بابری مسجد مقدمہ ؛ بی جے پی کا فائدہ،انصاف کا قتل

۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)
۶دسمبر ۱۹۹۲کو ہندو انتہا پسند قدیم بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے (فائل فوٹو)

 ڈاکٹرعابد الرحمن (چاندور بسوہ)

’’ رام جنم بھومی بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کی مسماری کے ضمن یہ بالکل واضح ہے کہ ملزمین کچھ حرکات و افعال میں جی بھر کے ملوث (indulge (تھے ۔۱۹۹۰ میں اڈاوانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی تھی جس کے دوران وہ مذہبی فرقوں اور سیاسی پارٹیوں کے مختلف لیڈروں سے ملے تھے اور ان کا اہم مقصد بابری مسجد کے متنازعہ ڈھانچے کو گرانا ہی تھا ۔جہاں تک دفعہ ۱۲۰ کے تحت مجرمانہ سازش رچنے کا سوال ہے تواس کے لئے ثابت شدہ شواہد(proved evidence (کی ضرورت نہیں کیونکہ سازش تو خفیہ طور پر ہی رچی جاتی ہے اور یہ سازش دوسرے ملزمین تک آہستہ آہستہ اور بتدریج پہنچی اس سازش کا اندازہ ان لیڈروں کی تقاریر اور افعال سے بخوبی ہوجا تا ہے۔مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش ۱۹۹۰ سے ہی شروع ہو گئی تھی اور ۶ دسمبر۱۹۹۲ کو اختتام پذیر ہو گئی تھی اڈوانی اور دیگر نے مختلف اوقات میں اور مختلف مقامات پرمتنازعہ ڈھانچے کو گرانے کی اسکیمیں تیار کی تھیں اسی لئے اس کیس میں ان تمام ملزمیں کے خلاف مجرمانہ سازش رچنے کے الزام کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے بادی النظر میں ابتدائی بنیاد(prima facia base (موجود ہے۔‘‘ یہ فیصلہ لکھنؤ کی سیشن عدالت کے اڈیشنل جج عزت مآب جسٹس جے پی سری واستوا کا ہے جو انھوں نے ۹ ستمبر ۱۹۹۷ کو بابری مسجد مسماری کیس میں فرد جرم عائد (charge frame (کرتے وقت دیا تھا ۔لیکن اس کے بعد تقریباًٍ بیس سال تک اس فیصلے کے مطابق مقدمہ نہیں چل پایا ۔یوں تویہ مقدمہ چلتا رہا لیکن صرف گمنام کارسیوکوں کے خلاف ،اہم ملزمین نہ صرف آزاد رہے بلکہ حکومتوں کے سہارے قانون کا مذاق بھی اڑاتے رہے، انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہے ۔بابری مسجد کی مسماری کے بعد دو مختلف ایف آ ئی آر درج کئے گئے تھے ایک ان لاکھوں کار سیوکوں کے خلاف تھا جو مسجد مسماری میں عملی طور پر شریک تھے اور دوسراوی ایچ پی، بے جے پی اور سنگھ کے ان لیڈران کے خلاف جوتقاریر کے ذریعہ کارسیوکوںجوش دلا رہے تھے ان میں لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ،اما بھارتی ،ونے کٹیار ،اشوک سنگھل ،وی ایچ ڈالمیا ،سادھوی رتھمبرا اور اچاریہ گری راج کشور خاص طور سے شامل تھے ۔لیکن پچھلے بیس سالوں میں بابری مسجد کے ان اصل ملزمین پر کوئی مقدمہ نہیں چل سکا ،کبھی حکومت کی لا پروائی اور قانونی عمل کی کمی یا ٹیکنیکل غلطی ( جو شاید اصل ملزمین کو بچانے کے لئے جان بوجھ کر کی گئی تھی )کی وجہ سے سیشن کورٹ کامذکورہ فیصلہ اڈوانی اینڈ کمپنی کے کیس کو لاگو نہیں ہو پایا، تو کبھی سی بی آئی کی طرف سے مختلف اوقات میں مختلف موقف اپنانے کی وجہ سے۔لیکن اب ۲۵، سال بعدیہ طے ہوا کہ اس معاملہ میں کچھ خاص الخاص مانے جانے والے افراد پر مجرمانہ سازش رچنے کا مقدمہ قائم کیا جائے اور یہ بھی کسی حکومت یاسیکولر کہلائی جانے والی یا مسلمانوں کی مسیحا سمجھی جانے والی کسی پارٹی کی مہربانی سے نہیں ہوابلکہ قانونی چارہ جوئی کے بعدعزت مآب سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہوا ہے جس میں نہ صرف مذکورہ تمام ملزمین کے خلاف مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش رچنے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا گیاہے بلکہ ٹرائیل کورٹ کو اس کیس کی مسلسل روز سنوائی کر کے دو سال کے عرصہ میں فیصلہ کر نے کا حکم بھی دیا گیاہے ۔لیکن یہ بھی انصاف نہیں ہے بلکہ صرف انصاف کی راہ کی ہمواری ہے اور جو کچھ ہے اس کی ستائیش کی جانی چاہئے کہ جس قانون کا مذاق ابھی تک یہ لوگ اڑاتے رہے ہیں اسی قانون نے انہیں عدالت کے کٹگھرے میں لا کھڑا کیا ۔ویسے انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے اور اس معاملہ میں ابھی مزید قانونی قیل قال کی گنجائش بھی موجود ہے جس کی شروعات بھی ہو گئی ہے کہ بابری مسجد مسماری کے اس سیاہ دن یو پی کے وزیر اعلیٰ اور بابری مسجد کی حٖفاظت کے اولین ذمہ دار کلیان سنگھ کو اس مقدمہ سے استثناء مل گیا کہ وہ فی الوقت راجستھان کے گورنر کے آئینی عہدے پر فائض ہیںاور اس عہدے کی وجہ سے آئین انہیں امیونٹی ) immunity) دیتا ہے ،عدالت نے کہا کہ ان پر مقدمہ اسوقت قائم کیا جائے گا جب وہ گورنری سے سبکدوش ہوں گے ۔ لیکن ایسا کب ہوگا ؟کیا معلوم۔ہماری حکومت اخلاق و اقدار کی اتنی پابند تو نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس حکم کے بعد کلیان سنگھ کو گورنری سے ہٹا کر قانونی محاسبے کے لے لئے عدالت کے حوالے کردے ۔ اسی طرح اب تو مبصرین کا یہ قیاس بھی سامنے آرہا ہے کہ اڈوانی جی کو وزارت عظمیٰ سے بے دخل کر نے کے بدل بی جے پی انہیں ملک کی صدارت کے با وقار عہدے سے سرفراز کرے گی اور اگر ایسا ہوا تو جس آئین اور قانون کو توڑ کر مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش رچنے کے وہ ملزم ہیں وہی آئین اور قانون انہیں بھی اس مقدمے سے تحفظ عطا کر دے گا ۔پھر ان دونوں کے بعد اس مقدمہ میں وہ لوگ بچیں گے جن کے مجرم ثابت ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ نے والا ،ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی یا مودی جی ان میں سے بھی خاص خاص افراد کو آئینی عہدے عطا کر کے بچالیںکہ فی الوقت وہ کسی کی سننے یا کسی تنقید و احتجاج سے دبنے کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ جموریت اور جمہوری آئین و قانون کی پیشانی پر کسی داغ سے کم نہیں ہوگا کہ جمہوریت کے رکھوالوں نے اسی آئین کو ان لوگوں کی محافظت کے لئے مجبور کر دیا جنہوں نے اسے توڑا تھا اسکا مذاق اڑا یا تھا۔لیکن اس کی کسی کو فکر نہیں ہے ملک کا ماحول ایسا بنا کر رکھ دیاگیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف قانون و آئین توڑ نے والے عوامی طور پر ملک کے ہیرو گردانے جا رہے ہیں ،اور انہیں بچانے والی حکومت ملک و قوم کی سچی اور عوام دوست حکومت گردانی جا رہی ہے۔ویسے بھی بابری مسجد کا معاملہ سیاسی طور پر سبھی کے لئے فائدہ مند رہا ہے ہر سیاسی پارٹی نے حسب ضرورت کبھی اسے اٹھا یا اورکبھی دبایا ہے لیکن ان سب میں سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کوہی ہوا،بلکہ یہ کہیں تو غلط نہیں کہ یہ بی جے پی کی روح ہے کہ اس کے بغیر اس کا ہندوتوا تقریباً ناممکن ہے ۔اورپچھلے لوک سبھا انتخابات کے وقت سے وہ مسلسل ترقی ،گڈ گورننس اور سب کا ساتھ سب کا وکاس وغیرہ کے اپنے ظاہری ایجنڈے کو ’ہندوتوا‘کا تڑ کا دینے کا کوئی موقع نہیں گنوا رہی ہے بلکہ ایسے مواقع پیدا کرتے رہنے کے چکر میں نظر آ رہی ہے ۔سو بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بی جے پی کے لئے بڑے سیاسی فائدے کا ضامن ہو سکتا ہے ۔کہ یہ مقدمہ دو سال میں مکمل کر کے فیصلہ سنانے کا حکم ہے یعنی اب پورے دو سال تک بابری مسجد رام مندر تنازعہ کے نام ’ ہندوتوا ‘ سیاست گرم رہے گی اور جب بھی اس مقد مہ میںبی جے پی و سنگھ کے لیڈران کے خلاف کوئی خاص بات ہو گی اس سیاست میں مزید ابال آ ئے گا یعنی اگلے لوک سبھا الیکشنس تک مودی جی کی ترقیاتی سیاست کوبرابر’ ہندوتوا ‘ کا تڑ کا ملتا رہے گا جو مذہب کے نام ہندوؤں کو نہ صرف متحد کرے گا بلکہ بی جے پی کی طرف پولرائز بھی کردے گا ۔اسی طرح گر بی جے پی کے لیڈران پر بابری مسجد مسماری کی مجرمانہ سازش رچنے کا الزام ثابت ہو گیا تو ان کا تو کچھ نہیں ہو گا کہ ان کے سامنے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا آپشن موجود ہے ،ان کی زندگی میں جس کا نتیجہ آنے کی امید نہیں۔لیکن یہ بی جے پی کے لئے بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے لیڈران کے بابری مسجدکے مجرم ثابت ہو نے کو ہندو دھرم،ہندو پرائیڈ اورہندو عوام کے لئے اپنی قربانی قراردے کر ہندوؤں کو اپنے حق میں مزید پولرائز کر نے کی کامیاب کوشش کرے اور اگر ایسا ہوا تو یہ حقیقت میں انصاف کا قتل ہی ہو گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *