
ممتا بنرجی کی شناخت کی سیاست

آر ایس ایس اور بی جے پی کیلئے سنجیونی ثابت ہورہی ہے
نور اللّٰہ جاوید
میرے کئی’’ صحافی نما دانشوروں‘‘ دوستوںکو یقین ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے بنگال فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے؟۔ان کے پاس اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کیلئے بنگال کی گزشتہ چالیس سالہ سیاسی منظرنامہ بطور ثبوت موجود ہے۔ایک طرح وہ یہ تھیوری بنانے میں حق بجانب بھی ہیں مگر 2011میں بایاں محاذ کے 34سالہ دور اقتدار کا خاتمہ اور ممتا بنرجی کی قیادت میں ترنمول کانگریس کی حکومت کے قیام کے بعدبنگال میںجس تیزی سے حالات میں تبدیلی آئی ہے اگراس کا معروضی تجزیہ کرنے کے بعد جو حقائق اور منظرنامے ہمارے سامنے آتے ہیں وہ صحافی دانشوروں کی تھیوری کو غلط ثابت کرتی ہیں ۔بلکہ اس وقت ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح بنگال دیگر ریاستوں کے مقابلے کہیں زیادہ بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے بہت ہی زرخیز بنتی جارہی ہے اوراس کا اندازہ خود وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو بھی ہونے لگا ہے اس لیے وہ اب اپنے سیاسی طور و طریقے میں تبدیلی لاتے ہوئے پولرائزیشن کی سیاست شروع کردی ہے ۔چناں چہ خود کو سیکولر کردار کی حامل جماعت کا دعویٰ کرنے والی ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس اب برہمن کانفرنس، ہنومان جینتی ، ہندو مہاسبھا کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کا یوم پیدائش اور درگاپوجا کی مورتیوں کی نمائش اور خوبصورت پنڈال بنانے والوںپر انعامات کی بارش کررہی ہیں ۔جب کہ اسی بنگال میں 1984میں وشو ہندوپریشد پورے ملک میں ’’آتما یاترا‘‘ نکال رہی تھی اور یہ یاترا جب کلکتہ پہنچا اور اس کے شرکاء نے بطور یکجہتی اس وقت کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو سے ملاقات کی کوشش کی تو جیوتی باسو نے ملنے سے صاف انکاکرکردیا۔ان کی دلیل تھی کہ اس طرح مذہبی پروگراموں کے ذریعہ ہندوستان کو متحد نہیں کیا جاسکتاہے ۔سادھوو سنتوں کی یہ یاترا جن ریاستوں سے گزررہی تھی ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سادھو و سنتوں سے ضرورملاقات کرتے تھے ۔یاترا کے اختتامی پروگرام میں تو سابق وزیر اعظم اندراگاندھی نے شرکت بھی کی۔آج اسی بنگال میں حکمراں جماعت اپنے پروگراموں میں مذہبی لیڈروں ومذہبی پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے تو اس کے اثرات سے بنگال کی سیاست کو متاثر ہونا ہی تھا۔
بنگال میں فرقہ پرستی کی سیاست کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ہندئوں کی مذہبی شناخت کی پہلی تحریک اسی بنگال سے سوامی ویکانند سرسوتی کی قیادت میں شروع ہوئی تھی اور مسلم لیگ کا آغاز بھی بنگال سے ہی ہوا تھا ۔جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی کا میدان عمل بھی یہی بنگال تھا اور1952-53کے عام انتخابات میں شیاما پرساد کی مکھرجی والی جن سنگھ کو ملک بھر میں تین سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اس میں دو سیٹیں بنگال سے تھیں ۔بابا صاحب امبیڈکر جو مہاراشٹر کے رہنے والے تھے اور ان کا میدان کار بھی وہی علاقہ تھا تاہم آئین ساز اسمبلی کیلئے پہلی مرتبہ وہ بنگال سے ہی منتخب ہوکر پہنچے تھے ۔1947سے 1960کے درمیان بنگال میں بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات جس میں ہزاروں افراد کا قتل ہوا اور لاکھ افراد نقل مقانی پر مجبور ہوئے ۔تاہم 60کی دہائی کے بعد بنگال کی سیاسی منظرنامہ پر کمیونسٹوں کے عروج کے بعد ہی بنگال کے سیاسی مزاج میں نمایاں تبدیلی آئی ۔کمیونسٹوں کی سیاست اور حکومت کرنے کاانداز جداگانہ تھا۔بلاشبہ سی پی ایم اور دیگر کمیونسٹ پارٹیوں پر فارورڈ کلاسو ں سے تعلقات رکھنے والے لیڈروں کا دبدبہ قائم تھا۔1964میں کمیونسٹ جماعتوں کی تقسیم کے بعد سی پی ایم کی پہلی پولٹ بیورو میں کوئی بھی دلت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے کسی بھی لیڈر کو جگہ نہیں دی گئی تھی۔تاہم سیاسی مفادات اور ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کیلئے عوامی سطح پر مذہب اور ذات پات کی سیاست کی نمائش سے اجتناب ہی نہیں سختی کے ساتھ گریز کی پالیسی نے بنگال میں مذہب اور ذات پات کی سیاست کا فروغ نہیں ہوسکا۔بایاں محاذ کے 34سالہ دور اقتدار میں بی جے پی کابنگال کی سیاست میں حاشیائی کردار کے علاوہ کوئی بڑا رول ادا نہیں تھا۔ممتا بنرجی نے 1999میں کانگریس سے علاحدہ ہوکر ترنمول کانگریس کی تشکیل کرنے کے ساتھ ہی اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی این ڈی اے کا حصہ بن گئیں ۔مگر بی جے پی اتحاد کا بنگال میں کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور ممتا بنرجی کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی بدولت کمیونسٹوں کا قلع و قمع نہیں کیا جا سکتا ہے۔چناں چہ ممتا بنرجی بی جے پی سے پلڑا جھاڑتے ہوئے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرکے 2011میں کمیونسٹوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
ممتا بنرجی نے اپنے اقتدار کے دوام اور عوامی پکڑ مضبوط کرنے کیلئے جو طریقے اور راستے کا اختیار کیا وہ بنگال کی سیاست کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے نادانستہ طور پر ہی سہی زمین راہ ہموار کی گئی ۔ممتا بنرجی نے ’’شناخت کی سیاست‘‘(Identity politics)کی شروعات بنگلہ دیش سے آئے رفیوجیوں کے متوا سماج(دلت طبقہ) کے ایشو کے ذریعہ کیااور دلتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔مسلمانوں کی مسیحا بنے کی کوشش میں امپاور منٹ کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے جذباتی نعروں اور اعلانات کا سہا رالیا گیا۔ ممتا نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کا باریکی سے تجزیہ اور اس کا سفارشات پر عمل کرنے کے بجائے ’’مسلمانوں کیلئے علاحد ہ مارکیٹ ، علاحدہ میڈیکل کالج اسپتال ‘‘ جیسے غیر ممکن اعلانا ت کیا ۔اس کے بعد بعد ائمہ مساجد و موذن کی تنخواہ دینے کا اعلان کرکے یہ سوال کھڑا کردیا گیا کہ آخر کوئی بھی مذہبی عبادت گاہوں کے پیشوائوں کو سرکاری خزانے سے کس طرح تنخواہ دے سکتی ہے۔اور اگر مسجد کے اماموں کو تنخواہ دی جاسکتی ہے تو مندر کے پوجاریوں ، گروداروں ، چرچ اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کے ذمہ دار وں کو نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے ۔بڑے پروگرامات کے انعقاد کے ذریعہ اقلیتی طلباء کے درمیان سائیکل اور اسکالر شپ کی تقسیم کی نئی روایت ۔جب کہ اس اسکیم کے ذریعہ دیگر کمیونیٹی اور طبقات کے بچوں کو بھی فائدہ پہنچا یاگیا اور مگر میڈیا میں یہ باور کرایا گیا اس اسکیم سے صرف اقلیتی طلباء کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے ۔اس طرح بی جے پی ، آر ایس ایس اور دیگر ہندو تنظیموں کو یہ پروپیگنڈ کرنے کا موقع حاصل ہوگیا کہ ممتا بنرجی صرف مسلمانوں کی وزیر اعلیٰ ہیں اور ان کے لئے کام کررہی ہیں۔جب کہ زمینی سطح پر سچر کمیٹی رپورٹ کے دس سال بعد بھی مسلمانوں کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
