دانش ریاض برائے معیشت ڈاٹ اِن
غالباً یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے جب پہلی مرتبہ میں نے دہلی کی کسی لائبریری میں بیٹھ کر عالم نقوی کو پڑھا تھا۔مضمون کی سرخی تو آج تک یاد ہے’’ایک قدم آگے دو قدم پیچھے‘‘۔پوکھرن نیوکلیائی دھماکے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قلعی جس خوبصورتی کے ساتھ عالم صاحب نے کھولی تھی اس نے مجھے وہیں ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔پھر جہاں کہیں موصوف کی کوئی تحریر نظر سے گذرتی پہلی فرصت میں اس کا مطالعہ کر تا اور عش عش کر اٹھتا۔ اسی دوران روزنامہ اخبار مشرق (دہلی) سے وابستگی ہوئی اور ادارتی صفحہ کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ایک روز میں نے عالم صاحب کا مضمون کسی اخبار سے لے کر ادارتی صفحہ پرلگا دیا جو بغیر کسی نظر ثانی کےشائع بھی ہوگیا،دوسرے روز دوپہر کے وقت جب آفس پہنچا تو اخبار کے مالک و مدیرجناب وسیم الحق صاحب کواپنا منتظر پایا۔موصوف نے اپنے کمرے میں بلا کر مجھ سے پوچھا ’’میاں تم نے جن صاحب کا مضمون آج لگایا ہے کیا انہیں جانتے ہو؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔پھر انہوں نے کہا کہ ’’کیا تم نے مضمون پڑھا تھا؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔پھر اپنے خاص انداز میں گویا ہوئے ’’میاں تم میرا اخبار بند کروا دوگے‘‘۔
عالم صاحب کی تحریر کا تعارف جب اس انداز میں ہوا تو میں اس جستجو میں رہنے لگا کہ آخر ان کی تحریریں کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں اور پھر روزنامہ اردو ٹائمزممبئی جس مقامی لائبریری میں آتا تھا وہاں ہفتے میں دو چکر لگنے لگے۔وقت سبک روی کے ساتھ گذرتا رہا اور میں زمانے کے نشیب و فرازکا سامنا کرتا رہا۔دہلی میں قیام کے دوران ہی جب روزنامہ راشٹریہ سہارا شائع ہوا تو ادارتی صفحے پر میرے مضامین بھی شائع ہونے لگے اور باقاعدگی سے اس کا معاوضہ بھی موصول ہونے لگا۔صحافت جو محض ایک شوق تھا اس کی ادائیگی سے یقیناً ایک طالب علم کو خوشی ہی حاصل ہو سکتی تھی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد طبیہ کالج سے یونانی میڈیسین میںبیچلر ڈگری حاصل کرتے ہوئے جب میں نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا تو اپنا مضمون راشٹریہ سہاراکے علاوہ روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی میں بھی بھیجنے لگا اور اسی دوران محترم عالم نقوی صاحب سے قربت بھی بڑھی ۔جب میں نے بی یو ایم ایس کی تعلیم ترک کرکے باقاعدہ صحافت میں اپنی قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تو عالم صاحب نے ممبئی آنے کا مشورہ دیا اور پھر اردو ٹائمز کا دفتر اور عالم نقوی صاحب کی صحبت نے زندگی کو ایسا موڑ عطا کیا کہ آج تک اس کے اثرات طاری ہیں۔
روزنامہ اردو ٹائمز(ممبئی )میں کام کرتے ہوئے جب نیوز ایڈیٹر نےفنی خامیوں کی آڑ میں کچھ اور ہی گُل کھلانا شروع کیا تو عالم نقوی پشت پناہ بن کر سامنے آئے اور صرف یہ کہا کہ ’’تم جو کچھ بھی لکھا کرو اب اس کی تصحیح مجھ سے کروالیا کرو‘‘ہفتوں یہ سلسلہ چلتا رہا کہ جب کوئی خبر بناتا تو اس کی تصحیح عالم صاحب خود کر دیا کرتے تھےبعد میں جب ان کی ذمہ داریاں بڑھتی گئیں تو پھریہ ذمہ داری انہوں نے جناب شحیم خان صاحب کے سپرد یہ کہہ کر کردی کہ ’’اسے لکھنا آتا ہے،زبان بھی جانتا ہے بس صحافتی الفاظ کو برتنے کا سلیقہ نہیں ہے ،آپ اس کی تربیت کریں اب یہ ذمہ داری آپ پر ہے‘‘۔
صحافتی میدان میں نئی نسل کی تربیت اور نئے آنے والوں کا خیر مقدم میں نے عالم نقوی سے پہلے کسی اور میں نہیں دیکھا ،ملک بھر میں ایسے سیکڑوں لوگ مل جائیں گے جنہیں لکھاری بنانے میں عالم صاحب نے ہی اہم رول ادا کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ صاف گو ہوتے ہیں ہمارے سما ج میں ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔عمومی مزاج تو یہ ہے کہ سماج ان تملق پسندوں کو پسند کرتا ہے جو ہمیشہ کسی نہ کسی کی جی حضوری کرتے رہے ہوں ۔انعام و اکرام بھی ان ہی لوگوں کے کھاتے میں جاتا ہے جو جوڑ توڑ کے ماہر ہوں۔ دہلی کے ایک صحافتی ادارے نے جب ملی صحافتی خدمات کے عوض صحافتی ایوارڈ کا اعلان کیا تو میں نے محترم عالم نقوی صاحب کا نام پیش کیا۔لیکن اسپانسرس میں شامل ایک صاحب نے یہ کہتے ہوئے ان کے نام کوکاٹ دیا کہ ’’ہماری کمیونیٹی میں عالم نقوی کی تحریروں کو پسند نہیں کیا جاتا اور انہیں متنازع سمجھا جاتا ہے لہذا یا تو آپ ان کے نام کو ڈراپ کریںیا پھر مجھ سے اسپانسر شپ نہ لیں‘‘۔ اور آخر کار عالم صاحب کا نام ڈراپ ہوگیا اور موصوف کےاسپانسر شپ کے ذریعہ صحافتی جشن منا لیا گیا۔
ہندوستان میں اردو صحافیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو روزی روٹی کے لیے ہر وہ جائز و ناجائز کام کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے جسے اردو صحافت کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرنا چاہئے۔لیکن عالم نقوی نے اپنے صحافتی کریئر میں کبھی ان اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا جو انہوں نے اپنے طور پربنا رکھا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہائی وے سے متصل جب انہیں ممبرا میں لب سڑک انتہائی خوبصورت فلیٹ میسر آیا تو وہ محض چار لاکھ کی رقم جمع کرنے سے قاصر رہے جسے بعد میں بلڈر نے بڑے اچھے داموں بیچ دیااور عالم صاحب کا ڈائون پیمنٹ واپس کردیا۔ان دنوں عالم صاحب نےاس ادارے کے علاوہ جہاں وہ ملازمت کر رہے تھے کسی اور سے قرض لینا صرف اسلئے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں وہ اس قرض کی آڑ میں کوئی غلط فائدہ نہ اٹھا لے جس سے ادارے کے مالکان کو سبکی ہو۔
کردار وگفتار میں یکسانیت بہت کم لوگوں میں دکھائی دیتی ہے چہ جائے کہ کسی کی تحریر بھی اس کے کردار کی غماز ہو۔عالم نقوی اس معاملے میں بھی یکتا نظر آتے ہیں ۔جو سوچتے ہیں وہ لکھتے ہیں اور جو لکھتے ہیں مجلسوں میں اسی کا اعادہ بھی کرتے ہیں۔مسلکی منافرتوں کی آندھی میں عالم نقوی بہہ نہیں جاتے بلکہ وہ ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جنہیں وہ اپنے تجزیہ کی روشنی میں حق پر سمجھتے ہیں ایسے میں اگر کوئی ان پر مذہبی یا مسلکی عصبیت کا الزام لگائے تو یہ صرف اس کی کم فہمی یا عالم نقوی کو نہ جاننے پر ہی محمول کیا جائے گا۔عالم نقوی نے بعض دفعہ جہاں سعودی عرب کی پشت پناہی کی ہے وہیں ایران کو کٹہرے میںبھی کھڑا کیا ہے جبکہ ممبئی کی سماجی و فلاحی تنظیموں کو راست طور پر ایسے مشورے بھی دئے ہیںکہ جس سے مسلکی منافرت کی صورتحال میں تبدیلی رونما ہوسکے۔
اس وقت جبکہ صحافت نے اپنی دنیا بدل لی ہے اور ’’زرخرید صحافت ‘‘عام ہوتی جار ہی ہے عالم نقوی جیسے صحافیوں کی موجودگی یقیناً نئی نسل کو حوصلہ دیتی ہے۔وہ لوگ جو صاف و شفاف صحافت کی قدر کرتے ہیں اور اس کا ترجمان بننا چاہتے ہیں انہیں ان جیسے لوگوں کی مثال دے کر رام کیا جاتا ہے کہ ’’یقیناً حالات خراب ہیں ۔صحافت اب ایک منڈی بن چکی ہے جہاں ہر صحافی اپنی بولی لگوا رہا ہے ۔وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو انتہائی کسمپرسی کے عالم بھی امید کی کرن بنے ہوئے ہیں‘‘۔
یقیناً اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ان صحافیوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے اردو صحافت کی عصمت کو بچائے رکھا ہے اور ایسے لوگوں کو منظر عام پر لایا جائے جن کے نام سے نئی نسل نا آشنا ہو تی جا رہی ہے کہ وہ میراثِ صحافت بھی ہیں اور میراثِ قوم بھی۔