
حکومت ہند کا مجوزہ بل آئین ہند ،شریعت اور خواتین کے حقوق کے منافی :سجاد نعمانی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہنگامی مجلس عاملہ ندوہ لکھنؤ میں منعقد ،اہم ممبران کی شرکت
لکھنؤ۔۲۴؍دسمبر:(سعید ہاشمی) حکومت ہند کا پیش کردہ شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بل مسلمانان ہند کے لئے قابل قبول نہیں ہے تاہم یہ بل آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور خودمسلمان خواتین کے حقوق کے صریح منافی ہے ۔اور ان کی الجھنوں ، پریشانیوں اور مشکلات میں اضافے کا سبب ہے، اسی طرح یہ شریعت اسلامی میں کھلی ہوئی مداخلت اور آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی بنیادی دفعہ اورسپریم کورٹ کے تین طلاق کے سلسلہ میں دیے گئے حالیہ فیصلے مؤرخہ۲۲؍ ۸ ؍۲۰۱۷ء کے خلاف ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی قومی ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے کیا ۔وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بورڈ کی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔مولانا نے کہا کہ اگر حکومت واقعی خواتین کے مسائل کو لیکر سنجیدہ ہے تو وہ طلاق سے متعلق بل پاس کرنے سے قبل آَ انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر خواتین کی تنظیموں سے باہم صلاح و مشورہ کرکے آئین ہند کے مطابق اور شرعی حدود میں رہ کر اقدامات کرے ۔مولانا نے حکومت ہند کے پیش کردہ بل کے مشمولات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس میں شامل پہلوئوں کو متضاد قراردیا اورکہا کہ جہاں ایک طرف اس بل میں تین طلاق کے بے اثر اور باطل ہونے کی بات کہی گئی ہے وہیں تین طلاق کو جرم قرار دے کر تین سال کی سزا اور جرمانہ کی بات موجودہے، سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوگی تو اس پر سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے۔اس بل کی دفعات ۴۔۵۔۶۔۷ ملک میں پہلے سے موجود قوانین (مثلا Guardian and wards Actوغیرہ) سے ٹکراتی ہیں اور دستور ہند کی دفعہ ۱۴۔ ۱۵ کے خلاف ہیں کیونکہ اس بل میں ان مسلمان عورتوں کو جن کو بیک وقت تین طلاق دی گئی ہو اور دیگر مسلم خواتین میں بغیر کسی جواز کے تفریق کی گئی ہے اور شوہر کو مجرم قرار دیے جانے کے سلسلہ میں خود اس کی منکوحہ کی مرضی اور منشا کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے، حد تو یہ ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کے معاملہ پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی گئی ہے۔یہ بات حیران کردینے والی ہے کہ جس کمیونٹی کے بارے میں یہ بل پیش کیا گیا ہے نہ اس کے ذمہ داران اور قائدین سے مشورہ لیا گیااور نہ کسی مسلم تنظیم اور ادارے سے رابطہ کیا گیا اورنہ خواتین کے معتمداداروں سے مشورہ کیا گیا،اس لئے اس بل کے سلسلہ میں ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ابھی اس مجوزہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش نہ کرے بلکہ اگر ضرورت محسوس کی جائے تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم خواتین کی صحیح نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے مشورے کے بعد ایسا بل پیش کیا جائے جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والا، شریعت اسلامی اور آئین ہند سے مطابقت رکھنے والا ہو۔چونکہ یہ بل شریعت اسلامی اور آئین ہند دونوں کے خلاف ہے ، نیزمسلم خواتین کے حقوق کو متأثر کرنے والا ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاس کے سدباب کی کوششیںشروع کرچکا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی ہر سطح پر بھر پور کوشش کرے گا۔اس کے علاوہ بورڈ کے سکریٹری ظفریاب جیلانی ،مولانا عمرین محفوظ رحمانی ، ڈاکٹر اسماء زہرا وغیرہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کی ۔بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے مجلس عاملہ کے بعد میڈیا کے سامنے بورڈ کا مضبوط انداز میں موقف رکھتے ہوئے بورڈ روز اول سے ہی ملی سماجی اور شرعی امور کو لیکر سنجیدہ ہے اور حال ہی میں حکومت ہند کی جانب سے تین طلاق سے متعلق پیش کردہ بل کو لیکر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اعلی قیادت فکر مند ہے لہذا بورڈ کی مجلس عاملہ کی ہنگامی میٹنگ کا بنیادی مقصد ملت اسلامیہ میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے ممبران نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ بل کا باریکی سے معائنہ کرنے کے بعد مذکورہ اعلامیہ جاری کیا ہے ۔مولانا نے واضح طور پر کہا کہ بورڈ کی عاملہ میں باہم گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا ہے کہ مسلمانان ہند کے ان احساسات کو لیکر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے قومی صدر مولانا محمد سید رابع حسنی ندوی وزیر اعظم ہند نریندر مودی کوزمینی حقائق سے باخبر کریں گے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ مزید بل کا مثبت اور ٹھوس جواب دینے کیلئے تیاری کر رہا ہے آَ ل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ،مولانا سید ولی رحمان قومی جنرل سکریٹری ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری ،ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ سکریٹری ،مولانا عمرین محفوظ رحمانی سکریٹری ، مولانا فضل الرحمن مجددی ،ایم آر شمشاد ، مولانا سلمان حسینی ندوی ، مولانا عتیق الرحمن بستوی ،بیرسٹر اسد الدین اویسی ، مفتی احمد دیولہ ، محمد طاہر ایڈوکیٹ ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ای ابو بکر ،ڈاکٹر اسماء زہرا ، ممدوحہ ماجد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