ہندوستانی حکومت مست اپوزیشن پست

 وزیر اعظم نریندر مودی
وزیر اعظم نریندر مودی

سہیل انجم
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی صورت حال کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ حکوت مست ہے اور اپوزیشن پست ہے۔ حکومت اپنی تیسری سالگرہ بڑے جو ش و خروش کے ساتھ منا رہی ہے اور اپوزیشن اپنے بکھرے ہوئے بال و پر سمیٹ کر اپنے اندر نئی قوت پرواز بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت اپنی تین سالہ مبینہ کامیابیوں کو عوام کے سامنے اس طرح لے کر جا رہی ہے جیسے اس نے بہت ہی برعکس حالات میں بہت ہی نمایاں کارنامے انجام دیے ہوں۔ بی جے پی اور حکومت سے ساڑھے چار سو لیڈروں کو منتخب کیا گیا ہے جو حکومت کی مبینہ کامیابیوں کا ڈنکہ پورے ملک میں پیٹنے والے ہیں۔ ان ساڑھے چار سو لیڈروں میں مرکزی وزرا بھی ہیں، ممبران پارلیمنٹ بھی ہیں، ممبران اسمبلی بھی ہیں، وزرائے اعلیٰ بھی ہیں اور عام لیڈران بھی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے آسام میں ملک کے سب سے بڑے پل کا افتتاح کرنے کے ساتھ ساتھ اس جشن کا بھی افتتاح کر دیا ہے۔ یہ لوگ ملک کے ۹۰۰ مقامات پر ریلیاں، جلسے، جلوس اور پروگرام منعقد کریں گے۔ اس کے علاوہ تمام ریاستوں کی راجدھانیوں میں پریس کانفرنسیں بھی کی جائیں گی۔ جس دھوم دھڑاکے کے ساتھ جشن منایا جانے والا ہے اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خدا نخواستہ حکومت وسط مدتی انتخابات کی طرف تو قدم نہیں برھا رہی ہے۔ حالانکہ یہ خیال بہت دور از کار معلوم ہوتا ہے لیکن ٹائمس آف انڈیا کے ایک سروے کی روشنی میں جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اس وقت پارلیمانی انتخابات کرا لیے جائیں تو بی جے پی ۲۰۱۴ سے بھی زیادہ سیٹوں کے ساتھ کامیاب ہوگی، اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت اور بی جے پی کے لوگ عوام میں اس طرح پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ جیسے گزشتہ ۷۰ برسوں میں ہندوستان نے کوئی ترقی نہیں کی اور جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ اس تین سالہ مدت کار میں ہوئی ہے۔ حالانکہ ایسے بہت سے پروجکٹ ہیں جو سابقہ یو پی اے حکومت نے شروع کیے تھے اور وزیر اعظم مودی ان پروجکٹوں کی تکمیل پر ربن کاٹ کر واہ واہی لوٹ رہے ہیں۔وہ یہ جتانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ حکومت عوام کی اب تک کی سب سے خیرخواہ حکومت ہے اور اس نے عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کے میدان میں جو ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے ہیں ویسے ریکارڈ گزشتہ ۷۰ برسوں میں کوئی حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ در اصل حکومت کو ایسا پروپیگنڈہ کرنے کا موقع خود اپوزیشن نے دیا ہے۔ جہاں تک ۲۰۱۴ میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس کے دور دور تک امکانات بھی نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے شعبے ہیں جن میں حکومت نے ترقی معکوس کی ہے۔ یعنی ان میں زوال ہی آیا ہے ترقی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس کو بھی اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جیسے وہ حکومت کے سر پر رکھے ہوئے تاج کی کلغی ہو۔ بی جے پی لیڈران ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔ مثال کے طور پر پارٹی صدر امت شاہ نے یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں اور کہا ہے کہ انھوں نے ریاست میں ہونے والے جرائم پر بہت جلد قابو پا لیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے جس دن یہ بیان دیا اس کے ایک روز قبل ہی جیور کا وحشت ناک واقعہ پیش آیا ہے۔ اور یوگی صاحب ریاست میں ہونے والے مجرمانہ واقعات کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی مرتا ہے تو لمبی لمبی سانسیں لینے لگتا ہے۔ یو پی سے جرائم کا خاتمہ ہو رہا ہے اس لیے جرائم پیشہ عناصر جھنجھلاہٹ میں وارداتیں انجام دے رہے ہیں۔ ان کا اور ان کے وزرا کا اور بی جے پی لیڈروں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ اتر پردیش میں پندرہ برسوں میں صرف کوڑہ کرکٹ جمع ہوا تھا اب اس کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کے بیانات بالکل اسی نہج پر دیے جا رہے ہیں جس نہج پر وزیر اعظم کے بیانات آتے ہیں۔ یعنی گزشتہ ۷۰ برسوں میں حکومتوں اور سیاست دانوں نے ملک کو لوٹا ہے، اس سے چھینا ہے اور اسے دیا کچھ نہیں ہے۔ اسے کہتے ہیں ایونٹ مینجمنٹ۔ یعنی جتنا کام کرو اس کے کئی گنا تک شور کرو اور ناکامیوں کو بھی کامیابیوں کے شو کیس میں سجا کر پیش کرو۔
تین سال کی مدت میں حکومت کی جو ناکامیاں ہیں اگر ان کو گنانا شروع کیا جائے تو اس کے لیے ایک دفتر درکار ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں میں اگر جوش و خروش ہوتا تو وہ حکومت کو سربازار ننگا کر سکتی تھیں اور عوام کے سامنے حقائق کو پیش کرکے حکومت کے دعووں کی بخیہ ادھیڑ سکتی تھیں۔ لیکن جیسا کہ کہا گیا اپوزیشن پست ہے۔ اس میں کوئی جوش و جذبہ نہیں رہ گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ حالانکہ پانچ ریاستوں میں مکمل ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد جن میں بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی، اپوزیشن جماعتوں میں یہ احساس پیدا ہوا تھا کہ جب تک وہ متحد نہیں ہوںگی وہ بی جے پی یا بہ الفاظ دیگر نریندر مودی کے رتھ کو روک نہیں پائیں گی۔ لیکن اس احساس کے باوجود ان کے ذریعے ایک عظیم اتحاد کے قیام کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔ صدارتی انتخاب کا موقع ان کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ وہ اس موقع سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گی۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی نے اس سلسلے میں خاصی کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ وہ اپوزیشن اتحاد کے سلسلے میں ایک مشعل بردار کا رول ادا کریں گی۔ لیکن جب وہ وزیر اعظم مودی سے مل کر باہر آئیں تو ان کے لہجے کی کاٹ کند ہو گئی اور جہاں صدارتی امیدوار کے لیے وہ انتہائی جارحانہ انداز میں میدان میں اتری تھیں وہیں وہ یہ کہتی نظر آئیں کہ اس بارے میں اتفاق رائے قائم کیا جائے گا۔ ایک اہم اپوزیشن لیڈر اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کے ذریعے اپوزیشن پارٹیوں کو دیے گئے ظہرانے سے دور رہ کر اور اس کے اگلے روز وزیر اعظم مودی کے ساتھ لنچ کرکے ایک اشارہ دے دیا ہے۔ اس اشارے کے مفہوم کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے، عوام بہت سمجھدار ہیں۔ گویا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اپوزیشن پر شکست خوردگی کا دورہ پڑا ہوا ہے اور بالخصوص کانگریس پر کچھ زیادہ ہی پڑا ہوا ہے۔ کانگریس غالباً یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ سیاسی طور پر اس کی موت واقع ہو گئی ہے اور اب کوئی کرشمہ ہی اس کے تن مردہ میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ لیکن پوری پارٹی میں کوئی کرشماتی لیڈر نہیں ہے جو یہ کارنامہ انجام دے سکے۔ پارٹی نہرو گاندھی خاندان کے سائے سے باہر نکلنا نہیں چاہتی اور اس خاندان کے سیاسی وارث میں نہ تو سیاسی سوجھ بوجھ ہے اور نہ ہی اس کی شخصیت میں کوئی جادو ہے۔ یعنی کانگریس پارٹی قیادت کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ لیکن اس بحران سے وہ نکلنا بھی نہیں چاہتی۔ ادھر نریندر مودی جنھوں نے ۲۰۱۴ کے انتخابات کے موقع پر کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اب اپوزیشن مکت بھارت کی مہم میں لگ گئے ہیں۔ اگر وہ کانگریس کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے بعد اپوزیشن کو بھی ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی انہونی نہیں ہوگی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والوں میں ممتا کے علاوہ لالو یادو پیش پیش رہے ہیں۔ ممتا کے بارے میں اگر چہ کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کو بھی حکومت چلانی ہے اور موجودہ مرکزی حکومت سے ٹکراؤ مول لے کر کوئی ریاستی حکومت چین سے اپنا کام نہیں کر سکتی۔ دہلی کے وزیر اعلی کیجری وال کی مثال کو سامنے رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ ادھر لالو یادو اور ان کے اہل خاندان کے ارد گرد جو تانے بانے بنے جا رہے ہیں وہ اسی لیے بنے جا رہے ہیں کہ ان کی زبان بند کی جا سکے۔ لالو کو بھی خود کو اور اپنے خاندان کو بچانا ہے۔ لہٰذا وہ بھی خاموشی اختیار کر لیں تو کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ یوں بھی وہ اب سیاسی طور پر بے وزن ہو گئے ہیں، ان کی شخصیت کا بانکپن ختم ہو چکا ہے۔ گویا اپوزیشن ایک مردہ فوج بن گئی ہے اور بی جے پی یا نریندر مودی کا رتھ پورے ملک میں دندناتا پھر رہا ہے۔ سرِدست اسے روکنے کی طاقت کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *