خود ہم نے کیا کِیا جو کسی کا گِلہ کریں،ہم ممبرا کے رہنے والے۔!!

مہاراشٹر کے ضلع تھانے میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ ممبرا کوسہ کا بیرونی منظر
مہاراشٹر کے ضلع تھانے میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ ممبرا کوسہ کا بیرونی منظر

(معیشت میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی جانب سے شائع ہونے والا ماہنامہ بین الاقوامی معیشت سرزمین ’’ممبرا‘‘ پر اپنا خصوصی شمارہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔’’ممبرا کی سر زمین پر ممبا ہے سجدہ ریز‘‘کے مرکزی موضوع کے تحت آئندہ شمارہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھے گا ۔انشاء اللہ
روزنامہ ممبئی اردو نیوز کے فیچر ایڈیٹر شاعر و ادیب محترم ندیم صدیقی صاحب نے گذشتہ برس ممبرا پر ایک مضمون رقم کیا تھاجو کہیں شائع نہیں ہوسکا جسے افادہ عام کے لیے یہاں پیش کر رہے ہیںتاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ ہم دستاویزی شمارے میں کن کن موضوعات کا احاطہ کرنے والے ہیں۔قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی رائے maeeshatmedia@gmail.comپر ای میل بھی کر سکتے ہیں ۔ادارہ )
کسی زمانے کی ممبئی میں لوگ اپنے مکان بغیر کسی کرائے کے دیدیتے تھے اور کچھ لوگ کرایہ لیتے بھی تھے تو وہ برائے نام ہی ہوتا تھا۔ لوگوں کے پاس جگہ تھی اور خاندا ن کے افراد زیادہ نہیں تھے۔ کرلا اور باندرہ تو اُس زمانے میں شہر میں گِنے ہی نہیں جاتے تھے بلکہ ان علاقوں کا شمار مضافاتِ شہر میں ہوتا تھا اور جہاں وہ لوگ ہی رہتے تھے جو شہر میں قیام کے لئے اتنی مالی اِستطاعت نہیں رکھتے تھے۔ سادے لفظوں میں غریب غربا اور مزدور طبقہ اِن علاقوں میں رہتا تھا۔ممبرا اور میرا روڈ تو ابھی چند برسوں میں جانے گئے۔ ممبرا کیلئے تو عام طور پر یہ سنا جاتا تھا کہ جن لوگوں کا چال چلن ٹھیک نہیں ہوتا تھا انھیں پولس کی نشاندہی پرتڑی پار( شہر بدر) کیا جاتا تھا تو وہ لوگ ممبرا ہی میں ٹھکانہ پاتے تھے یا پھر وہ لوگ جن کے پاس گھر کے نام پر کچھ نہیں تھا وہ ممبرا کا رُخ کرتے تھے۔ مضافات و نواحِ شہر(ممبئی) میں جو علاقے 1980کے آ س پاس مسلمانوں کی نئی بستی کے طور پر متعارف ہوئے ان میںمیرا روڈ اور ممبرا زیادہ مقبول و مشہور ہوئے۔ یہ بس ایک اتفاق ہے کہ یہ دونوں ٹاؤ ن ضلع تھانے میں ہیں۔ ممبرا میں جس ریلوے لائن سے فاسٹ اور میل ایکسپریس ٹرینیں گزرتی ہیں وہ ممبرا ہی کے سہادری پہاڑ کے اندر سے ہو کر جاتی ہیں۔ یہ سرنگ جو پارسِک ٹنل کے نام سے معروف ہے 1916میں بنی تھی۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق یہ سُرنگ اپنے وقت میں ملک کی سب سے بڑی سرنگ کہی جاتی تھی اور اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ڈیڑھ کلو میٹر یہ لمبی سرنگ بالکل سیدھی بنی ہوئی ہے یعنی اس طرف سے اُس طرف کا سِرا صاف نظر آ تا ہے ۔
بزرگوں کی روایت کے مطابق اس سرنگ کی تعمیر میں بلوچی مسلمانوں کی خدمات یادگارہیں۔ ہم نے بچپن میں جب اس قصبے کو( 1960ء کے آ س پاس) دیکھا تھا تو اُس وقت ممبرا کی آ بادی یوں تھی: اسٹیشن کے سامنے واقع مسجد اس زمانے میںبھی تھی اور اس کے اِرد گِرد کچھ کچے پکے جھونپڑے نما مکانات تھے اور پھرجہاں اب پولس اسٹیشن ہے وہاں کچھ آ بادی تھی جس میں مچھیرے ہی زیادہ تھے اسی مناسبت سے یہ علاقہ کو لی واڑہ سے موسوم ہے۔
یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ ممبرا کے قدیم اور اصل باشندے اگری اور کولی طبقے کے لوگ اور کچھ کوکنی مسلمان تھے ۔ ممبرا سے شیل پھاٹے تک عمارتوں کا جو سلسلہ لوگ اب دیکھ رہے ہیں وہ اِنہی لوگوں کی زمینیں تھیں جن پر اکثر دھان (چاول) بویا جاتا تھا۔ یہ لوگ جیسے کسان ہوتے ہیں ویسے ہی سید ھے سادے تھے۔ ممبرا میں ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف کھاڑی ہے۔ جس سے نکالی ہوئی ریتی ممبئی تک مکانوں کے بنانے میں کام آ تی تھی۔
اُس زمانے میں مشینوں کا وجود نہیں تھا۔ یہی اگری اور کولی جو اُس زمانے میں نہایت غریب تھے وہ کھاڑی میں ڈُبکی لگاتے تھے اور تہہ سے ریتی نکال کر سطح پر لاتے تھے۔ ان کی جیسی مشقت اور جاںفشانی ہم لوگوں میں آ ج سوچی بھی نہیں جاسکتی۔ پھر وقت بدلا اور ریتی نکالنے کی مشین آئی تو انہی لوگوں پر ہُن برسا اُن کی عورتیں ممبرا میں جب نظر آ تی تھیں تو سونے سے پیلی ہو رہی ہوتی تھیں ۔
ہماری ناقص معلومات کے مطابق ممبرا میں پہلی چا ر منزلہ بلڈنگ بامبے کالونی کے نام سے وجود میں آ ئی تھی۔ ایک مدت تک اس کے اوپری منزلے خالی ہی رہے وہ یوں کہ اُس وقت واٹر سپلائی کے نام پر کوئی نظم تھا تو بس کنویں تھے جن میں سے پانی نکال کر بالٹی، ہنڈااور کلسی کے ذریعے چار منزلے تک لے جانا پڑتا تھا وہ لوگ جو غربت کے مارے تھے وہ یہ مشقت بھی کرلیتے تھے۔ جامع مسجد کے عقب میں مسجد کمپاؤ نڈ کا جو کنواں تھا(اب بھی ہے مگر کچرے سے پٹا پڑا ہے) گرمی کے مو سم میں لوگ اس کنویں سے پانی نکالنے کیلئے لائن لگا تے تھے۔ یہ تجربہ ہمارا بھی ہے۔ اور 1975 اور 1977ء کے بعد یہاں تعمیرات کا سلسلہ عام ہوا مگر(چند تعمیرات کو چھوڑ کر) کسی بھی طرح کے پلان کے بغیر بلڈنگیں بنیں۔ مشہور ہے کہ جو لوگ کل شام تک ممبرا میں اِسٹیشن کے آ س پاس سبزی بیچ رہے تھے وہ، صبح بلڈر بنے نظرآئے۔ ایک بات اور سنجیدہ حضرات کے منہ سے سنی ہے کہ کاش ممبرا کسی پلاننگ کے تحت بستا تو جائے وقوع(لوکیشن) کی مناسبت سے یہ دوسرا لونا وَلا ثابت ہوتا۔ مگر وہی کہ ویسا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ مگر ویسا نہیں ہوا۔ 1980ء کے بعد تو یہاں تعمیرات کا سلسلہ کوسہ تک درازہوگیا ۔ یہ جو گزشتہ دِنوں ممبرا سے آ گے شیل پھاٹا پر سات منزلہ عمارت کا سانحہ ہوا ہے، ہمیں حیرت ہے اس کی خبر میں کسی نے بھی ممبرا میں پہلی بلڈنگ حادثے کا ذِکر نہیں کیا۔
1978ء کے آ س پاس کا زمانہ تھا جب ایک شب ممبرا کے کولی واڑہ میں چار منز لہ ایک عمارت تاش کے پتوں کی طرح اَڑا ڑَڑَا دھم ہوگئی تھی مرنے والوں کی تعداد تو یاد نہیں مگر اس سانحے میں بلڈر بھی مہلوکین میں شامل تھا۔ کچھ دِنوں تک اس حادثے کی گونج رہی پھر یہ حادثہ بھی ہماری فراموش طبیعت کی نذر ہوگیا۔ اب اس بلڈنگ کی جگہ ممبرا کا اوّلین میونسپل ہسپتال کھڑا ہے۔ 1955کے آ س پاس ممبرا میں گرام پنچایت بنی تھی۔یہ بات یوں یادگار ہو گئی ہے کہ اس وقت ممبرا میں اُردو کے ایک شاعر قاضی وصی احمد المعروف آوارہ سلطانپوری نے گرام پنچایت کے تاسیسی جلسے میں ممبرا پر ایک نظم کہی تھی۔ اوپرممبرا کی پہاڑی اور کھاڑی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کھاڑی سے جو لوگ وابستہ تھے ان کی عورتوں کے زیورات کا ذکر بھی آپ کے گوش گزار ہوا۔ ممبرا میں تعمیرات میں چند ایک کو چھوڑکر اس شعبے سے مسلمان ہی متعلق رہے اور آج بھی مسلمان ہی بلڈر ہیں۔ وہ جو مشہور ہے نو دولیتے تو یہاں کے بلڈروں پر جب ہُن برسا تو اُن میں سے کئی اس برساتِ زر سے اتنا شرابور ہوئے کہ تھانے اور ملنڈ کے( لیڈیز) بئیر بار وں کا کاروبار اُن سے خوب خوب گرم ہوا۔
ہم نے ایک نظم کا تذکرہ کیا ہے مذکورہ ماحول میں وہ نظم آج پڑھیں تو ایک پیش گوئی لگتی ہے :
مُمبرا
ہم ممبرا کے رہنے والے              مدت سے سمجھے بیٹھے ہیں
اس ممبرا کے سندربَن میں             یا ریتی ہے یا پتھر ہے
اتنا تو معلوم ہے سب کو                ریتی پھانک کے جی نہیں سکتے
پتھر کھا کے کون بچا ہے              لیکن اک وِشواس ہے دِل میں
موتی دریا سے پیدا ہے                  ہیرا بھی پتھر ہوتا ہے
ہوسکتا ہے ریت کے بدلے             اس دریا سے موتی نکلے
ممکن ہے پتھر کے بدلے               یہی پہاڑی ہیرا اُگلے
٭
دریا(کھاڑی) سے نکلنے والی ریت کس طرح اور کس کیلئے موتی ثابت ہوئی اور ممبرا کی پہاڑی کے پتھر کس کے حق میں ہیرا بن گئے۔ اس کا اندازہ توآپ کو ہو ہی گیا ہوگا۔یہ تو کتابِ مبین سے بھی ثابت ہے کہ زمانہ اُلٹتا پلٹا رہتا ہے۔
ایک دہے سے زیادہ مدت گزررہی ہے کہ ممبرا کا یہ علاقہ تھانہ میونسپل کارپوریشن کی حدود میں شامل ہوگیا ہے مگر ابھی کچھ دِنوں قبل تک ممبرا گرام پنچایت کی مہر تصدیق بلڈروں کیلئے تو ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ ایک خام اندازے کے مطابق نولاکھ کی انسانی آ بادی والے اس ٹاؤ ن میں چار منزلہ عمارتوں میں گنتی ہی کی ایسی عمارتیں ہیں جو بلدیہ کے ضابطوں اور قوانین کے مطابق بنی ہیں ورنہ تو اللہ ہی اللہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں غیر قانونی عمارتیں بنانے والوں میں اکثر ہمارے ہی بھائی بندہیں اور ان میں رہنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ مسئلہ یہی نہیں ہے کہ عمارتیں غیر قانونی ہیں بلکہ ان میں ایسی عمارتیں کثیر تعداد میں ہیں جوآ نکھ بند کرکے بنا ئی گئی ہیں۔
ہم نے یہاں کی آ بادی کے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں اگر کسی کو شبہ ہو تو وہ وِکی پیڈیا پر اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ یہاں ایک بات کتنی حیران کن ہے کہ اتنی بڑی آ بادی والے ٹاؤ ن میں ڈِرینج سسٹم کے نام پر کچھ بھی نہیں۔ لے دے کے وہ برساتی نالے ہیں جو برسات کے موسم میںپہاڑ سے بہتے ہیں انہی نالوں میں یہاں کی لاکھوں کی اِنسانی آ بادی کا بول وبراز آ ٹھ ماہ تک سڑتا رہتا ہے اور برسات کا انتظار کرتا ہے جب تیزبارش ہوتی ہے تو ان نالوں میں جمع یہ بول براز کھاڑی کی طرف بہ جاتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ اتنی بڑی انسا نی آ بادی کی یہ گند گی کسی بھی وقت کس کس طرح کی بیماریوں اور وبائی امراض کا دروازہ کھول سکتی ہے ۔ !
اس کے علاوہ اور بھی کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں مگر نہ تو کسی کو ان باتوں کی پروا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی فکر۔ ایک زمانہ تھا کہ بلدیاتی شعبے سے وابستہ لوگ انہی مسائل کو حل کرنے کوشش کرتے تھے اب جو کارپوریٹر نام کی مخلوق پیدا ہوئی ہے اس کے پاس صرف اور صرف کارپوریٹ ذہن ہے کہ وہ کس طرح بڑے بڑے سیاسی لوگوں سے رابطہ بنائیں اور کس طرح اپنے سیاسی مستقبل کو روشن و تابناک کریں۔ جب الیکشن آتا ہے تو حشرات الارض کی طرح یہ لوگ اپنی ٹولیوں کے ساتھ ہاتھ جوڑے قوم و ملت کے خادم بنے نظر آ تے ہیں اور اس کے بعد پھر وہی حالات ہوتے ہیں اور اُن کی شاہی۔ سچ تو یہ ہے کہ جتنی اخلاقی بلکہ جملہ برائیاں ہم غیر قوموںمیں دیکھتے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی شکل میں ہمارے ان مخلصین میں بھی دَرآ ئی ہیں وہ جو کہا گیا ہے کہ ایک لقمہ ٔ حرام ہمارے اعمال میں ہزارہا صورتِ بد اختیار کر لیتا ہے۔ وہی نتیجہ یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت مشہور قول ہے کہ جب جہل و کفر کے ہاتھوں میںخزانہ لگتا ہے تو وہ وقت معاشرے کیلئے بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ یعنی یہ صورت حال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے کہ جب بندر کے ہاتھ استرا آ جاتا ہے تو پھر وہ جب چاہے اپنا منہ لال کر ے یا پھر جب چاہے اپنے اِرد گرد کی مخلوق کو لہو لہان کر دے۔
شیل پھاٹا میں بلڈنگ سانحہ گزشتہ جمعرات -4اپریل(2013 ) کو ہوا تھا۔ اس کے دوسرے دِن لو کل ٹرین میں ایک بڑے میاں یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ میاں! ابھی تو بسم اللہ ہوئی ہے ۔ یہ سن کر ہم لرزگئے مگر غور کیا تو بڑے میاں کی بات ہوا ہوائی نہیں لگی۔ مگر ہم دُعا گو ہیں کہ ایسا نہ ہو مگر ممبرا تا شیل پھاٹا کا جو منظر ہمارے سامنے ہے وہ بھی کچھ اسی طرح کی سرگوشی کر رہا ہے۔ اب غیر قانونی بلڈنگوں کو توڑا جارہا ہے۔ ظاہر ہے یہ عمل بھی ایک بڑی اذیت ہے مگر جس حکومت نے مرنے والوں اور زخمیوں کو مالی امداد دِی ہے وہ یہ توکرے گی ہی کہ آئندہ ایسا حادثہ یہاں نہ ہو۔ ظاہر ہے ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ایسا حادثہ پھر ہماری آ نکھیں دیکھیں۔
یہ جو جمعہ 12اپریل کو ممبرا بند منایا گیا ہے۔ اس کے کیا نتائج برآ مد ہوں گے اور یہ عوام کے حق میں کتنامفید ثابت ہو گا ، بلڈرمافیا یا پھر لیڈر و ںکے حق میں؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ عجب نہیں کہ یہ بند بھی کوئی سیاسی حکمت عملی ہو۔۔۔!
البتہ قیاس غالب ہے کہ کچھ مدت گزرے گی ،لیڈر لوگ سرکار دربار اور پھر اخبار میں گزارش کرتے نظر آ ئیں گے ۔ سرکار اِلیکشن کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہدامی کارروائی کا سلسلہ رو ک دے گی اورکچھ وقفے کے بعد پھر وہی سلسلہ جاری ہوجائے گا ۔ ہمارے بھائی لوگوں کا یہ قول کتنا صادق ہے کہ’’ ساری زمین ہمارے اللہ میاں کی اور اللہ میاں ہمارے۔ ۔ تو پھر ہمارے سے پوچھنے والا تٗو کون۔۔۔ ؟‘‘
یہ لیجئے ممبرا کے بہت ہی جہاں دیدہ قسم کے ایک صاحب نے معاملہ بالکل صاف کردیا: ۔۔۔ پترکار مہودئے! یہ جو ’ ممبرا بند‘ تھا وہ عوام کے غم میں نہیں تھا۔ یہ تو بلڈر لابی کا ایک پورا منصوبہ تھا کہ عوام کی لاچاری اور بیچارگی کے نام پر انہدامی کارروائی رُکوائی جائے اور پھر وہ بلڈنگیں جو ادھوری پڑی ہیں کسی طرح انھیں پوری کر کے اپنی پھنسی رقم زِندہ کی جائے۔
اس بات پر ہر صادق مسلمان کا ایمان ہے کہ نظاِمِ قدرت کے خلاف چلنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو کتابِ مقدس میں درج ہے۔ ہمیں اُن خود سرقوموںسے عبرت لینی چاہئے جو اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ ہم کہیں اور کی تو نہیں کہتے ، ممبرا کی یہ حقیقت ہے کہ مقامی بلڈروں میں کثیر تعداد اُن لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی سطح پر یہاں کے عوامی نمائندوں کے مقربین اور مصاحبین میں سے ہیں۔
یہاں کے بلڈروں میں ایک سے ایک پرہیزگار قسم کے لوگ بھی ملتے ہیں کہ جن کو دیکھنے کے بعد صرف اللہ ہی اللہ یاد آتا ہے مگر ان سے جب سابقہ پڑ جائے تو ان کا اندرون کھلتا ہے اور ایسے تو بیشمار ہیں کہ جن کے چہرے اور حرکات و سکنات سے رعونت ٹپکی پڑتی ہے۔ البتہ استثنیٰ کے طور پر تو اہل کفر میں بھی اچھے لوگ مل جاتے ہیں۔ ممبرا کا مسئلہ تو یہ ہے کہ زہر بیچنے والے بھی ہمارے ہی لوگ ہیں اور زہر سے متاثر ہونے والے بھی ہم ہی ہیں۔
حال ہی میں ہم جیسے مسلمانوں کے تعلق سے شاہ نواز فاروقی کا ایک مضمون پڑھا تھا جس کا یہ جملہ ہماری ایک عجب تصویر پیش کرتا ہے۔
’’ہمارے دین دار افراد کی بڑی تعداد دین کے پوری زندگی پر اطلاق کی قائل ہی نہیں۔‘‘
ممبرا ہی میں ہمارے ایک نوجوان عرفان عثمانی کا یہ تبصرہ بھی توجہ چاہتا ہے کہ ’’ اب ہم مسلمانوں سے دیانت اور اخلاق شاید اٹھا لیا گیا ہے۔‘‘
دین کو صرف عبادات سمجھنے والوںکیلئے ایک مولانا کا یہ واقعہ پڑھنا چاہئے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ حضرت! میں رِیلوے اسٹیشن پہنچا تو ٹکٹ کی لائن بہت لمبی تھی اور ٹرین تھی کہ اب چلے اور تب چلے ،میں بغیر ٹکٹ لئے ٹرین پر سوار ہوگیا۔ اپنی منزل پر پہنچا تو کسی نے ٹکٹ بھی نہیں پوچھا۔ مگر میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے کہ تٗو نے بد دِیانتی کی ہے۔اب پریشان ہوں کہ کیا کروں؟
مولانا نے اس کو جو جواب دیا وہ یادگار ہے : میاں! اللہ کا شکر اداکرو کہ تمہارا ضمیر ابھی زندہ ہے اب یہ کرو کہ جس اِسٹیشن سے چلے تھا وہاں سے یہاں تک کا کتنا کرا یہ تھا؟ اس شخص نے کہا : دس روپے۔۔ مولانا نے کہا : اب دس روپے کا کوئی ٹکٹ یہیں کے ریلوے اسٹیشن سے خریدو اور پھاڑ کر پھینک دو۔ اس طرح سے وہ روپیہ ریلوے کے خزانے میں پہنچ جائے گا۔ پہلے ٹکٹ لیتے تب بھی یہی ہوتا۔ مگر یاد رکھو اس عمل کو اپنا وطیرہ نہ بنا لینا۔
یہاں ہم جیسے لوگوں کیلئے ’ضمیر‘ کا زندہ ہونا بہت اہم ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو ’ مردہ‘ ہی ثابت ہوتے ہیں کہ سیکڑوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیتے ہیں ہزاراہا افراد کو گھر کے نام پر موت کا گھر بیچ رہے ہیں مگر ’ضمیر‘ ہمیں ملامت نہیں کرتا۔
ایسے میں کیا ہوگا سوچتے رہیے ،کسی اچھی خبر کی ُامید میں کچھ نہیں جاتا مگر اچھے نتیجے اچھی کارکردگی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتے۔ کیا ہم لوگ اچھے نتیجے کیلئے کوئی منصوبہ رکھتے ہیں؟
اسی ممبرا میں ایسے بلڈربھی تھے جو ایک ہی فلیٹ کی بکنگ کئی کئی خریداروں سے کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ فلیٹ کسی ایک ہی کو دِیا جاتا تھا دوسرے کو ٹرخا دِیا جاتا تھا ان میںسے کتنے افراد کو روتے اور آہ بھرتے ہم نے دیکھا ہے۔
کیا مظلوموںکی آہ خالی جاتی ہے؟۔۔۔
ممبرا میںکئی مقامات پر فلیٹ کی خریداری کرنے والوں کیلئے مقامی مخلص تنظیموں کی جانب سے بینرس اور دیواروں پر یہ تحریر کر دِیاگیا تھا فلیٹ کی خریداری سے قبل تمام قوانین وضوابط کے تعلق سے چھا ن پھٹک کر لیں۔ اس طرح کے ا نتباہ کے باوجود ہم روایتی طور پر ہر کام آ نکھیں بند کر کے کر نے کے عادی ہیں۔ کوئی ٹوکے تو جواب ملتا ہے۔۔ ارے جو سب کے ساتھ ہوگا وہی توہمارے ساتھ بھی ہوگا۔ اگر ہم نے یہی رویہ آ ئندہ بھی اختیار کیا تو وہی ہوگا جو ماضی میں دوسروں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے ہی ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنے لئے خیر کا انتخاب کریں یا خرابی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔!
ممبرا میںحال یا مستقبل میں جوکچھ بھی ہوگا اس کے نتائج عوام کے حق میں بہر حال اچھے ہو نے کے امکانات نہیں ہیں۔ حالیہ بلڈنگ سانحے پر آ پ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ ممبرا میں اکثر مقامات پردلدلی زمین ہے اور اس دلدل کو ہمارے بھائیوں نے پاٹ کر اُس پر سات سات منزلوں کی عمارتیں کھڑی کر دِی ہیں۔ اسی طرح یہاں پہاڑی چٹانوں پر بھی آ پ کو سات سات منزلہ عمارتیں مل جائیں گی اور اس پر طرہ یہ کہ ان بلڈنگوں کیلئے جانے والے راستے اتنے تنگ ہیں کہ کہیں کہیں تو بلڈنگ سے مرنے والے کا جنازہ نکالنا مشکل کام ہوگا ۔ اب ذرا سوچئے کہ ان بلڈنگوں میں خدا ناخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کے پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!!
ہم یہ تو فوراًکہہ دیتے ہیں کہ فائر بریگیڈ والے بہت تاخیر سے آ ئے مگر یہاں تو وہ آئیں گے مگرکچھ کر نے کی حالت میں نہیںہونگے کہ آ پ کی بلڈنگ بنانے والوں نے کو ئی راستہ چھوڑا ہی نہیں۔
اس کے علاوہ صورت حال یہ بھی ہے کہ اکثر ہاؤ سنگ سوسائیٹیز کا نظام اس قدر خراب ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔ ایک نہیں یہاں کی بہت سی ہاؤ سنگ سوسائیٹیز کی حالت یہ ہے کہ ممبروں پر دو دو تین تین سال کا منٹیننس بقایا ہے۔ لگتا ہے کہ دینے کی نیت ہی نہیں رکھتے۔ کتنی ہی بلڈنگیں ایسی ہیں کہ جنکی ڈرینج لائن ٹوٹی پڑی ہیں۔ انسانی فضلہ یونہی بہہ رہا ہے اور مکین وہاں سے منہ پر رومال رکھے گزر جاتے ہیں۔ بعض بلڈنگوں کی ٹیریس کی ٹنکیوں میں پانی اووَر فلو ہو جاتا ہے اور رات گھنٹوں ہزارہا لیٹرپانی بہتا رہتاہے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی کہ اسی ریاست مہاراشٹر میں نہ جانے کتنے اضلاع کے دیہی علاقے بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں اور ہم یہاںاس طرح پانی کا ضیاع کر کے کفرانِ نعمت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ کیا اس جرم کی پاداش میں ہم اللہ کے عذاب کے مستحق نہیں ؟
تمام شہروں میں بلدیہ کا ایک قانون ہے کہ چار منزلہ سے زائد بلڈنگوںمیں لفٹ سسٹم لازمی ہونا چاہئے۔ یہاں ایک نہیں چار سے زائد منزلے کی کئی بلڈنگیں ہیں کہ جن میں لفٹ کا وجود تصور میں بھی نہیں ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس وقت اخلاقی طور پر بدی کی گھاٹیوں میں پڑے ہوئے ہیں اور بددیانتی کا عالم یہ ہے کہ جس کا لے لیا اس کو وقت پر دینا ضروری نہیں سمجھتے اگر دینے والا تقاضا کر لے تو جواب ہوگا: ’’ارے کیا تیرا مال کھا جاؤں گا؟۔۔۔۔ جاستی بول مت۔۔۔۔۔ جا ۔۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔۔۔ میں نہیں دیتا ۔۔۔۔تٗو کیاکر لے گا؟ ‘‘
اسی ممبرا کے لوکل ٹرین کے مسافروں کا حال بھی نہایت پست ہی نہیں بلکہ گھٹیا ہے۔ ہم دوسری قوموں کو حقارت سے دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا مجموعی کردار کس قدر گندا ہے۔ ہم یہ توکہتے پائے جاتے ہیں کہ دوسری قوم کے بلڈر دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے ہاتھ مکان نہیں بیچتے۔ یقیناً یہ کہنا آ سان ہے کہ یہ تعصب کی بنا پر ہوتا ہے۔ ہمارے بھائیوں کا عالم یہ ہے کہ ممبرا سے ایک صاحب فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ میںپان چباتے یا گٹکھاکھاتے ہوئے چڑھے اور حسنِ اتفاق کہ وِنڈو سیٹ بھی مل گئی اور اب تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنے منہ کی آلائش اُنہوں نے کھڑکی سے تھوکنا شروع کی، ایک چشم دید واقعہ سنئے : ایک صاحب بہت دیر سے یہ عمل کر رہے تھے ۔ ایک صحت مند نوجوان ملنڈ سے چڑھا اور پچھلے دروازے ہی پر کھڑے ہو کرہَوا خوری کر رہا تھاادھر وِنڈو سیٹ پر بیٹھے حضرت نے اچانک منہ سے پیک ماری اور وہ اُڑتی ہوئی اُس نوجوان کے سفید لباس کو رنگین کر گئی۔ وہ غیظ کی حالت میں آ یا اور چھوٹتے ہی ’نواب واجد علی شاہ‘ کے جانشین کے منہ پر ایسا گھونسا مارا کہ اب منہ سے پان کی لال پیک نہیں بلکہ ایک دانت سمیت خون کی پچکاری نکل پڑی۔’ گ‘ سے اُس نے ایک موٹی سی گالی دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جا، زِندگی بھر اب پان کھاتا رہ اور اب اگلا اسٹیشن آ چکا تھا وہ نوجوان ٹرین سے اُتر کر یہ جا اور وہ جا۔
بقرعید میں ممبرا میںعارضی مذبح بنتا ہے مگر اس کے باوجود کتنے لوگ اپنی بلڈنگ کے نیچے ہی جانور گرا کر ’’ قربانی ‘‘ کا مظاہرہ کر لیتے ہیں اور مذبوح جانور کی تمام آ لائش قریب نالے میں ڈال دیتے ہیں پھر یہ آ لائش ہفتوں علاقے کو ’’معطر ‘‘ کرتی رہتی ہے۔مجموعی طور پرکیا خواص اور کیا عوام، سب اخلاق کی جس پستی پر پہنچ گئے ہیں نتیجتاً وہاں ہمارا احساس بھی جیسے قدرت کی جانب سے چھین لیا گیا ہے۔ اگر اللہ کسی کو توفیق دیدے اور وہ کسی کو ٹوک دے تو بس پھر اس کا غضب جلوہ ٔداؤ د بن جاتا ہے۔ ہمارے ایک دلت دوست کا یہ تبصرہ جس نے ہمیں شرمندگی کے مارے خموش ہونے پر مجبور کر دیا تھا کہ ارے ندیم جی !ہم تو سمجھتے تھے کہ ڈی بھائی پاکستان چلا گیا مگر یہاں تو بہت سے ’ڈی بھائی‘ موجود ہیں۔
اس صورت حال میں کیا توقع کی جاسکتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ ایک بزرگ کا یہ جملہ یادآ تا ہے کہ اب میاں اللہ کے عذاب کا انتظارکرو۔
2010 میں ممبرا ہی کے ایم ایل اے نے ممبئی کے ایک اُردو اخبار میں انٹرویو کے دوران ممبرا کی غیر قانونی اور خستہ بلڈنگوں اور یہاں کے عوام کے بارے میںایک بات کہی تھی کہ’’ ممبرا کا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی تعمیرات ہیں، یہ شہر پل بھر میں قبرستان بن سکتا ہے مگریہاںکے عوام میں نہ سیاسی بیدار ی ہے اور نہ سیاسی شعور ۔‘‘
مگر ہم تو ہر بات ایک کان سے سننے اور دوسرے کان سے اُڑا دینے کے عادی ہے۔ نتیجہ۔۔۔۔ سب کے سامنے ہے ۔ یعنی ایم ایل اے نے صحیح کہا تھا کہ ’’ ہم میں نہ سیاسی بیدار ی ہے اور نہ ۔۔ شعور‘‘!۔۔٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *