مسلم خواتین ہندوستان میں تعلیم کے ذریعہ تبدیلی کا پیامبر بن سکتی ہیں

muslim-women

فرینک ایف اسلام
وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ دن پہلے مسلم عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے آگے آنے کی بات کہی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پیغام کو بڑے پیمانے پر قبول کیا جاتا اور اس کا تعاون کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس تجویزکی مختلف وجوہات کی بنا پر کئی حلقوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اسے مودی کی ایک سیاسی چال کے طور پر دیکھا تو کچھ لوگوں کا سوال تھا کہ وزیر اعظم مودی نے خود مسلم عورتوں کی تعلیم وترقی کے لئے کتنی سنجیدہ کوشش کی۔ کچھ دیگر لوگوں نے اس کی اس لئے مخالفت کی کہ وہ اسے تین طلاق کے تنازعے سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کے استعمال کے لئے مسلم عورتوں کو تعلیم کے ذریعہ با اختیار بنانا انتہائی ضروری ہے۔مردم شماری 2001 کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی شرح خواندگی محض 59 فیصد تھی۔
مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے حوالے سے سال 2006 میں سچر کمیٹی رپورٹ نے یہ پایا کہ مسلمان کئی معاملوں میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد اقلیتوں کے لئے ایک جامع اور مؤثر پروگرام بنایا گیا اور اس پروگرام کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔مردم شماری 2011 کے ریکارڈ کے مطابق مسلمانوں کی شرح خواندگی بڑھ کر 5.68 فیصد ہوگئی جب کہ پورے ملک کی شرح خواندگی 74 فیصد درج کی گئی۔ یہ ایک اچھی خبر تھی لیکن یہ اعداد وشمار ایک بری خبر بھی سناتے ہیں اور وہ یہ کہ پورے ملک میں سب سے خراب شرح خواندگی مسلم عورتوں کی درج کی گئی جو کہ 52فیصد سے کم تھی۔
اس سے زیادہ تکلیف کی بات اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی کارکردگی تھی۔امریکہ اور ہندوستان میں کام کرنے والے ایک پالیسی ادارہ کی سال 2013 کی رپورٹ کے مطابق صرف 11 فیصد ہندوستانی مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ پورے ملک کا اعلی تعلیم میں مجموعی تناسب 19فیصد ہے۔ اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ عام مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم میں تناسب دن بہ دن گھٹ رہا ہے ۔ اور جب بات مسلم عورتوں کی آتی ہے توشرح خواندگی اور اعلی تعلیم میں نمائندگی کا معاملہ اور خراب ہوجاتا ہے۔تعلیم کے میدان میں بنیادی تعلیم ابتدائی درجہ ہے جب کہ اعلیٰ تعلیم انتہائی درجہ ، جس کے بعد کوئی انسان مکمل طور پر اپنے پیر پر کھڑا ہوسکتاہے۔ان اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ بہت ساری ایسی مسلم عورتیں ہیں جن کو ابتدائی تعلیم بھی میسر نہیں ہے اور بہت کم ایسی ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔یہ رویہ بدلنا چاہئے اور مسلم عورتوں کو چاہئے کہ وہ تعلیم کے میدان میں آگے آئیں اور تسلسل کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کریں۔ تعلیم کے میدان میں ایک مسلم عورت کی حصہ داری نہ صرف فرد کے بہتر مستقبل کے لئے ضروری ہے بلکہ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔تعلیم بذات خود ایک عام عورت کے لئے مفید ہے مزید یہ کہ اس سے جہالت کی بیڑیاں ٹوٹتی ہیں اور علم وہنر بڑھتا ہے اور رویہ میں تبدیلی آتی ہے جس سے فرد کی قسمت بنتی اور سنورتی ہےاور اس سے خوداعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔
ایک مسلم خاندان کے لئے تعلیم عورت کو تبدیلی کا پیامبر بناتی ہے۔ بہت سارے مسلم خاندان غربت اور افلاس کا شکا رہیں اس لئے کہ ان کے پاس وافر تعلیم نہیں ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکتی ہے جس سے وہ غربت سے نکل سکتے ہیں۔
تعلیم سے نہ صرف کام کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے بلکہ بہت سارے وعدے بھی وفا ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے میری مراد صرف 4سال کی کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم نہیں ہے بلکہ اس میں سیکنڈری سطح تک تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم بھی شامل ہے۔ اس سال فروری میں میرے ہندوستان کے دورے کے دوران مجھے فاطمہ گرلس کالج اعظم گڑھ اور عبداللہ ومینس کالج ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالبات سےخطاب اور بات چیت کا موقع ملا۔ اس دورے کے دوران میری اہلیہ دیبی اور میں نے نئے مینجمنٹ کمپلکس جس کو ہمارے مالی تعاون سے تعمیر کیا گیا، کو وقف کردیا۔ اس سے بہت ساری ایسی لیڈر اور بااختیار طالبات لیڈر پیدا ہوں گی جو دوسری مسلم خواتین کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کریں گی اور یہ تسلسل چلتا رہے گا۔ان کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہوگی اور یہ کامیابی پورے ملک اور پوری دنیا کی کامیابی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار امریکہ میں مقیم ہند نژاد تاجر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کی ویب سائٹ کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
www.frankislam.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *