خوشامد اور اشتعال انگیزی کی روش اور نیتوں کے فتور نے لفظوں کو بے بھرم کر دیاہے

یونیک ایجوکیشن سوسائٹی ممبرا کے ادبی پروگرام میں شمیم طارق کا اظہار خیال
ممبرا:۱۵؍ جنوری، (اختر کاظمی کے ذریعے):’’خوشامد اور اشتعال انگیزی کی روش اور نیتوں کے فتور نے لفظوں کو بے بھرم کر دیاہے‘ہر طرف نفاق کی فصل لہلہا رہی ہے ۔ یہ فصل کھا کر جو نسل جوان ہو گی وہ کیا کرے گی اس کا اندازا کرنا مشکل نہیں ہے۔مقام شکر ہے کہ سپریم کورٹ کے چار ججوں نے راہ دکھانے کی کوشش کی ہےاب شاعروں ‘ادیبوں اور صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ دولت‘اقتدار یا رسوخ کا آلہ کار بننے سے انکار کریں۔‘‘مندرجہ بالاالفاظ معروف ادیب وشاعر اورکالم نگار شمیم طارق نے یونیک ایجوکیشن سوسائٹی ممبرا کے زیر اہتمام منعقدہ’’ شمیم طارق کے نام ایک شام ‘‘ پروگرام میں کہے۔اس پروگرام کواس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ اس میں تصنع وتکلف کا شائبہ نہ ہو۔ایسا معلوم ہو کہ چند سنجیدہ فکر احباب بے تکلف گفتگو کر رہے ہیں ۔پروگرام کو الاؤ کا عنوان دیا گیا تھا ۔ الاؤ پروگرام اس سے پہلے بھیونڈی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے کتاب میلے میں گزشتہ سال منعقد کیا جا چکا ہے۔ گفتگو کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ موجودہ معاشرے میں انسانی رشتے کس طرح اپنی معنویت کھوتے جا رہے ہیں اور لفظ کس طرح بے بھرم ہو رہے ہیں۔ شمیم طارق نے کم وبیش ایک گھنٹے کی گفتگو میں لفظ اور معنے کے رشتے میں  نیک نیتی اور خلوص کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔انھوں نے کہا کہ لفظوں کے جو معانی صدیوں کے استعمال سے متعین ہو چکے ہیں وہ لغات میں لکھ دئیے گئے ہیں ۔پر ان کے عرفی معنی بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاق سباق ‘لہجے اور محل استعمال سے بھی لفظوں کے معنی میں تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک ایسے الفاظ ہماری زبان پر یا لغت میں نہیں آئے ہیں جو پوری طرح کیفیت یا ما فی الضمیر کو ادا کر سکیں ۔ اس لئے کیفیت کے سامنے الفاظ اپنی کم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں۔ شعراء اور ادباء لفظوں کے متعین معنی سے انحراف کے بغیر ان میں نئے معنی بھر دیتے ہیں ۔ یہ نئے معنی کہیں شعلہ بن جاتے ہیں کہیں شبنم۔لیکن تخلیق کار کی نیت صالح نہ ہو تو اس کے استعمال کئے ہوئے الفاظ اس نعش کی طرح ہوتے ہیں جس کا کوئی تعلق زندگی سے ہوتا ہے اور نہ انسانی معاشرے سے کیونکہ نعش صرف گدھ اور کیڑوں مکوڑوں کے کام آتی ہے۔بد قسمتی یہ ہے کہ صارفیت یعنی زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی خواہش اور سیاست دانوں کی ساحری نے بشمول ادن ‘صحافت ‘تعلیم حتی کہ مذہب کے نام پر سرگرم لوگوں کے حلقے میں بھی ایسے لوگ پیدا کر دئیے ہیں جن کے لئے الفاظ ایک ذریعہ ہوتے ہیں عوام کو بہلانے اور لوگوں کی توجہ اصل موضوع سے ہٹانے کا۔ایسے تمام لوگوں کی گفتگو اگر چہ برقی قمقموں سے سجے ہوئے ہال میں  الیکڑانک میڈیا یا اخبارات کے ذریعے ہوتی ہے۔ کچھ کو عوامی بھیڑ جمع کرنے کا گُر بھی آتا ہے مگر ان کے لفظوں میں تاثیر نہیں ہوتی کیونکہ ان کے الفاظ دل کی اعانت سے محروم ہوتے ہیں ۔ شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات کا بھی یہی حال ہے۔سستی شہرت اور روپیہ حاصل کرنے کے لئے جوکچھ تخلیق کیا جاتا ہےوہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔ادبی سیمینار اور مشاعرے سب بے مقصد ہو کر رہ گئے ہیں۔