Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی آمرانہ روش ترک کی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے: پروفیسر سوز

by | Dec 29, 2017

سری نگر، 29 دسمبر (یو ا ین آئی) سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے بہ یک وقت تین طلاق کو جرم قرار دینے والے بل کو لوک سبھا سے منظوری ملنے کے تناظر میں کہا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اپنی نمائندہ حیثیت ثابت کرنے کے لئے اپنے ادارے کو درست سمت میں لے جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے کہ بورڈ نے حال کے برسوں میں اپنی غفلت اور آمرانہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک نے ایک بار تین طلاق کہنے کے عمل کو غیر اسلامی فعل قرار دیا ہے۔پروفیسر سوز نے جمعہ کو یہاں جاری اپنے ایک بیان میں کہا ‘میں اُن لوگوں میں شامل رہا ہوں جنہوں نے برسوں مسلم برسنل لاء بورڈ کو تسلیم کیا ہے اور عزت دی ہے۔ حالانکہ مجھ کو یہ بات معلوم تھی کہ یہ بورڈ جمہوری روایات اور صلاح و مشورے کے بہترین عمل سے غافل ہو چکا تھا اور آمرانہ طریقے سے کام کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں برسوں سے دیکھ رہا تھا کہ اس بورڈ کو نمائندہ حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ نہایت آمرانہ طریقے سے وقت وقت پر اپنی مرضی سے بے وقعت لوگوں کو ممبر کے طور اپنے ساتھ منسلک کرتا تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ بورڈ کا ممبر بننے کے بعد اُن شخصیات کو مسلم سماج پہچاننے لگا تھا’۔
انہوں نے کہا کہ اب جب کہ پارلیمنٹ نے ایک بارتین طلاق کہنا جرم ثابت کر دیا ہے جس کی سزا کم سے کم 3 سال کی قید مقرر ہوئی ہے، بورڈ کو اپنی نمائندہ حیثیت ثابت کرنے کے لئے اپنے ادارے کو درست سمت میں لے جانا چاہئے۔
سینئر کانگریسی لیڈر نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے کہ بورڈ نے حال کے برسوں میں اپنی غفلت اور آمرانہ روش کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک نے ایک بار تین طلاق کہنے کے عمل کو غیر اسلامی فعل قرار دیا ہے۔ان ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، قبرص تیونس، الجزائر، ملائیشیا، ایران، سری لنکا، اردن، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، قطر، سوڈان، مراکش، مصر، عراق وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا ‘کتنے افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ بورڈ نے کافی صلاحیت والی شخصیات جیسے ڈاکٹر طاہر محمود، سلمان خورشید، ظفر الاسلام خان، موسیٰ رضا اور محترمہ زینت شوکت علی وغیرہ کو کبھی بھی بورڈ کا ممبر نہیں بنایا !’۔ پروفیسر سوز نے بورڈ کو بقول ان کے آمرانہ طریقہ ترک کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا ‘میرے دل میں یہ احساس ہے کہ بورڈ صلاح مشورہ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اور اپنے آمرانہ طریقے سے باز رہتے ہوئے کم سے کم 20 برس پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے یہی طریق کار وضع کرتے ہوئے اور بھی اصلاحات جاری کر سکتا تھا اور اس کے برعکس انہوں نے مسلمانان ہند بالخصوص مسلم سماج کی عورتوں کو تباہ حالی اور لاچارگی میں مبتلاء کیا اور انہی عورتوں میں مسلم سماج کی وہ بیٹیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے لاچارگی اور بے بسی میں کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا’۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...