رحلت کی خبر ملتے ہی مداحوں میں صف ماتم ،تعزیت کنندگان کا رہائش گاہ پر تانتا ،سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اور اعظم خاں نے تعزیت کی
لکھنؤ۔۲؍جنوری: (نمائندہ خصوصی )عالمی شہرت یافتہ ممتاز ناظم مشاعرہ و ادیب انور جلالپوری مختصرعلالت کے بعد کنگ جاج میڈیکل لکھنؤ میں منگل کی صبح نو بجے صبح 70 ستر سال کی عمر میں آخری سانس لی ۔انور جلالپوری کی رحلت کی خبر ملتے ہی بین الاقوامی علم و ادب کی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی ۔وہیں آبائی وطن جلال پور امبیڈکر نگر انتقال کی خبر سے قصبہ کی فضا سوگوار ہوگئی ۔اورمیں واقع گھر پر قصبہ اور اطراف کے لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔اس سے قبل خبر ملتے ہی وزراء اور شعراء کا لال کنواں لکھنؤ میں واقع رہائش گاہ پر تانتا لگ گیا ۔وزیر اعلی اترپردیش یوگی آدیت ناتھ ،سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو اور اعظم خاں سمیت عالمی شہرت یافتہ دینی مراکزدارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ،دارالعلوم دیوبند ،جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے لوگوں نے بذریعہ فون تعزیت مسنونہ پیش کی ۔موصولہ تفصیلات کے مطابق انور جلالپور ی کو گذشتہ دنوں برین ہیمرج کے شدید حملہ کے بعد ٹراما سینٹر لکھنؤ میں داخل کرایا گیا تھا ۔مرحوم نہایت منکسر المزاج ،حسن اخلاق اور قدیم روایتوں کے قدر داں اور زندہ دل شخصیت کے مالک تھے مرحوم شگفتہ اور انفرادی لب و لہجہ کی نظامت کی بنا پر عالمی سطح پر مشاعرہ کی دنیا میں شیدائی شعرو ادب کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے اور انور جلالپوری کی نظامت میں ہونے والے مشاعرے کامیابی کی ضمانت تصور کئے جاتے رہے ہیں ۔مرحوم کے پسماندگان میں تین صاحبزادے شہر یار ،شاہکار ، اور ڈاکٹر جاں نثار انور ہیں اور بیوہ ہیں۔ جبکہ اکلوتی صاحبزادی نزہت انور کا لندن میں گذشتہ 17 نومبر کو انتقال ہوگیاتھا ۔اہل خانہ کے مطابق مرحوم بیٹی کی رحلت کے بعد اندورون قلب غم زدہ رہتے تھے ۔ مرحوم کے بیٹے شاہکار اور ڈاکٹر جانثار نے نامہ نگار کو بتایا کہ مرحوم کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجودہ ہیں یہ تو پتہ تھا تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ والد مرحوم سے سات سمندر پار اور ملک و غیر ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مداح موجودہیں اس کا اندازہ اس عظیم سانحہ پر محسوس ہوا پوری دنیا سے چاہنے والوں نے بذریعہ فون اہل خانہ کو تسلی دی اور تعزیت پیش کی ۔شاہکار انور نے بتایا کہ مرحوم کی نماز بعد نماز ظہر بروز بدھ جلالپور میں ادا کی جائے گی بعد ازیںآبائی مزار روآبادمیں تدفین عمل میں آئے گی ۔مرحوم کی وفات کی خبرملتے ہی سابق کابینی وزیر احمد حسن ،،سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اترپردیش ظفریاب جیلانی ، خالد رشید فرنگی محلی ، پروفیسر شارب رودولو ی ،کانگریسی لیڈر سراج مہدی ، پروفیسر عبد القدوس ہاشمی ، طارق صدیقی ، ارشد اعظمی ،معروف خاں ،واصف فاروقی ،ڈاکٹر منیش شکلا ،پرویز ملک زادہ ،وسیم حیدر،ڈاکٹر عمیر منظر ، سمیت شہر کی سرکردہ ادبی شعری اور سماجی شخصیات نے لکھنؤ گھر پہنچ کر تعزیت مسنونہ پیش کی ۔جبکہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتمم مولانا و ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ،انٹیگرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید وسیم اختر، منور رانا ،پروفیسر وسیم بریلوی ، ڈاکٹر انجم بارہ بنکی ، ڈاکٹر کلیم قیصر ، منظر بھوپالی ،گلزار دہلوی ، ڈاکٹر نواز دیوبندی ،ڈاکٹر ماجد دیوبندی ، میثم گوپال پوری ، جوہر کانپوری ، شبینہ ادیب ، ملک زادہ جاوید ،شائستہ ثنا کانپوری ، ندیم نیر ، منصور عثمانی ، ندیم فرخ ، ہاشم فیروزآبادی ، کے علاوہ دیگر شعراء و ادباء نے بذریعہ فون تعزیت کی ۔

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت
ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...