شہر بلڈانہ میں علم کی جوت جگانے والا نوجوان آنٹرپرینر

دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی سے محض پانچ سو کلومیٹر دوری پر واقع شہر بلڈانہ اپنی خوبصورتی و رعنائی کے ساتھ خوشگوار موسم کے لئے بھی خاصا مشہورہے۔اجنتا کے پہاڑی سلسلوں پر بسا یہ شہر تعلیمی اعتبار سے بھی کافی شہرت رکھتا ہے۔ ۸۲فیصد شرح خواندگی کے ساتھ اسے مہاراشٹر کے تعلیمی مراکز میں سے ایک شمار کیا جانے لگا ہے۔پہاڑی سلسلہ،لونار جھیل اور تاریخی مندروں نے جہاں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے وہیں قرب و جوار کےطلبہ و طالبات اسے ’’گیان کا مندر‘‘سمجھ کر علم کی موتی سمیٹنے آتے ہیں۔
تہذیب و ثقافت کا مرکز رہے شہر بلڈانہ کی سنگلاخ زمینوں پر آنکھیں کھولنے والے کاشف احمد شیخ ،اب ’’گیان کے مندر‘‘پر ’’علم کا محراب‘‘تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پلاننگ اینڈ مینجمنٹ دہلی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرس کرنے والے اس نوجوان نے محض چند برس میں ایسے مراکز کی داغ بیل ڈالی ہے کہ کتنی ہی زبانیںاس کی سلامتی کے لیےدعا گو نظر آتی ہیں۔ تعمیرات کے باب میں کم قیمت پر ضرورت مندوں کو رہائشی مکانات مہیا کرنے والا ’’نیشنل بلڈر اینڈ ڈیولپر‘‘ہو یا ’’کریمیڈیا مارکیٹنگ اینڈ ایچ آر سروسیزپرائیویٹ لمیٹڈ‘‘کے ذریعہ سیکڑوں نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کی کوشش،’’پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کلب‘‘کے ذریعہ ہنر مندوں کو نکھارنے کا بیڑا ہو یا پھر ’’نیل برٹ انسٹی ٹیوٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ‘‘کے زیر انتظام چلایا جا رہا’’ گلوبلیز ایجوکیشنل زون‘‘ان تمام کی سربراہی اس ناتواں کاندھے پر ہے جس نے ابھی ٹھیک سے تیس بہاریں بھی نہیں دیکھی ہیں۔

بلڈانہ سے ملکا پورکا راستہ گوکہ بل کھاتی پہاڑیوں اورسرسبز و شاداب وادیوں کا نظارہ کراتا ہے لیکن کاشف احمدشیخ کی ہونڈا سٹی کار میں وہ موقع میسر نہیں آیا کہ پسندیدہ مناظر کو قید کیا جاسکے۔سیٹ بیلٹ باندھتے ہی وہ معیشت ڈاٹ اِن سےکہتے ہیں’’میری عمر کے لڑکے آج بھی ان پہاڑوں پر مٹر گشتیاں کرتے نظر آجاتے ہیں۔وہ پڑھتے ہیں ،محض زندگی جینے کے لیے، لیکن میں زندگیوں کے ساتھ جینا چاہتا ہوںـ‘‘۔ شریعت پر عمل آوری کو سعادت سمجھنے والے کاشف کے معمولات بھی رات دیر گئے ختم ہوتے ہیں تو صبح سویرے شروع بھی ہوجاتے ہیں ،وہ کہتے ہیں’’معاشی ،سماجی اور تعلیمی جد و جہد کو میں احسن انداز میںصرف اسلئے نبھا پاتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہا ہے کہ لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعٰهَا(سورہ بقرہ ۲۸۶)جب میرا رب خود ہی کہہ رہا ہے کہ میں کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا تو پھر جو کچھ بھی میں کر پا رہا ہوں اس میں اللہ کا بڑا کرم شامل حال ہے۔‘‘
اپنے خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے متفکر رہنے والے کاشف احمدشیخ نےپانچ برس قبل جب تعلیم مکمل کی تو ان کے پاس دو آپشنس تھے یا تو مستقل کہیں اچھی ملازمت کرلیں یا پھر گھرپر والدین کا ہاٹھ بٹائیں ۔ لیکن انہوں نےمالک و ملازم کے رشتے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ملازمت کی راہ پکڑی، اورنیکسٹ مین پاورڈاٹ کام کے ساتھ ایکوگرین نیو نئی دہلی میںمارکیٹنگ ایکزکٹیو بن گئے۔جب دھوپ چھائوں کے احساس نے مردم شناسی کا ہنر سکھایا تو وطن واپسی کے ساتھ ہی ’’پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کلب‘‘کی بنیاد رکھی اور ان لوگوں کو ٹرینڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو ہنر مندی کے باوجود ہنر کا جوہر دکھانے سے قاصر رہتے تھے ۔‘‘ کاشف کہتے ہیں’’میرے انسٹی ٹیوٹ سے کافی بچے مستفید ہوئے ہیں اب تو معاملہ یہ ہے کہ مجھے دوسرے کالجوں سے گیسٹ لیکچر کا بلاوا رہتا ہے اور میں بغیر فیس لیے ان کے بچوں کو ٹرینڈ کرتا ہوں‘‘۔شاید ’’پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کلب‘‘کی کامیابی ہی تھی کہ انہوںنے ’’نیل برٹ انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ‘‘کی بنیاد رکھی جسے علاقے میں کافی سراہا گیا۔لیکن کہتے ہیں کہ ’’گیان کی دیوی بڑے دھیان کے بعد آتی ہے‘‘ انسٹی ٹیوٹ تو کسی طرح چلتا رہا لیکن اس خلوص بھر ے عمل پر’’ فلوس‘‘کی مار پڑنے لگی اور تمام محنتوں کے باوجود ’’راس المال‘‘میں وہ اضافہ درج نہیں ہوا جو کسی بزنس میں ہوا کرتا ہے۔لیکن خلوص ’’فلوس‘‘کے کن دروازوں کو وا کرتی ہے اس کا بہتر اندازہ صرف کاشف ہی لگا سکتے ہیں ،وہ معیشت ڈاٹ اِن سے کہتے ہیں’’ایک روز ہمیں بلڈر بننے کا شوق سوار ہوا اور ہم نے اپنی زمینوں پر تعمیراتی کام شروع کروادیا ،پہلا ہی پروجیکٹ اس قدر منافع دے گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آگے کی راہیں کھول دیں اور پھر میں تعلیم کے باب میں دوبارہ یکسو ہوگیا۔‘‘
ملک و ملت کا درد بانٹتے ہوئے وہ بچوں میں تعلیم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’بڑوں کے لئے تو ہم نے بہت سے کورس چلا رکھے تھے لہذا اب باری بچوں کی تھی کہ ان کے لیے کیا کیا جائے۔لہذا یہ طے پایا کہ ’’گلوبلیز ایجوکیشنل زون‘‘بنایا جائے جہاں ہم اپنے بچوں کی مکمل رہنمائی کر سکیں۔کیونکہ جب بچپن محفوظ ہوگا تو جوانی میں ایک طالب علم اپنی گاڑی خود بھی کھینچ سکتا ہے،لہذا ہم نے اپنی زمین پر تعلیمی سلسلہ شروع کیا اور چھوٹے بچوں کو ٹیوشنس دینے لگے۔اب تو حالت یہ ہے کہ لوگ دوسروں کے یہاں سلسلہ منقطع کرکے ہمارے یہاں اندراج کرا رہے ہیں تاکہ بچوں کی بنیاد مضبوط بن سکے‘‘۔
شہر بلڈانہ کو مردم خیز علاقہ قرار دیتے ہوئے کاشف کہتے ہیں’’اس علاقے میں ایسے بہت سے اداروں کی ضرورت ہے جو علم کی جوت جگا سکیں ،یقیناً یہاں پڑھنے پڑھانے کا ماحول ہے لیکن کوالیٹی تعلیم کہیں نہیں دی جارہی ہے لہذا جو لوگ بھی کوالیٹی کے ساتھ آئیں گے تو ان کے پاس بچوں کی بھیڑ لگ جائے گی۔ہم نے جب سے محنت کے ساتھ بچوں کو ہنر مند بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو روایتی تعلیم دینے والوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔اب ہر ادارہ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ معیار تعلیم کو بہتر کس طرح کیا جائے، لہذاوہ اس جانب توجہ دے رہے ہیں‘‘۔
شہر کے سرکردہ لوگوں میں خاصی پیٹھ رکھنے والا یہ نوجوان آنٹرپرینر معیشت ڈاٹ اِن سے کہتا ہے’’چار پانچ برس کے عرصہ میں میں نے تعلیم و سماج کے لیے ایسے کام کئے ہیں کہ اب شہر کا ہر سنجیدہ آدمی میرے ادارے سے وابستگی پر فخر محسوس کرتا ہے۔دراصل جب آپ لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کریں گے توغیب سے ایسی مدد ہوگی کہ جس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔میں نے اپنے سفر میں بارہا ایسا محسوس کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو میری حمایت میں کھڑا کردیا ہے کہ جن سے کبھی توقع بھی نہیں تھی کہ وہ میری مدد کے لیے سامنے آئیں گے ۔لہذا نیکی کا فروغ اور برائی سے اجتناب میرے معمولات میں شامل ہے‘‘۔