گزشتہ دو تین سالوں میں مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جس میں شمالی 24پرگنہ کے حاجی نگرفساد، ہوڑہ کے ڈھولا گڑھ میں فرقہ وارانہ فسادات، بشیرہاٹ فرقہ وارانہ فساداور کھڑکپور فرقہ وارانہ فساد قابل ذکر ہیں ۔ان فسادات کو گجرات فسادات، بھاگل پور فسادات ، جمشید پور فسادات اور ہاشم پورہ و ملیانہ فسادات کے تناظر میں فساد نہیں کہا جاسکتاہے۔بلکہ یہ چھوٹی موٹی فرقہ وارانہ جھڑپیں تھیں جس میں نہ کوئی جانی نقصان ہوا اور نہ ہی بڑے پیمانے پر مالی نقصانات مگر میڈیا اور بی جے پی نے ان فسادات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دنیا کویہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بنگال میں بھی کشمیر جیسے حالات ہیں اور مسلم اکثریتی علاقوں سے ہندئوں کو نکالا جارہا ہے۔فرقہ وارانہ فسادات پر سخت کارروائی کرنے کے بجائے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی بھی یہاں پر الزامی سیاست کرتی رہیں اور اس کا فائدہ آر ایس ایس و بی جے پی کو براہ راست پہنچا۔
2014کے پارلیمانی انتخاب سے قبل بنگال میں بی جے پی کا صرف 2 فیصد ووٹ تھا ۔مگر 2014میں ووٹ فیصد میں اضافہ ہوکر 17فیصد ہوگیا اور 2016کے اسمبلی انتخاب میں 11فیصد کے قریب بی جے پی کا ووٹ فیصد پہنچ گیا ۔حالیہ دنوں ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 20فیصد سے آگے بڑھ چکا ہے ۔یوپی ، آسام اور دیگر ریاستوں کی طرح سنگھ پریوار مائنس اقلیتی ووٹ کے فارمولے پر کام کررہی ہے اور اس کیلئے 11ملین ہندو بنگلہ دیشی رفیوجیوں پر بی جے پی کی گہری نگاہ ہے جو 294اسمبلی حلقوں میں سے 75سیٹوںپر فیصلہ کن پوزیشن رکھتے ہیں۔2015میں نریندر مودی حکومت نے بنگلہ دیش سے آنے والے ہندئوں کو ہندوستان میں ٹھہرنے کی اجازت دینے کے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک بل متعارف کرایا جس کے مطابق ہندوستان میں 6سالوں سے مقیم بنگلہ دیشی مہاجر ہندو خود بخود ہندوستانی شہریت کے حامل ہوجائیں گے۔بنگال میں آر ایس ایس کی بڑھتے تیزی سے گراف کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ 2011تک بنگال میں آر ایس ایس کی شاکھائوں کی تعداد محض300کے قریب تھی۔مگر آ ج ریاست کا کوئی ایسا بلاک نہیں ہے جہاں آر ایس ایس کی شاکھائیں نہیں لگتی ہیں ۔آر ایس ایس کے ماتحت چلنے والے اسکولوں کی تعداد30تھی آج یہ تعداد 200کے قریب پہنچ چکی ہے ۔
ممتا بنرجی کی ’’شناخت کی سیاست‘‘ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بنگال سے 30فیصد مسلم آبادی کے مسائل، ترقی اور امپاور منٹ جیسے ایشوز پس پردہ چلے گئے ہیں ۔ اگر اقلیتوں سے متعلق کوئی ایشوز ہے تو وہ منفی ، بنگلہ دیشی اور کرائم کے حوالے سے ہورہی ہے۔پولرائزیشن کی سیاست اس قدر حاوی ہوچکی ہے کہ پارٹی کی مسلم لیڈروں کو مسلم مسائل پر بات چیت کرنے سے سخت ممانعت ہے ۔راجیہ سبھا کے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ نے بتایا کہ پارٹی نے سختی سے منع کردیا تھا کہ کوئی بھی پارلیمنٹ میں تین طلاق کے ایشوز پر نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی میڈیا میں کوئی بات چیت کرے گا۔مگر راجیہ سبھا میں کانگریس کے موقف میں تبدیلی آنے کے بعد پارٹی قیادت کا اشارہ ملنے کے بعد ہم نے بل کی مخالفت میں ہنگامہ آرائی شروع کی ۔بنگال کی سیاست میں جس تیزی سے حالات تبدیل ہورہے ہیں وہ مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہیں ۔اگر وقت رہتے ان مسائل پر غور اور تدارک کی کوشش نہیں کی گئی تو خدشہ ہے کہ بنگال میں آسام جیسے حالات پیدا ہوجائیں جہاں لاکھوں مسلمانوں پر شہریت کی تلوار لٹک رہی ہے ۔