Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ترک سیاسی نظام میں عظیم تبدیلی کا امکان ،ملک کی اکثریت اردگان کے ساتھ

by | Feb 12, 2017

ترکی کےصدر رجب طیب اردگان

ترکی کےصدر رجب طیب اردگان

موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے، گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں، اوسطا ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی:طیب اردگان

انقرہ:(ایجنسی)ترکی میں انتخابات کے محکمے نے سولہ اپریل ۲۰۱۷؁ کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر رجب طیب اردوغان نے جمعہ کو اصلاحات کے بل پر دستخط کیے ہیں جس سے رائے شماری کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ان تجاویز کے تحت جدید ترکی میں پہلی بار ایگزیکٹیو پریزیڈنسی کا قیام عمل میں لانے کے لیے کہا گیا ہے۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد ہوں گے جس کے لیے ممکنہ تاریخ تین نومبر 2019 ہے۔جنوری میں ترک پارلیمان نے آئین کے آرٹیکل 18 کی منظوری دی تھی تاہم اس موقع پر پارلیمان میں ہاتھا پائی بھی دیکھنے کو ملی۔
اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک ریاست کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کے لیے یہ ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔
ترک صدر رجب طیب اردگان ملک میں موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی جمہوری نظام قائم کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اردگان کا یہاں تک کہنا ہے کہ ترکی کے سیاسی نظام کی مخالفت کرنے والے ترکی کے دشمن ہیں۔ممکن ہےکہ نئی اصلاحات کے تحت ملک کے وزیراعظم کا عہدہ موجودہ وزیراعظم بن علی یلدرم کے بجائے کسی اور شخصیت کے پاس جائے گا یا پھر اس عہدے کے جگہ نائب صدر لیں گے۔
سیاسی تبدیلی کے بعد ترک صدر کو صدارتی حکم نامے جاری کرنے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تقرری کرنے جیسے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ اس تبدیلی کے بعد ممکنہ طور پر موجودہ صدر اردگان نیٹو کی اس رکن اور یورپی یونین میں شمولیت کی خواہاں ریاست کی باگ ڈور سن 2029 تک اپنے ہاتھوں میں رکھ سکیں گے۔
اردگان کے حامیوں کی رائے میں ترکی میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال، عراق اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام، داعش اور کرد جنگجوؤں سے لاحق خطرات کے تناظر میں سیاسی نظام کی تبدیلی ملکی استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کے خاتمے کی ضامن ہے۔
دوسری جانب مخالفین کو خدشہ ہے کہ صدارتی نظام سے ملک میں آمریت کا خدشہ ہے۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے پہلے ہی ہزاروں عام شہری، اساتذہ، صحافی، اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ملازمین زیر حراست ہیں۔
اردگان اس ریفرنڈم میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی نظام میں تبدیلی نہ لانے کا فائدہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سمیت دیگر ملک دشمن قوتوں کو پہنچے گا۔ حکومت کے حامی ایک تھنک ٹینک کے اہتمام کردہ ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اردگان کا کہنا تھا، ’’سیاسی تبدیلی کی مخالفت کون کر رہا ہے؟ پی کے کے مخالفت کر رہی ہے۔ وہ لوگ جو اس ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، وہ مخالفت کر رہے ہیں اور وہ لوگ مخالفت کر رہے ہیں جو ترک قومی پرچم کے خلاف ہیں۔‘‘
اردگان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور گزشتہ 93 برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں۔ اوسطاً ایک حکومت صرف 16 مہینے قائم رہی۔ترکی میں اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیں، سی ایچ پی اور ایچ ڈی پی سیاسی نظام میں تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے ملک میں طاقت کا توازن ختم ہو جائے گا اور پہلے ہی سے طاقت ور اردگان کا اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔
اردگان کی ہر تقریر کی طرح ہفتے کے روز کی گئی تقریر کو بھی ملک کے تقریباسبھی نشریاتی اداروں نے براہ راست نشر کیا۔ سی ایچ پی کے سربراہ نے انقرہ میں صحافیوں سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا، ’’یہ ریفرنڈم شفاف طریقے سے نہیں ہو گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اردگان کا حامی میڈیا اپوزیشن جماعتوں کا موقف عوام تک نہیں پہنچائے گا اور عوام کو یہ تاثر دیا جائے گا کا ہم ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔‘‘
ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے مطابق اپوزیشن جماعت ایم ایچ پی کی ایک اہم خاتون سیاست دان میرائل اکشنر ہفتے کے روز اپنے حامیوں سے خطاب کرنے لگیں تو ہوٹل کی انتظامیہ نے، جو اردگان کی حامی تھی، بجلی بند کر دی جس کے باعث اکشنر کو میگا فون کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کرنا پڑا۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...