اس وقت حالت یہ ہے کہ نصاب تعلیم ‘تاریخ ‘ تہذیب کا تصور حتی کہ لفظوں کا مفہوم تک بدلا جا رہا ہے۔مسلم تعلیم گاہوں میں انتشار پیدا کرنے کے ساتھ ان کو حاشیے پر رکھے جانے کی کوششیں بھی جاری ہیں مگر اس کا جو احساس ہمیں ہونا چاہئے تھا وہ نہیں پیدا ہو سکا ہے۔کچھ شخصیتیں خود کو مسلط کرنا اور ہر اسٹیج پر گل افشانی ٔ گفتار کا مظاہرہ کرنا خوب جانتی ہیں۔ یہ بڑے ’’کاریگر ‘‘ لوگ ہیں اور پوری ملت انہی کے’’دام ِ ساحری‘‘ میں گرفتار ہے۔ان شخصیتوں کے عقیدت مند بہت ہیں ‘ان کے پاس وسائل بھی بہت ہیں۔ وہ اپنے وسائل کو ذہنوں کی خرابی اور سفلی جذبات کی تسکین کے لئے استعمال کرتے ہیں۔یہ لوگ جس زبان سے ہم سب کے آقااور انسانیت کے سب سے بڑے محسن کی سیرت بیان کرتے ہیں اسی زبان سے آپ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والوں کے لئے دعائے خیر بھی کرتے ہیں ۔یہ ہماری بے حسی ہے کہ ہم انہیں اپنی اونچی کرسی عطا کرتے ہیں ۔شمیم طارق نے کہا کہ ابھی حال ہی میں انڈین ہسٹری کانگریس کے صدر پروفیسر عرفان حبیب اور ممتا بنرجی نے تاریخ میں تبدیلی لانے کی جس کوشش کی نشان دہی کی ہےیا سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے جمہوریت کو درپیش جن خطرات کی طرف اشارے کئے ہیں وہ ہمیں بیدار کرنے کے لئے کافی تھے مگر ہم بیدار نہیں ہوئے ‘ہماری غفلت کا وہی حال اب بھی ہے جو پہلے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن کے ضمیر کی لو بجھ چکی ہے وہ تو پھل پھول رہے ہیں اور جو ضمیر کے ساتھ جینا چاہتے ہیں ان کے لئے حصول رزق کے ذرائع بھی محدود ہو رہے ہیں ‘جان اور عزت پر بھی حملے ہو رہے ہیں ۔شمیم طارق نے مزیدکہا کہ اس صورتحال کو بدلنے کا کام ان کی سربراہی میں ہو سکتا ہے جو لفظ ومعنی کے رشتے کے امین ہیں۔مگر یہ طبقہ بھی’’چلو تم ادھرکو ہوا ہو جدھر کی‘‘پر عمل پیرا ہے۔سپریم کورٹ کے چار ججوں نے سپریم کورٹ میں روایت اور اصول سے انحراف کے جن معاملات کی نشاندہی کی ہے وہ ہمارا ضمیر بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔نیتوں کا فتور اور دلوں میں پیدا ہوجانےوالا لالچ دور ہو تو لفظ و معنی کے رشتے کو مستحکم کر کے وہ فضا تیار کی جا سکتی ہے جہاں حق کا فیصلہ کسی کا منہ دیکھ کر یا کسی مفاد کے تحت نہ ہو ۔ آج معاشرے میں خواتین کے حقوق کا مسئلہ ‘ہم جنسی کو قانون سے باہر لے جانے کا مسئلہ ‘تعلیم گاہوں میں تجارت کا مسئلہ ‘تعلیم گاہوں کا مافیا کے طرز پر چلائے جانے کا مسئلہ آنے والی نسلوں کے لئے سوال بنا ہوا ہے۔ادب خلاء میں پیدا نہیں ہوتااس لئے ادیبوں اور شاعروں کو انسانی حقوق اور اخلاقی قدروں کی بحالی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ادیب ‘شاعر ‘صحافی معاشرے کا ضمیر ہیں ۔ اگر یہ انعام کے لئے وزیروں ‘سیاست دانوںیا غیر علمی لوگوں کےآلہ کار بن گئے تو اپنا وقار مجروح کریں گے ۔ ادب یا لفظ و معنی کا رشتہ اور اس رشتے کا وقار نیک نیتی ‘خلوص ِدل‘غمگساری اور بہر حال سچ کہنے کے حوصلے سے قائم رہتا ہے۔شاعرو ادیب کتنا ہی بڑا مقام حاصل کر لے‘اگر وہ سچائی کا نقیب نہیں ہےتو وہ ادیب وشاعر یا صحافی نہیں شمار کیا جاسکتا۔ہم لوگ اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں ۔ اس لئے حکومتیں ادبی اور تہذیبی اداروں کے ذریعے سیاست کر رہی ہیں ۔ پروگرام کے اخیر میں سوال وجواب کا وقفہ رکھا گیا تھا جس میں سامعین نے بھرپور دلچسپی لی اور سیاست سے لیکر مذہب ‘مسلم پرسنل لاء اور مسلم تعلیمی اداروں کے تعلق سے کئی اہم سوالات کئے جن کا شمیم طارق نے اطمینان بخش جواب دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *