سچر رپورٹ کے دس سال ؛علاج ہمیں ہی کرنا ہوگا

ا ڈاکٹر محمد عابدالرحمن(چاندور بسوہ
مسلمانوں کی تعلیمی معاشی اور سماجی حالات کا جائزہ لینے والی سچر کمیٹی کی رپورٹ کو دس سال پورے ہو چکے ہیں ۔اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’ ملک کے مسلمان تعلیم ملازمت صحت عامہ پبلک انفراسٹرکچر اور مالی امدادی سہولیات کے معاملہ میں شدید محر ومی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی غربت کا تناسب دوسرے مذہبی گروہوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے‘ حکومت نے سچر کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کے نام پرایک وزارت اقلیتی امور قائم کردی اور مسلم ممبران کے حوالے کردی اس کے علاوہ وزیر اعظم من موہن سنگھ جی نے مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے ایک جامع پلان بنام پندرہ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا جس کا مقصد اقلیتوں کو تعلیمی مواقع فراہم کر کے مدد کرنا ،ملازمت اور معاشیت میںمنصفانہ حصہ داری یقینی بنانا ،اقلیت کے معیار زندگی کو بہتر بنانا اور فرقہ وارانہ عدم اتفاق اور تشدد کو روکنا تھا اسی طرح حکومت نے اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لئے سرو شکشا ابھیان میں بھی کچھ ترامیم کی تھی اور اقلیتی لڑکیوں کو کتابوں کی مفت فراہمی کی سہولت کا بھی اعلان کیا تھا اس کے علاوہ ملک میں کثیر مسلم آبادی والے اضلاع کی نشاندہی کر کے ان کے لئے خاص معاشی اور تعلیمی پیکج کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن اب اس کو تقریباً دس سال گزرجانے کے بعد بھی حالات جوں کے توں ہی ہیں ،انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ کچھ شعبوں میں تو حالات مزید خراب ہوگئے ۔ اس سے پہلے ۲۰۱۳ میں اس رپررٹ کے مطابق سرکار کی چھ سالہ کارکردگی کے تجزیہ پر مبنی سچر کمیٹی کے ممبر سیکریٹری محترم ابو صالح شریف کی رپورٹ نے بھی تقریباً یہی تجزیہ پیش کیا تھا جس سے معلوم ہوا تھا کہ مسلمانوں میں تھوڑی بہت ترقی ضرور ہوئی لیکن وہ بھی دوسرے طبقات کی بہ نسبت کم ہوئی یعنی سرکار کی اسکیموں او ر مسلمانوں کی ترقی کے لئے خاص کام کر نے کے شور شرابے کے باوجود بھی مسلمانوں میں ترقی کا تناسب دیگر گروہوں میں ترقی کے تناسب سے کم ہی رہا یہاں تک کہ ایس سی ا یس ٹی سے بھی کم ۔اس وقت اس رپورٹ کے ضمن سرکاری اقدامات کی ناکامی کے متعلق کہا گیا تھا کہ حکومتی مشنری بیوریو کریسی اور انتظامیہ میں ایسے عناصر کی کثیر تعداد موجود ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی بالکل نہ ہو اور وہ سماجی معاشی اور تعلیمی غرض ہر شعبہء زندگی میں بالکل حاشیہ پر پہنچا دئے جائیں اور اسی ذہنیت کے تحت یہ لوگ سرکاری اسکیموں کو اپنے نشان تک پہنچنے نہیں دیتے لیکن اس سب کے باوجود ان اسکیموں کی ناکامی کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے بلکہ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ حکومتوں کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسے عناصر حکومت کے منشاء کے خلاف سسٹم میں قائم بھی رہیں اور اپنے ناپاک مقاصد حاصل بھی کرلیں؟ ویسے بھی ہمارا خیال ہے کہ حکومت نے مسلمانوں کے تئیں سنجیدگی کے دعوے کے طور پر یہ جو کمیٹی بنائی تھی وہ دراصل مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ مذاق تھاکیونکہ کہ یہ بات ہی بڑی عجیب ہے کہ کسی حکومت کو اس کی رعایہ کے حالات کا علم نہیںاور جسٹس سچر کمیٹی نے بھی اپنا زیاد ہ تر ڈاٹاسرکاری مردم شماری ہی سے لے کر اس بات کی تصدیق بھی کردی ۔اور اب اس رپورٹ پر کئے گئے حکومتی اقدامات کا تجزیہ بتا رہا ہے کہ وہ پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ کو مسلمانوں کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ ان کو مزید پست کر نے کے لئے استعمال کیا گیا اس رپورٹ کے اجراء یعنی ۲۰۰۶ کے بعد کے زمانے کو دیکھئے یہ پورا عرصہ میں مسلم دہشت گردی کا خوب شور کیا گیا ،اس رپورٹ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی تعلیمی حالت نہایت خستہ ہے اورمسلم دہشت گردی کے ذریعہ ان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے گرد قانون کا غیر قانونی گھیرا تنگ کر کے ان کے تعلیمی جذبات کو ہی پست کر نے کی کوشش کی گئی۔یہ اس حکومت کی کار کردگی ہے جس پر مسلم دوستی اور منھ بھرائی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔ دراصل مسلمانوں کی فلاح کی نیت کسی حکومت کی نہیں ہے مسلمانوں کے لئے جو کچھ بھی ہوتا ہے اسکی حیثیت صرف اور صرف سیاسی ہوتی ہے ۔ اب مودی جی کی حکومت کو بھی ڈھائی سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن انہوں نے بھی اس ضمن میں بیان بازی کے سوا کچھ خاص نہیں کیا اور ان سے امید بھی کیا رکھی جا سکتی ہے کہ انہوں نے تو اس رپورٹ کے متعلق اس وقت کی مرکزی حکومت کی مسلم طلباء کی اسکالر شپ( جس میں مرکزی سرکار کا حصہ ۷۵ فیصد اور ریاستی سرکار کا ۲۵ فیصد تھا) کی اسکیم کو گجرات میں لاگو کر نے سے صاف انکار کردیا تھا بلکہ اس کے لئے سپریم کورٹ تک بھی دوڑ لگائی تھی اور اس پر راضی بھی ہوئے تھے تو سپریم کورٹ کے ’ حکم ‘ کے بعد ہی۔ تو ایسے حالات میں امت کے سدھار کے لئے حکومت کی طرف دیکھنا ہمارے خیال میں کوئی عقل مندی نہیں ہے۔اب ضروری ہے ہم اپنا راستہ خود بنائیں اور اپنے مسائل کا خود ہی علاج بھی ڈھونڈ نکالیں اور الحمد لا للہ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اور جس مذہب کو ماننے کی وجہ سے ایک قوم میں شمار کئے جاتے ہیں اور جس بر حق مذہب کو ماننے کی وجہ سے نظر انداز کئے جاتے ہیں اس مذہب نے ہمارے لئے ایک پختہ اور دائمی نظام بنا کر رکھ دیا ہے جو زندگی کے ہر ہر شعبہ پر محیط اور قوم کے ہر ہر مسئلہ کا حل بھی ہے۔تو اس امت کے معاشی مسائل کے حل کے لئے اس نظام کا ایک اصول زکوٰۃ ہے کہ جو اس امت کے امیروں پر فرض کی گئی ہے تاکہ اس سے امت کے غرباء کی کفالت کی جاسکے اور اس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ’یہ زکوٰۃ تمارے مالداروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی محتاجوں میں تقسیم کی جائے گی‘(بخاری کتاب الزکوٰۃ) زکوٰۃ کے متعلق نبی کریم ﷺ کے اس فرمان میں جو بات کہی گئی ہے اس میں امیروں کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی زکوٰۃ بذات خود براہ راست غرباء میں تقسیم کردیں بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ امیروں سے لی جائیگی اور غرباء میں تقسیم کی جائے گی یعنی زکوٰۃلینے اور اسے غرباء میں بانٹنے والے الگ لوگ یا نظام ہو گا ۔اور سرکار دو عالم صلی اللہ و علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے مبارک زمانے میں موجود ’ بیت المال ‘ کا نظام دراصل زکوٰۃ کے لین دین کا ہی اجتماعی نظام تھا جس کے ذریعہ تمام زکوٰۃ حکومت کے کار کن جمع کر تے تھے اور مر کز کی طرف سے یہ زکوٰۃ مستحقین میں تقسیم کی جاتی تھی اور یہ نظام ایسا تھا کہ سختی سے اس کی پابندی کی جاتی تھی ۔علماء و صلحاء کے مطابق آج اگر اسلامی حکومت نہیں ہے تو زکوٰۃ فرداً فرداً مستحقین میں تقسیم کی جاکستی ہے اسلامی حکومت نہیں ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہزکوٰۃ کے اجتماعی نظام یعنی نظام بیت المال کے قیام کی اب کوئی ضرورت نہیں۔بلکہ آج تو بیت المال کے قیام کی ضرورت اشد تر ہو گئی ہے اسلامی حکومت کے نہ ہونے کی وجہ سے اب اس پر سختی سے عمل نہیں کیا جا سکتا لیکن باہمی رضامندی کے ذریعہ اس کو قائم کیا جا سکتا ہے۔اگر ہم آج ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی حالت دیکھیں تو جیسا کہ سچر کمیٹی نے ہمارے زخم کرید کر انہیں عام کر ہی دیا ہے کہ ہم ذاتی طور فرداً چاہیں کتنے ہی پاش علاقوں میں اچھی سو سائٹیوں میں اور بڑے فلیٹوں اور خوبصورت بنگلوں میں رہتے ہوں،ہم کتنی ہی بڑی صنعتوں کے مالک ہوں، کتنی ہی اچھی اور بڑی نوکری پربر سر کار ہوں، کتنا زیادہ اور اچھا کھاتے کماتے ہوں،کتنی ہی خوبصورت اور مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہوں اجتماعی اعتبار سے ہم دلتوں سے بھی بد تر حالت میں ہیں،اور ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ع فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں!ایسا نہیں کہ قوم مسلم زکوٰۃ نہیں دیتی ،بلکہ آج کے اس دور میں بھی خیرات زکوٰۃ اور صدقات کو قوم اہمیت دیتی ہے لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ کا کوئی اجتماعی نظام یا بیت المال نہیں ہے اس لئے ہم لوگ فرداً فرداً اپنی زکوٰۃ یا صدقات ادا کرتے ہیں اور اس میں ہو تا یہ ہے کہ ہم عام طور پر یہ تحقیق نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے کہ کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق ،جسے ہم دے رہے ہیں وہ مستحق ہے یا ہما ری امداد کسی غیر مستحق کے حصہ میں جارہی ہے اور عموماً ہو تا یہ ہے کہ ہماری امداد ایک معمولی استثنی ٰ کے ساتھ اصل حقداروں تک نہیں پہنچ پاتی بلکہ اسے جعلی فقیر ڈھونگی غریب اور چندہ خور امیر ہی لے اڑ تے ہیں ،اور اصل مستحقین بے چارے اپنے ہی غم میں غلطاں رہ جاتے ہیں۔سو یہ ہماری دینی ذمہ داری تو ہے ہی اور ہم سمجھتے کہ اب سماجی مجبوری بھی ہوگئی ہے کہ ہم سماجی اکائیوں کی سطح یعنی محلوں اور گاؤں سے ہی زکوٰۃ کے اس اجتماعی نظام کو قائم کریں اور اجتماعی طور پر غرباء مساکین اور مستحقین تک اسے پہچائیں تاکہ اپنا فرض بھی بہ حسن و خوبی ادا ہو اور ضرورت مند بھی بے یار و مدد گار نہ رہیں، اس میں پہلی ترجیح بے روزگاروں کو روزگار مہیا کروانا ہو نا چاہئے کہ سب سے پہلے پیٹ بھرنا اور بنیادی ضروریات زندگی کا انتظام کرنا ضروری ہے اس کے بعدمعیاری تعلیم ،انفراسٹرکچر، صحت عامہ وغیرہ کی باری آتی ہے ،اور زکوٰۃ کے اجتماعی نظم پر ذمہ دارانہ اور ایماندارانہ عمل درآمد کے لئے یہ کام قوم مسلم کے لئے کچھ مشکل نہیں۔