علماء کونسل کی مایاوتی کو غیر مشروط حمایت ،کیا اتر پردیش کو دلت مسلم اتحاد پسند ہے؟
یوپی کو فرقہ پرستی اور غنڈہ گردی سے بچانے کے لئے راشٹریہ علماء کونسل سمیت اہم مسلم لیڈران نے مایاوتی کو کامیاب بنانے کی اپیل کی
’’یوپی کا الیکشن سر پر ہے. 11 فروری کو پہلے مرحلے اور 8 مارچ کو ساتویں اور آخری مرحلے کا چناؤ ہونے والاہے.اس الیکشن کی اہمیت غیر معمولی ہے . بی جے پی کامیابی کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، کیونکہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے اسے راجیہ سبھا میں اکثریت کی ضرورت ہے. چناوی مہم میں بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، سب کا ساتھ، سب کا وکاس کا نعرہ بالائے طاق رکھتے ہوئے پولرازیشن کی چال چلی جارہی ہے. رام مندر اور تین طلاق کا مسئلہ، لوجھاد اور گھر واپسی جیسے مسائل اچھالے جا رہے ہیں اور عوام کے جذبات کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھڑکانے کی جی توڑ کوشش ہورہی ہے‘‘ ان خیالات کا اظہار راشٹریہ علماء کونسل کےجنرل سیکریٹری حضرت مولانامحمد طاہر مدنی نے پریس اعلامیہ میں کیا انہوں نے کہا کہ ’’ نوٹ بندی کے برے نتائج سے یہ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ جس طرح باشعور عوام نے نس بندی کا جواب بیلٹ پیپر کے ذریعہ دیا تھا اور اندرا جی کو دھول چٹا دی تھی، اسی طرح مودی جی کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملادیں گے. اس لئے توجہ ہٹا نے کی کوشش ہورہی ہے. کہاں گئے اچھے دن؟ کیا ھوا وکاس کا نعرہ؟ مرکزی حکومت نے ڈھائی سال میں عوام کو کیا دیا؟ صرف دھنا سیٹھوں کا بھلا کیا اور عوام کو کمرتوڑ مہنگائی، بےروزگاری اور کسانوں کو خودکشی کی سوغات دی. اب حساب لینے کا موقع ہے. یوپی سے جو پیغام جائے گا اس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا. اس لئے یہاں ان کوہرانا بہت ضروری ہے‘‘۔
مولانا نے کہا کہ ’’یوپی میں ان کو کون روک سکتا ہے؟ ایک اہم سوال ہے. سماج وادی پارٹی پریوار کے جھگڑے میں بری طرح پھنس گئی. تمام پارٹیاں الیکشن کی تیاری میں تھیں اور یہاں لکھنؤ سے دھلی تک خاندانی جھگڑے کے ڈرامے کا سین چلتا رھا. ملائم سنگھ بیٹے کا ساتھ دیں یا بھائی کا؟ ایک درد سر بنا رھا. کچھ تجزیہ نگار یہ کہنے لگے کہ بیٹے کو استھاپت کرنے کے لیے یہ محض ایک ڈرامہ تھا، ملائم سنگھ کے بیانات بھی روز بدلتے رہتے ہیں. اس کھیل نے پارٹی کو بری طرح متاثر کردیا اور نیچے سے اوپر تک ھر جگہ دراڑ پیدا ھوگئی، مجبورا کانگریس سے سمجھوتا کرنا پڑا. وہ کانگریس جس نے دفعہ 341 میں دھرم کی قید لگاکر مسلمانوں اور عیسائیوں کو محروم کردیا، جس نے بابری مسجد کا تالا کھلوایا، وھاں شیلانیاس کرایا، بالآخر اسے شھید کروادیا، مسلمانوں کو فسادات کا لامتناھی سلسلہ دیا، سرکاری نوکریوں سے محروم کیا، اعظم گڑھ کے بےگناہ نوجوانوں کو نام نہاد بٹلہ ھاوءس فرضی انکاوءنٹر میں مروادیا، سیکڑوں بےگناھوں پر دھشت گردی کا الزام لگاکر ان کی زندگیاں برباد کردی اور مسلمانوں کو دلتوں سے بھی نیچے پہونچا دیا، اس کانگریس کا خونی پنجہ اب یوپی میں سائیکل کی ہینڈبل پر ہے. سماج وادی پارٹی نے 2012 میں مسلمانوں سے جو وعدے کئے تھے، ان کو بھلا دیا. فسادات پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی. بے گناھوں کو رہا نہ کیا اور ریاست میں ایک طرح سے غنڈہ راج ہوگیا، ضیاء الحق جیسے ایماندار افسر کو آن ڈیوٹی مروا دیا گیا. ..لہذاایسے لوگوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟
مولانا نے کہا کہ ’’اب لے دے کر بی ایس پی رھ جاتی ھے، ماضی میں محترمہ مایاوتی جی سے بھی شکایات رھی ھیں، لیکن ایسا محسوس ھوتا ھے کہ انھوں نے ماضی سے سبق سیکھا ھے اور ترقی و وکاس پر توجہ اور لااینڈ آرڈر درست کرنے کی بات کر رھی ھیں. سب کے ساتھ انصاف کی یقین دھانی کرائی ھے. حصہ داری اور شراکت کی بات کر رھی ھیں اور فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لیے دم خم دکھا رھی ھیں، قومی صدر کو یقین دلایا ھے کہ ایک بار ھم پر بھروسہ کریں اور ھمیں موقع دیں، ھم مایوس نہ کریں گے اور مسلمانوں کو بھی ان کا پورا پورا حق ملے گا اور ناانصافیوں کا خاتمہ ھوگا.لھذا کونسل نے ایک بار ان کو موقع دینے اور آزمانے کا فیصلہ کیا ھے‘‘.
راشٹریہ علماء کونسل کے صدر مولانا عامر رشادی کہتے ہیں’’اتر پردیش میں آر ایس ایس نے جہاں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے وہیں دلتوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔بی جے پی کے برہمنوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف دلتوں کا استعمال کیا ہے ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ برہمنوں کو سبق سکھایا جائے اور دلتوں کا ساتھ لیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے غیر مشروط بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’یقیناً یہ بہت بڑی قربانی ہے کہ ہم کہیں سے بھی اپنے امیدوار میدان میں نہیں اتار رہے ہیں بلکہ مایاوتی کا ساتھ دے کر ہم مستقبل کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔‘‘
دریں اثنا دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں سے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصا فیوں،زیادتیوں اور وعدہ خلافیوں پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے آج کہا کہ مسلمانوں کو سبز باغ دکھاکر ان کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آنے والی سیاسی پارٹیوں کو سبق سکھانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ خود کو مامون و محفوظ رکھنے کی کوشش میں ملک کے مسلمانوں نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت کرکے ان کو اقتدار تک پہنچایا لیکن ان پارٹیوں نے اقتدار میں آنے کے بعد ہمیشہ ہی ان کے ساتھ دھوکہ کیا،اس لئے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کوبطورمتبادل بہوجن سماج پارٹی کا انتخاب کرنا چاہئے۔اس طرح مسلم اوردلت ووٹوں کے ذریعے ریاست میں ایک مضبوط حکومت کا امکان پیدا ہوسکے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ خود کو سیکولر ہونے کا دعوی کرنے والی بعض سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو انصاف اور حق دلانے کا وعدہ کرکے اقتدار میں آجانے کے بعد ایسی پارٹیاں حکمرانی کے زعم میں مبتلاہوکر اپنے وعدوں سے مکر جاتی ہیں جس کی وجہ سے مسلمان ہمیشہ خود کو ٹھگاہوا محسوس کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اترپردیش میں سیاسی متبادل پرغورکریں اورناانصافی اوروعدہ خلافی کرنے والی سیاسی پارٹی کو باہرکاراستہ دکھائیں تاکہ مستقبل میں یہ سیاسی پارٹیاں ایساکرنے سے بازآئیں اورمسلمانوں کااستحصال کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کی طاقت کا احساس ہو۔ ورنہ ہرسیاسی جماعت مسلمانوں کو فٹ بال کی طرح استعمال کرکے اپنے مفادات کو پوراکرتی رہے گی۔ شاہی امام نے کہا کہ 2017 کے موجودہ اترپردیش اسمبلی انتخابات ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں کئی اعتبارسے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، اس لئے کہ یہ صرف ہمارے وطن عزیز کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہی نہیں کریں گے بلکہ ہمارے ملک کی مشترکہ تہذیب وثقافت اور فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے بھی دور رس نتائج کے حامل ہوں گے ،لہٰذا ہر محب وطن ہندوستانی کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے ووٹ کاپوری دانشمندی کے ساتھ استعمال کرے۔
امام بخاری نے کہا کہ جمہوری طرز حکومت میں کبھی کبھی ایسے مراحل آتے ہیں جب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ کونسی سیاسی طاقت ملک کو ٹھیک ڈھنک سے چلا پائے گی اور وطن عزیز کو ترقی اوربقا کی جانب لے جائے گی۔ ایسے نازک موقع پر بہت سوچ سمجھ کر اور دور رس نتائج کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہ کیاجائے تو قوموں اور ملکوں کامستقبل تاریک ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اترپردیش اسمبلی کے انتخابات سے پیدا ہوگئی ہے،لہٰذا اب اترپردیش کے عوام کو ایک نئی حکومت بنانے کافیصلہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہئے کہ سماجوادی پارٹی پانچ سال تک اترپردیش میں برسراقتدار رہی۔ اس پارٹی نے اس پوری مدت میں مسلمانوں کو کیا دیا؟ اس کاجواب ہے محرومی، حق تلفی، بے روزگاری، مظفرنگر، کوسی کلاں متھرا، ڈاسنہ غازی آباد وغیرہ اوراسکے علاوہ 400 سو سے زائد خونریز فسادات اوردادری میں محمد اخلاق اورکنڈہ (پرتاپ گڑھ) میں ڈی ایس پی ضیاء الحق کاقتل اورمسلمانوں کا جذباتی استحصال ۔ امام بخاری نے سوال کیا کہ آخر کاراترپردیش میں مسلمانوں کی اس بدحالی کا ذمہ دارکون ہے؟ ان کا خیال ہے کہ اس کیلئے سماجوادی پارٹی زیادہ ذمہ دار ہے جس کاواضح ثبوت 2012 کا سماجوادی پارٹی کا انتخابی منشور ہے جس میں اس نے مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن دینے ، رنگناتھ مشرا کمیشن اورسچرکمیٹی کی سفارشات کانفاذ،مسلم اکثریت والے اضلاع میں سرکاری تعلیمی اداروں کا قیام،بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی،سرکاری اردومیڈیم اسکولوں کاقیام،سیکورٹی فورسیز میں مسلمانوں کی بھرتی، درگاہ ایکٹ،تمام سرکاری کمیشنوں اورکمیٹیوں میں اقلیتی نمائندکا تقررکیا جانا،وقف جائیدادوں کاتحفظ اورغریب بنکروں کو مفت بجلی کی فراہمی جیسے وعدے کئے گئے تھے۔ امام بخاری نے کہا کہ اس کے علاوہ اس نے مسلمانوں سے متعلق تحریری طورپروعدے کئے گئے لیکن عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔انہوں نے اس بات پر ا فسوس کا اظہار کیا کہ تھانوں سے لیکر ہرسرکاری محکمہ میں یادؤں کو بھرتی کیاگیا مگر مسلمانوں کے ساتھ فرقہ پرستی کا مظاہرہ ہوا،جس کا واضح ثبوت ملائم سنگھ یادو کے وہ بیانات ہیں جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اکھلیش یادو نے مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے بغیر سیاسی استحکام قطعاً ممکن نہیں اور مسلمانوں کو بھی یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ کوئی پارٹی ہماری مجبوری نہیں ہے۔ بس مسلمانوں کواتناکرناہے کہ سیاسی پارٹیاں یہ سمجھ لیں کہ مسلمان ہماری ضرورت ہیں اور ان کی حمایت کے بغیر وہ اقتدار تک نہیں پہنچ پائیں گی۔
اما م بخاری نے دعوی کیا کہ سماجوادی پارٹی سمیت کئی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ انہیں ووٹ دینا مسلمانوں کی مجبوری ہے۔ لیکن اب مسلمانوں کو ان کی یہ غلظ فہمی دورکردیناچاہئے اور یہ بتادیناچاہئے کہ جب تک ہمارے مسائل کاحل نہیں ہوگا، اترپردیش میں سیاسی استحکام کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اترپردیش کا مسلمان مسلم غلبے والے حلقوں سے یادو امیدواروں کو کامیاب بناکر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھیجتارہا ہے۔ مگر یادوکبھی بھی مسلم امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سماجوادی پارٹی نے صرف یادوؤں کو فروغ دینے کاجوکھیل کھیلاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ریاست میں کوئی ایسی سرکاری جگہ نہیں ہے جہاں یادوموجود نہ ہوں جبکہ اترپردیش میں 20فیصدآبادی والے مسلمانوں کیلئے اس سرکارکے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔
شاہی امام نے دعوی کیا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اترپردیش کامسلمان مسلسل محرومیوں ، ناانصافیوں اورزیادتیوں کی وجہ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سیاسی طورپر خودکو لاوارث، بے بس اور بیکس سمجھ رہاہے اور اس بدحالی کیلئے وہ ان نام نہاد سیکولرپارٹیوں کو ذمہ دارسمجھتے ہیں جنہوں نے پچھلے 60 سال تک مرکز اورریاستوں میں راج کیااور مسلمانوں کو دلتوں اور دیگرپسماندہ طبقات سے بھی زیادہ پیچھے دھکیل دیا۔ اس کاواضح ثبوت سچرکمیٹی کی رپورٹ ہے جو ان سیکولر جماعتوں کیلئے آئینہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں مسلمانوں کو اس سلسلے میں سنجیدہ طور پر غورکرنا ہوگا اورہر ایسی سیاسی جماعت کو باہر کاراستہ دکھاناہوگا جس نے مسلمانوں کااستحصال کیاہے۔ اسی صورت میں ہی ان سیاسی جماعتوں کو سبق مل سکے گا۔ اترپردیش کے مسلمانوں کودوسروں کے بکھرنے اورجیتنے کی فکرکرنے کے بجائے اپنے سیاسی وجود کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ان کا خیال ہے کہ اترپردیش کی سیاست کی چابی اس وقت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