
ایک ہی مجلس میں ایک سے زائد بار طلاق کا شرعی حکم
سوال: ایک ہی مجلس میں ایک سے زائد بار طلاق کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ مسمى عبد الرحمن ولد إبراہیم نے غصہ کی حالت میں اپنی اہلیہ کو ایک ہی مجلس میں چار یا پانچ دن قبل تین طلاقیں دے دیں اور اب وہ اس پر نادم ہے ۔ شریعت اسلامیہ اس مسئلہ میں کیا رہنمائی کرتی ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب :اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے : الطلاق مرتان (البقرۃ:229) طلاق دو مرتبہ ہے ۔ لغت عربی میں لفظ مرۃکا معنی دفعۃ بعد دفعۃ ہے ۔یعنی ایک کام کو کرنے کے بعد وقفہ کرکے پھر اس کام کو دوبارہ سر انجام دینا ۔ یہی مفہوم قرآن حکیم کی اس آیت سے بھی واضح ہوتا ہے : یاأیہا الذین اٰمنوا لیستئذنکم الذین ملکت أیمانکم والذین لم یبلغوا الحلم منکم ثلث مرات من قبل صلاۃ الفجر وحین تضعون ثیابکم من الظہیرۃ ومن بعد صلاۃ العشاء ثلث عورات لکم ۔ (النور :85) ترجمہ:اے اہل ایمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی تم سے تین دفعہ اجازت طلب کریں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے وقت اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے لفظ مرات استعمال کیا ہے جوکہ مرۃ کی جمع ہے ۔ اور پھر اللہ تعالی نے خود ہی اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے تین مختلف اوقات بیان کیے ہیں جوکہ ایک دوسرے سے کافی دور ہیں ۔ اور الطلاق مرتان میں لفظ مرتان استعمال ہوا ہے جوکہ مرۃ کی تثنیہ ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طلاق دومرتبہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ہے جس کے بعد مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ پھر اگر تیسری دفعہ طلاق دےدے تو عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گی ۔ ہاں ایک صورت ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ معروف طریقے سے ہوجائے پھر آپس کی ناچاکی کیوجہ سے وہ دوسرا مرد بھی اس کو طلاق دے دیتا ہے یا وہ فوت ہو جاتا ہے تو یہ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کروا سکتی ہے ۔ (البقرۃ:230) مگر بعض لوگوں نے آجکل حلالہ کا طریقہ رائج کر رکھا ہے کہ ایک مرد کے ساتھ عورت کانکاح مدت مقررہ تک کے لیے کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور پھر پہلا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کر لیتا ہے ۔ یہ قطعاً جائز نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺنے لعنت فرمائی ہے : [لعن اللہ المُحَلِّل والمُحَلَّل لہ ] حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ان دونوں اللہ کی لعنت ہو۔ [أبوداود کتاب النکاح باب فی التحلیل (2076)،ترمذی أبواب النکاح باب ماجاء فی المحل والمحلل لہ (1119) ] لغت حدیث کی معروف کتاب النہایة فی غریب الأثر والحدیث لابن أثیر1/431میں حلالہ کی تعریف یوں کی گئی ہے (ہو أن یطلق رجل امرأتہ ثلاثا فیتزوجہا رجل آخر علی شریطۃ أن یطلقہا بعد وطئہا لتحل لزوجہا الأول)وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس عورت کے ساتھ دوسرا آدمی اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت سے جماع کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہوجائے۔ احناف کی فقہی اصطلاح پر لکھی گئی کتاب القاموس الفقہی کے صفحہ 100 پر مُحَلِّل (حلالہ کرنےوالا)کی یہ تعریف درج ہے: المُحَلِّلُ:ہو المتزوج ثلاثا لتحل للزوج الأوّل وفی الحدیث الشریف لعن اللہ المحلِّل والمحلَّل لہ (ترجمہ)محلِّل سے مراد وہ آدمی ہے جو تین دفعہ طلاق شدہ عورت سے شادی کرتا ہے تاکہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں پر لعنت کرے ۔لہذا حلالہ کا مروجہ طریقہ کار بالکل حرام ہے ۔ اگر بیک وقت دی گئی تین طلاقوںکو نافذ کردیا جائے تو دو طلاقوں کے درمیانی وقفہ میں مرد کے لیے سوچ بیچار کی جو مہلت تھی وہ ختم ہو جائے گی ۔ امام الأنبیاء جناب محمد مصطفیﷺایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتے تھے جیساکہ اس حدیث سے واضح ہے : (طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو المطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد فحزن علیہا حزنا شدیدًا فسألہ رسول اللہﷺکیف طلقتہا قال طلقتہا ثلاثا فقال فی مجلس واحد قال نعم قال فإنما تلک واحدۃ فارجعہا إن شئت قال فرجعہا) رکانہ بن عبدیزید جوکہ مطلب کے بھائی ہیں انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں پھر اس پر شدید غمگین ہوئے تو رسول اللہﷺنے پوچھا تونے کیسے طلاق دی تھی اس نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں آپ ؐنے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ اس نے کہا جی ہاں آپﷺنے فرمایا بےشک یہ تو صرف ایک ہی ہے اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے (راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عباسؓ)فرماتے ہیں انہوں نے رجوع کر لیا [مسند أحمد ومن مسند بنی ہاشم مسند عبد اللہ بن عباس(2383)أبوداود کتاب الطلاق باب فی البتۃ (2208،2206)] اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجرؒفتح الباری شرح صحیح بخاری میں کتاب الطلاق باب من أجاز طلاق الثلاث کے تحت رقمطراز ہیں کہ :وہذا الحدیث نص فی المسئلۃ لایقبل التأویل الذی فی غیرہ من الروایات ترجمہ:اس حدیث نے مسئلہ کی ایسی وضاحت کی ہے کہ جس میں اس تاویل کی گنجائش باقی نہیں ہے جوکہ دوسری روایات میں کی جاتی ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا رسول اللہﷺ، ابوبکر ؓ ، اورعمر فاروق ؓ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک چلتا رہا پھر جناب عمرؓ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین کا حکم لگا دیا تھا جیساکہ عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ: کان الطلاق علی عہد رسول اللہﷺوأبی بکر رضی اللہ عنہ وسنتین من خلافت عمر رضي الله عنه طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ؓ إن الناس قد استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیہم فأمضاہ علیہم [مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث (1472)] رسول اللہﷺ،ابوبکر ؓ اور عمرفاروقؓ کی خلافت کے ابتدئی دوسالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے سوچ بیچار کا موقع تھا اس میں انہوں نے جلدی شروع کردی ہے تو ہم ان پر تینوں ہی لازم کردیتے ہیں لہذا انہوں نے تینوں ہی لازم کردیں۔ یادرہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے: واعلم أنَّ فی الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملۃ لم یحکم إلا بوقوع واحدۃ إلی زمن عمر رضی اللہ عنہ ثم حکم بوقوع الثلاث لکثرتہ بین الناس تہدیدًا ترجمہ:اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر عمر ؓ دور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔ فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر ؓ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺکا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں جسکے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے اور طلاق یافتہ خواتین کے لیے اللہ رب العالمین نے عدت تین حیض متعین فرمائی ہے :والمطلقات یتربصن بأنفسہن ثلاثۃ قروء اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک انتظار کریں (عدت گزاریں) (البقرۃ : ۲۲۸ ) صورت مسؤلہ میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کے بعد خاوند کو دوران عدت رجوع اور بعد از عدت تجدید نکاح کا حق حاصل ہے۔ لہذا عبد الرحمن ولد ابراہیم اپنی اہلیہ سے رجوع کرکے اپنا گھر بسا سکتا ہے ۔
ھذا واللہ تعالى أعلم , وعلمہ أکمل وأتم ,ورد العلم إلیہ أسلم , والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم