Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

تنقید کا کام ذوقِ ادب کی آبیاری کرنا ہے: پروفیسر شمیم حنفی

by | Mar 29, 2017

سیمینار ممبئی یونیورسٹی

جامعہِ ممبئی میں شعبہ اُردو کے زیر اہتمام’’اُردو تنقید: مقصود ومنہاج‘‘ جیسے موضوع پر نہایت وقیع سمینار کا انعقاد
ممبئی : ۔(ندیم صدیقی اور پریس ریلیز)’’ اُردو تنقید: مقصود ومنہاج ‘‘اس موضوع نے میرے ذہن میں بہت سے سوال پیدا کیے ہیں۔ میری تشویش کا سبب ایک یہ ہے کہ فی زمانہ ادب کا ذکر کم اور تنقید پر توجہ زیادہ دی جارہی ہے۔ ایک عام رویہ ہے کہ کسی بھی ادب پارے کے بارے میں فیصلہ نقاد کے ہاتھ ہوتا ہے قاری کے ہاتھ میں نہیں ۔ یہ باتیں آج جامعہ ممبئی کے شعبۂ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ دو رَوزہ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں ممتاز ناقد اور دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہیں۔
سمینار کا کلیدی خطبہ مشہور ناقد پروفیسر قاضی افضال حسین نے دِیا جس میں اُنہوں نے اُردو تنقید کی ترقی کے لیے( اردو کی) ادبی و لسانی روایت پر از سر نو غور کرنے کو ناگزیر قراردیا۔قاضی موصوف نے مزید کہا کہ تنقید کا بنیادی مقصدمتن کی قدرو قیمت کا تعین کرنا ہے اور اس عمل میں وہ(تنقید) ادب اور زندگی کی ان اقدار کو دریافت کرتی ہے جن سے تہذیب و معاشرت کا ارتقائی سفر عبارت ہے۔پروفیسر افضال حسین نے تنقید کے مختلف نظریات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ نظریات ادبی متن کی تشکیل میں زبان اور موضوع کی معنویت و افادیت کو خواہ کتنے ہی حوالے پیش کیوں نہ کرتے ہوں تاہم ان کا محور بہرحال وہ انسان ہے جس کے بغیر دنیا کے کاروبار کا چل پانا ممکن نہیں ہے۔ قاضی افضال کا یہ کہنا بھی توجہ طلب تھا کہ مغرب سے در آمد نظریات کے ساتھ ہی مشرق کے ادبی تصورات سے واقفیت اردو تنقید کو ثروت مند بنا سکتی ہے ۔
صدارتی خطبے سے قبل صدر شعبہ ٔ اردو پروفیسر صاحب علی نے استقبالیہ تقریر میں تنقید کی اہمیت اور ضرورت پر کلام کیا انہوں نے اپنی تقریر میں سمینار کی غرض و غایت پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سمینار کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ ادب کے طالب علم کو تنقید سے قریب کیا جا سکے کیوں کہ تنقید کو ایک خشک موضوع جان کر قاری عموماً اس سے دور رہنے ہی میں عافیت سمجھتا ہے۔اپنی خیر مقدمی جامع تقریر میں انھوں نے اردو کی تنقیدی روایت کے مختلف مراحل کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ فی زمانہ تخلیقی ادب کے معیار پر فکر مندی کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ تنقید نے اپنے اس مقصد کی تکمیل میں کوتاہی برتی ہے ۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ دو روزہ قومی سمینار اردو تنقید سے متعلق مباحث کو جہاتِ نو سے متعارف کرائے گا۔
پروفیسر شمیم حنفی نے صدارتی خطبے میں یہ بھی کہا کہ تنقید نہ صرف تخلیق کی خوبیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ وہ تخلیق، تخلیق کار اور قاری کے درمیان ایسا ربط پیدا کرتی ہے جو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ناگزیر ہے اور اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اچھی تنقید ادب پڑھنے کا لالچ پیدا کرتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ تنقید کا کام ذوقِ ادب کی آبیاری کرنا ہے تاکہ ادب کا قاری تخلیقی متون میں رواں زندگی کی حرارت کو محسوس کر سکے اور اگر تنقید یہ کام نہیں انجام دے رہی ہے تو وہ لائقِ اعتنا نہیں ہے۔پروفیسر حنفی نے معاصر اردو تنقید میںنظریات کی بھرمار اور ان کے اظہار میں مشکل زبان کے استعمال کو غیر مستحسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ تنقید نگار وں کے اس رویے کے سبب قاری اور تنقید کے درمیان رابطہ روز بہ روزکمزور ہو تا جا رہا ہے اور اس رابطہ کو محکم بنائے کے لیے تنقید میں تخلیقی حسن پیدا کیا جائے ۔ پروفیسر شمیم حنفی کا خطبہ کیا تھا علم و ادب کا ایک دریا رواں تھا۔ جسے پوری انہماک سے سنا گیا۔ موصوف نے تنقید کی تاریخ کے جھروکے بھی کھولے اور اپنے سامعین کو ماضی کے اس سنہرے دور میں پہنچا دیا جوتنقید کی بہار کا زمانہ سمجھا جاتا ہے آل احمد سرور، احتشام حسین ہی نہیں شمیم حنفی نے اپنے استاد ستیش چندر دیو جیسے ایک ایسے صاحبِ مطالعہ کا بھی تذکرہ کیا کہ جن کا ہر لمحہ مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ موصوف نے دورِ جدید کے ممتاز ناقد خلیل الرحمان اعظمی کو بھی یاد کیا،انہوں نے بتایا کہ اعظمی نے اپنی طالب ِعلمی ہی کے زمانے میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور انہوں نے اُس زمانے میں جو کچھ لکھا اس کی بڑی اہمیت ہے۔ بالخصوص مرزا غالب پر ان کا کام مثالی ہے۔ شمیم حنفی نے تنقید اور تنقید نگاروں کے حوالے سے ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بہت اہم تنقیدی کام کیا مگرجوبنیادی طور پر تخلیق کار تھے جن میں انہوں نے قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کا بالخصوص نام لیا۔ انہوں نے بتایا کہ انتظار حسین کے بارے میں (شمس الرحمان)فاروقی کا یہ کہنا بجا ہے کہ’’ وہ تو اچھا ہوا کہ انتظار حسین فکشن وغیرہ کی طرف متوجہ رہے اگر وہ تنقید ہی کو اپنا موضوع بنا تے تو ہم لوگوں کی چھٹی ہوجاتی۔‘‘ پروفیسر حنفی کا کہنا تھا کہ عینی(قرۃ العین حیدر) کو ہمارے ہاں ناول نگار تو سمجھا ہی جاتا ہے مگر انہوں نے تنقید کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ شمیم حنفی نے تنقید کے ضمن میںفراق گورکھ پوری کو بھی یادکرتے ہوئے بتایا کہ رگھوپتی سہائے نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اچھی تنقید وہ ہوتی ہے کہ جو(اپنے قاری کے ہاں) ادب پڑھنے کی ترغیب پیدا کرتی ہے۔ پروفیسر حنفی نے اپنے سامعین کو یہ بھی بتایا کہ خیال کی آمریت سے ہمیں بچنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ خیال کی آمریت غلام بنا لیتی ہے۔ حنفی کا یہ بھی کہنا تھاکہ ادب پرفارمنس نہیں ہوتا ادب تو ہلچل پیدا کرتا ہے، جوش پیدا کرتا ہے۔ شمیم حنفی نے میرا جی کو یاد کرتے ہوئے ہمارا آموختہ کروادیا کہ میرا جی ناقد بھی تھے انہوں نے میرا جی کے ذوق ِمطالعے کی مثال بھی دی کہ وہ لائبریری پہنچنے والوں میں اوّل اور لائبریری سے نکلنے والوں میں آخری آدمی ہوتے تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہاادب لکھنے والوں کی بڑی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ شمیم حنفی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تنقیدی سرگرمی ایک آزمائش ہے اور یہ ادب پڑھنےکے بعد کا عمل ہے۔ انہوں نے انتباہی لہجے میں کہا کہ تنقید کو محدود مت کیجیے۔ حنفی نے ہم سب کو اور بالخصوص طلبا کو مخاطب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ تنقید ضرور پڑھیے مگر ادب سے رشتہ ٹوٹنے نہ پائے۔
شمیم حنفی نے شیام لال( سابق ایڈیٹر ٹائمز آف انڈیا) کی تنقیدی صلاحتیوں کو بھی یاد کیا۔ انہوں نے مراٹھی کے مشہور فکشن نگار ولاس سارنگ کاتذکرہ کرکے اپنی علمی باخبری کا ایسا مظاہر ہ کیا کہ ہمیں لگا کہ ہم لوگ ’’ کچھ جاننے کے عارضے ‘‘میں مبتلا ہیں ۔۔۔۔مگر کیا جانتے ہیں ؟!!
افتتاحی اجلاس کے بعد مقالہ خوانی کے دو اجلاس منعقد ہوئے جن کی صدارت بالترتیب پروفیسر یونس اگاسکر اور پروفیسر قاضی جمال حسین نے انجام دی ۔ ان اجلاس میں آٹھ مقالے پڑھے گئے ۔ پہلے اجلاس میں ڈاکٹر ابوبکر عباد ( دہلی ) نے عصری تناظر میں اردو فکشن کی تخلیق اور تنقید سے متعلق ان نکات پر گفتگو کی جن کے سبب ادب کی اس صنف پر کسی حد تک جمود طاری ہو گیا ہے۔پروفیسر شہاب عنات ملک (جموں) نے شمیم حنفی کے تنقیدی رویے اور ادب و تہذیب کے باہمی ربط کے حوالے سے اس طرز تنقید کے امتیازات پر کلام کیا۔ڈاکٹر ندیم احمد (کلکتہ) کا مقالہ ڈاکٹر رشید اشرف خان نے پیش کیا جو ممتاز شریں کی تنقید نگاری کے موضوع پر مبنی تھا۔اس اجلاس میں پروفیسر جمال حسین ( علی گڑھ) نے شعر و ادب میں جمالیات کی کارفرمائی کی توضیح مشرق و مغرب کے مفکرینِ جمالیات کے حوالے سے کی ۔ اپنے پر مغز مقالے میں انھوں نے کہا کہ جمالیات پر گفتگو کے دوران اخلاقیات، سماجیات اور معاشیات جیسے موضوعات کو شامل کرنا مرکزی موضوع کو مبہم بنا دیتا ہے ۔ قاضی جمال حسین کا مقالہ آج کے اجلاس کا حاصل کہا جائے گا۔ جس کے بعض ٹکڑے قاضی موصوف مشاعروں میںپڑھنے جانے والے اشعار کی طرح دہرا کر فضا میں جمالیاتی رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان کاپورا مقالہ نہایت توجہ سے سنا گیا جس میں ان کی مقالہ نگاری ہی نے نہیں بلکہ مقالہ خوانی کو بھی دخل رہا ۔اس اجلاس کے بعد پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام شعبے کی جانب سے کیا گیا۔ظہرانے کے بعد کے اجلاس کی صدارت پروفیسر قاضی جمال حسین نے کی اور پروفیسر یونس اگاسکر، پروفیسر احمد محفوظ( دہلی ) ڈاکٹر قمر صدیقی نے مقالے پیش کیے ۔ پروفیسر علی احمد فاطمی ( الہ آباد) کا مقالہ ڈاکٹر ذاکر خان نے پیش کیا۔ ان مقالات پر سامعین نے کار آمد گفتگو کر کے سمینار کی افادیت کو واضح کر دیا ۔اس دور وزہ قومی سمینار کے پہلے دن شعبہ ٔ اردو میں ایم اے، ایم فل،پی ایچ ڈی کے علاوہ دیگر کورسس کے طلبااور شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت، محترمہ روشنی خان نے بڑے انہماک سے شرکت کی ۔ ان کے علاوہ پروفیسر عبدالستار دلوی، ڈاکٹر رفعت النسا(میسور)،ڈاکٹر قاسم امام، ڈاکٹر افسرفاروقی، ڈاکٹر عباس عالم ، ڈاکٹر شاہد علی خان اور ڈاکٹر جمشید احمد (شعبہ ٔ عربی ، ممبئی یونیورسٹی )،وقار قادری، جاوید ندیم، عارف اعظمی، محمد ایوب بسمل،ظہیر انصاری،عرفان جعفری ، فیروز اشرف، عبید اعظم اعظمی، شعور اعظمی، اعجاز ہندی، امیر حمزہ، رونق رئیس کے علاوہ دیگر ادب دوست شخصیات کی شرکت نے سمینار کو کامیاب بنایا ۔
سمینار کے دوسرے دن یعنی منگل۲۸مارچ کو مقالہ خوانی کے چار اجلاس ہوں گے جن میں تقریباً ۱۶مقالے پیش کیے جائیں گے جن میں پروفیسر انیس اشفاق(لکھنؤ)، پروفیسر شافع قدوائی(علی گڑھ)، پروفیسر خالد قادری اور پروفیسر ابولکلام(حیدر آباد) ڈاکٹر الطاف انجم (سری نگر) ، شمیم طارق،ڈاکٹر شعور اعظمی، الیاسی شوقی،ڈاکٹر قاسم امام،ڈاکٹر جمال رضوی سمینار کے مرکزی موضوع کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مقالے پیش کریں گے۔ آج افتتاحی اجلاس کے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر معزہ قاضی نے کہا کہ یہ سمینار شعبہ ٔ اردو کی اس روایت کی ایک کڑی ہے جو علمی و ادبی موضوعات پر ایسے وقیع مذاکرات کے انعقاد سے عبارت ہے۔

Recent Posts

معاشی پیشہ : اتفاقی یا سوچا سمجھا منصوبہ؟

معاشی پیشہ : اتفاقی یا سوچا سمجھا منصوبہ؟

 سی اے سلمان کے کے بی کم ، سی اے، سی ایم اے اسسٹینٹ جنرل مینیجر سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا، ممبئ سمندرسب کے لئےعام ہے کچھ لوگ اس سے موتی نکالتے ہیں کچھ لوگ اس سے مچھلی نکالتے ہیں کچھ لوگ وہ ہیں جو سمندر سے پائوں گیلا کرکےنکلتےہیں دنیا سب کے لئےعام ہے، لیکن...

’’مسلمانوں کو عصری کے ساتھ دینی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت‘‘

اقراء انٹرنیشنل اسکول بنگلورکی ڈائرکٹر نور عائشہ نے کہا کہ زندگی میں اخلاقی اقدرار کے ساتھ کامیابی و کامرانی کے دینی و دنیوی تعلیم دو پہیے ہیں ملک کے مسلمان اس وقت تک صحیح معنوں میں ترقی نہیں کرسکتے جب تک وہ اپنے بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم پر یکساں توجہ...

پوسد دہشت گرد دانہ کیس میں عبد الملک اکولہ خصوصی عدالت سے با عزت بری

پوسد دہشت گرد دانہ کیس میں عبد الملک اکولہ خصوصی عدالت سے با عزت بری

 البتہ چھرہ زنی معا ملہ میں تین سال کی سزا ممبئی(پریس ریلیز) دہشت گردی کے الزام میں پوسد سے گرفتار کئے گئے عبد الملک کو چند سال قبل عیدالاضحی کے موقع پر پوسد شہر میں پولیس اہلکار وں پر کئے گئے حملہ کے سلسلہ میں ان پر بنائے گئے دہشت گرد دانہ کیس سے آج یہاں اکولہ کی...

ممبئی یونیورسٹی میں’’نقش امیر خسرودر فرھنگ ایران و ھند‘‘پر دوروزہ سیمینار

ممبئی یونیورسٹی میں’’نقش امیر خسرودر فرھنگ ایران و ھند‘‘پر دوروزہ سیمینار

ممبئی (انصاری حنان)ممبئی یونیورسٹی میں جاری دوروزہ قومی سمیناراپنے دوسرے اور آخری روز کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا واضح رہے کہ ممبئی یونیورسٹی میں جے پی نائیک بھون میں یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کی جانب سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان “نقش امیر خسرودر فرھنگ ایران و...