن کے روح رواں لیاقت علی خان،فیروس ایجوکیشن فائونڈیشن کے سینئر سپر وائزر مولانا عبدالبر اثری،سرسید گرلس کالج کے سربراہ محمد خالد مخدومی ،جمال ایکسپورٹس کے مالک ادہم علی فلاحی کے ساتھ معیشت کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض بھی شامل تھے۔