
حکومت شریعت میں دخل دے رہی ہے: ظفر علی نقوی
لکھنؤ، دسمبر29 ( یو این آئی) بھارت کی مسلم خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے متعارف کرایا گیا بل مسلم دانشواروں کی تنقید کا نشانہ بن گیا ہے۔
مسلم دانشور مانتے ہیں کہ یہ قانون مسلم خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کرا پائےگا۔ یو این آئی سےگفتگو کرتے ہوئےسابق وزیر اور سینئر کانگریسی رہنما ظفر علی نقوی نے الزام لگایا کہ یہ بل سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لئے منظور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی سے قبل پارلیمنٹ کے مسلم ممبروں سے مشورہ کیا جانا چھاہئے تھا ۔انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت شریعت میں دخل دی رہی ہے۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ قانون مسلم خواتین کو کوئی بھی فائدہ نہیں دے پائےگا۔انہوں نے کہا اس قانون سے مصالحت کی گنجائش ختم ہو جائےگی۔
، “اے ورڈ تھرائس اکارڈ کی مصنفہ پروین طلحہ نے کہا کہ اس قانون سے مسلم خواتین کو کوئی تحفظ نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ پہلے ہی طلاق ثلاثہ کو غلط ٹھہرا چکی ہے، اس اعتبار سے شادی ٹوٹتی ہی نہیں تو سزا کس بات کی۔ پروین طلحہ نے کہا کہ اس قانون سے جب شوہر جیل سے واپس لوٹے گا تو وہ طلاق کے دوسرے طریقوں کو اپنائےگا اور بیوی سے چھٹکارا حاصل کرےگا۔یہ قانون خاندانوں کے درمیان سمجھوتے کی تمام گنجائش ختم کر دےگا۔ انسانی حقوق کے سرگرم رکن اور مسلم معاملات کی ماہر نائش حسن نے واضح طور پر کہاکہ قانون سے شوہر اور بیوی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائےگا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کی گنجائش ختم نہیں ہونی چاہئے۔ نائش نے کہا اس قانون میں حیرت والی بات تو یہ ہے کی قانون نے تیسری پارٹی کو بھی مداخلت کی گنجائش بھی پیدا کی ہے۔
شیعہ پرسنل لا بورد کے ترجمان مولانا یعسوب عباس نے بھی تیسری پارٹی کی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ تنظیم علی کانگریس کی صدر روبینہ مرتضیٰ نے کہا کہ جب سپرم کورٹ طلاق ثلاثہ کو غلط ٹھہر چکا ہے تو سزا کس بات کی ۔انہوں نے کہا کہ یہ قانون سمجھوتے کی گنجائش کو ختم کر دے گا۔
ماہر قانون محمد ثاقب کے مطابق شوہر کے جیل جانے کے بعد بیوی کو گزارہ کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون فاصلوں کو اور بڑھائےگا۔