
ملی الامین کالج کا اقلیتی کردار ختم، اردو اسکولیں بند، سرکاری مدرسوں کا براحال

آخر بنگال کے مسلمان اتنے بے بس کیوں ہیں!
این قاسمی
مغربی بنگال میں گزشتہ 70سالوں سے سیکولر نواز حکومت ہے، گزشتہ 7سالوں سے تو سیکولر ازم کی چمپئن اور مسلمانوں کی امیدوں کی واحد مرکز ممتا بنرجی کی حکومت ہے مگر اس کے باوجودکلکتہ کے مسلمانوں کا واحد کالج ملی الامین بند ہونے کے قریب ہے، اردو اسکولیں اساتذہ کی قلت کی وجہ سے بند ہورہے ہیں اور سرکاری مدارس بھی بدحائی کے دہانے پر ہے، اس کے باوجودمسلمانوں کے پاس آج ایسا کوئی بھی باشعور لیڈر نہیں ہیں جو مسلمانوں کے مسائل پر حکومت سے دو ٹوک بات کرسکے۔حکمراں جماعت کے مسلم لیڈران جرأت و بے باکی سے ہی عاری ہیں، اتنی بے بسی اس سے قبل نہیں تھی جو آج ہے؟۔سوال یہ ہے کہ آج بنگال کے مسلمان اتنے بے بس کیوں ہیں؟قبل اس کے اس کا نوحہ لکھا اور پڑھا جائے،تھوڑی دیر کیلئے میں آ پ کو ماضی کی طرف لے جانا چاہتا ہوں تاکہ مسلمانوں کی مایوسی اور بے بسی کے منظر نامے کو صحیح سے سمجھ سکیں۔
”سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت عیسائیوں کے علماء یروشلم میں اس بحث میں مصروف تھے کہ جب حضرت عیسیؑ کو صلیب پر چڑھایا جارہا تھا تو انہوں نے خمیری روٹی کھائی تھی یا سادہ روٹی۔اسی قسم ایک واقعہ اسلامی عہد میں بھی پیش آیا کہ”جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیاتو اس وقت مسلم دانشور ان، علماء، اور مفتیان کرام دریائے فرات کے کنارے بیٹھ کر یہ بحث کررہے تھے کہ مسواک کا سائز کیا ہونا چاہیے“۔اسی طرح کا ایک اورواقعہ کربلا کے پچاس سال بعد کوفے میں پیش آیا”اس وقت عالم اسلام شدید اضطراب اور خانہ جنگی کا شکار تھا لیکن کوفہ میں یہ بحث چھڑگئی تھی کہ مچھر کو مارنا جائزہے یا نہیں یہ بحث بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ کوفہ کے مفتیوں نے تلواریں کھینچ لیں، جب بات فسادتک آگئی تو کوفہ کے والی نے شہر کے معززین کا ایک وفد بنایا اور اسے بغداد بھجوایا، بغداد میں اس وقت ایک امام صاحب موجود تھے جب کوفہ کے معزز لوگوں نے امام صاحب سے پوچھا ”حضرت یہ بتائیے کیا اسلام میں مچھر مارنا جائز ہے یا ناجائز“ تو امام صاحب نے افسوس سے سرہلایا اور ان سے کہا کہ”اے کوفہ کے بدبخت لوگو!تمہارے سامنے کربلا کا واقعہ پیش آیا اور تمہیں اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ تم آلِ رسول ﷺ کو پانی پلادیتے لیکن آج تم مچھر کے بارے میں فتویٰ لینے کیلئے آگئے ہو۔ تم سے بڑا بدبخت اوربے حس کون ہوگا“؟۔
کم وبیش یہی صورت حال ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص مغربی بنگال کے مسلمانوں کا ہے، فرقہ پرست قوتیں تیزی سے اپنے دائرہ کار بڑھارہی ہے۔ نفرت انگیز مہم کے ساتھ بنگال کے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک اور کردار کو مسخ کرنے کی باضابطہ مہم چلائی جاررہی ہے تودوسری طرف سیکولر اور اقلیت نواز حکومت ہے جو بی جے پی کا خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ تو حاصل کرتی ہے مگر مسلمانوں کا ان کا حق، امپاور منٹ کرنے اور تعلیمی پسماندگی کے خاتمے اور سماج و معاشرہ میں باعزت شہری بنانے کیلئے تیار نہیں ہے۔بلکہ مسلمانوں کوجذباتی نعروں اور اعلانات میں الجھائے رکھنے کی شعوری طور پرکوشش کی جارہی ہے۔دوسری طرف مسلم عوام کی اکثریت ہے انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے،بلکہ وہ مشاعروں، قوالی، سیمناروں، حکمراں محاذ کے لیڈروں کے استقبال میں مصروف ہیں۔
آزادی کے بعد قائم ہونے والا پہلا مسلم تعلیمی ادارہ ملی الامین گرلس کالج میاس وقت محض 22طالبات زیر تعلیم ہیں اور اگلے چند مہینے میں طالبات کی تعداد صفر ہوجائے گی۔ایسا نہیں ہے پڑھنے والے نہیں ہیں بلکہ اقلیتی کردار ختم ہونے کی وجہ سے نئے داخلے نہیں لیے جارہے ہیں۔اسی طرح ریاست بھر کے اردو میڈیم اسکولیں اساتذہ کی قلت کے سبب بند ہورہے ہیں، کالجوں میں اردوکے شعبے کا کم وبیش وہی صورت حال ہے۔مسلم ادارے بدعنوانیوں اور بد انتظامیوں کی وجہ سے اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں۔کہنے کو تو مغربی بنگال میں تعلیم اور ملازمت میں مسلمانوں کو ریزرویشن ہے مگرمرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کی سالانہ ”آل انڈیا ان سروے آن ہائی ایجوکیشن“(اے آئی ایس ایچ ای)رپورٹ کہتی ہے کہ 2015-16میں مغربی بنگال کی بڑی سرکاری و پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں جس میں پریڈنسی یونیورسٹی کلکتہ، وشوبھارتی یونیورسٹی شانتی نکیتن، دی انسی ٹیوٹ آف تکنالوجی کھڑکپور، مغربی بنگال یونیورسٹی ٹیچر ٹریننگ، ایجوکیشن پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کلکتہ، انڈین انسی ٹیوٹ آف انفارمیشن تکنالوجی کلیانی، قاضی نذرالاسلام آسنسول، مغربی بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی کلکتہ بدھان چندر کرشی وشو ا ودھالیہ موہن پور، امیٹی (پرائیوٹ) یونیورسٹی میں کل1,140طلباء کا داخلہ ہوا مگر اس میں ایک بھی مسلم طالب نہیں ہے۔رپوٹ کے مطابق مغربی بنگال کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں مسلم طلباء کی تعداد صفر سے 3فیصد کے درمیان ہے جب کہ ریاست میں مسلمانوں کی شرح آبادی 29فیصد کے قریب پہنچ ہے۔
مغربی بنگال ہی نہیں ملک بھر اپنی منفرد شناخت رکھنے والا جادو پور یونیورسٹی میں گزشتہ سال طلباء کی کل تعداد 8,329تھی جس میں مسلم طلباء کی تعداد محض 50(0.6فیصد)تھی۔اسی طرح مرکزی حکومت کے فنڈ سے چلنے والے انڈین اسٹے ٹسٹیکل انسی ٹیوٹ(آئی ایس آئی) میں کل 740طلباء زیر تعلیم ہیں جس میں مسلم طلباء کی تعداد محض 8یعنی 10.8فیصد ہے۔اسی طرح رابندر بھارتی یونیورسٹی میں کل 6,522طلباء زیر تعلیم ہیں جس میں مسلم طلباء کی تعداد محض 2.34فیصد ہے اور سلی گوڑی میں واقع یونیورسٹی آف نارتھ بنگال سلی گوڑی میں مسلم طلباء کی تعداد محض 2.6فیصد ہے۔ صرف عالیہ یونیورسٹی اور مالدہ ضلع میں واقع گوربنگا یونیورسٹی میں مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔عالیہ یونیورسٹی میں جو اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے تحت ہے میں کل 6,772طلباء زیر تعلیم ہیں جس میں مسلم طلباء کی تعداد 6,656ہے اور گوربنگا یونیورسٹی میں کل 2,500طلباء زیر تعلیم ہیں اس میں مسلم طلباء کی تعداد 800کے قریب ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ان دونوں یونیورسٹیوں کا معیار کیا ہے؟ بنگال کی یونیورسٹی کی اگر درجہ بندی کی جائے یہ دونوں یونیورسٹی سب سے نچلے پائدان پر ہے۔عالیہ سے متعلق میں نے کئی مرتبہ لکھابھی ہے۔
مغربی بنگال کے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی صورت حال پر غیر سرکاری تنظیم پراتیچی کی 2016کی رپورٹ کے مطابق بنگال کے جن بلاکوں میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے وہاں اسکولوں کی تعداد بہت ہی زیادہ کم ہے۔رپورٹ کے مطابق جن بلاکوں میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 50فیصد سے زاید ہے وہاں دس ہزار آبادی پر اسکول کی شرح محض 4.6فیصد ہے۔جب کہ دیگر بلاکوں میں دس ہزار آبادی پر 6.3فیصد اسکول ہیں اور جن بلاکوں میں مسلمانوں کی آبادی 15فیصد سے کم ہے وہاں دس ہزار آبادی پر 7.7فیصد سرکاری اسکول ہے۔اسی طرح مغربی بنگال میں جونیئر سیکنڈری، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولیں ایک لاکھ آبادی پر 10.6فیصدہیں مگر شمالی دیناج پور، مالدہ اور مرشدآباد میں ایک لاکھ آبادی پر بالترتیب 6.2.8.5اور 7.2سیکنڈری اسکول ہیں۔اور ان اسکولوں میں ٹیچروں کی تعداد بھی کہیں زیادہ کم ہے۔اسی طرح ان علاقوں میں کالجوں کی تعداد بہت ہی کم ہیں۔
آیے ملی الامین کا نوحہ پڑھتے ہیں
ہندوستان کی آزادی سے قبل کلکتہ شہر کے سرکردہ مسلمانوں نے کئی تعلیمی وسماجی ادارے قائم کیے جس میں ہگلی ضلع میں واقع حاجی محسن مدرسہ، یتیم خانہ اسلامیہ، مسلم انسٹی ٹیوٹ، اسلامیہ اسپتال، انجمن مفید الاسلام وغیر ہ شامل ہیں۔مگر آزادی کے بعد گزشتہ 70سالوں میں کلکتہ شہر میں مسلمانوں نے صرف ایک کالج ملی الامین کالج قائم کیالیکن وہ بھی اب بند ہونے کے قریب ہے؟ سوال یہ ہے کہ یہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اور اس کیلئے ذمہ داران کون ہے؟ کیا مسلمان ایک کالج تک نہیں چلا سکتے ہیں۔مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھے جانے والا ملی الامین کے قیام کا سلسلہ 1992میں شروع ہوا، اس کالج کیلئے عام مسلمانو ں نے چندہ دیا،مگر تعمیر کیلئے ناکافی تھے، بنگلور الامین مشن نے تعاون کیا تو کالج کی تعمیر مکمل ہوئی، اس کالج کے ابتدائی پروگراموں سابق وزیر اعلیٰ جیوتی باسو بھی شریک ہوچکے تھے۔تاہم 8سال کے وقفے کے بعد2000میں کالج کو حکومت سے منظوری ملی اور مگر اقلیتی درجہ حاصل نہیں کیوں کہ اس وقت بایاں محاذ حکومت کے پاس کوئی بھی انسی ٹیوشن نہیں تھا جو اقلیتوں کے اداروں کو اقلیتی درجہ دسے سکے۔8سالوں تک یہ ادارہ اقلیتی کردار کیلئے جدو جہد کرتا رہا۔2004میں مرکز میں یوپی اے حکومت کے قیام کے بعدنیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن کو پارلیمنٹ کی منظوری سے قائم کیا گیا اس کا مقصد اقلیتوں کے اداروں کو اقلیتی درجہ فراہم کرنا تھا۔ملی الامین کالج کی انتظامیہ نے 27-5-2008کونیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن میں اقلیتی کردار کیلئے اپیل کی۔نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن نے سماعت کرتے ہوئے 21اکتوبر 2008کو ملی الامین کو اقلیتی کردار کا درجہ دیدیا۔اس کے بعد کالج انتظامیہ نے ریاستی حکومت سے رابطہ کیا کہ انہیں نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن سے اقلیتی درجہ مل گیا ہے اس لیے انہیں سہولیات فراہم کی جائے۔ چناں چہ محکمہ تعلیم بنگال نے اس درخواست پر کوئی اعتراض اور تبصرہ کرنے کے بجائے اس درخواست کومحکمہ مدرسہ تعلیم و اقلیتی امور کے پاس بھیج کر رائے طلب کیا۔محکمہ وزارت اقلیتی امور نے بھی اس پر مہر ثبت کردیا۔ قوانین اور ضابطے کی معلومات کی کمی اور لال فیتاشاہی کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے کارروائی کا عمل سست روی سے آگے بڑھتا رہا۔2010کے اخیر میں کلکتہ یونیورسٹی نے بھی نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے کالج انتظامیہ کو ہدایت دی کہ اقلیتی کردار کے تناظر میں ایک نیا آئین اور ضوابط سازی مرتب کرکے دیں تاکہ انہیں اساتذہ و دیگر عملے کی بحالی کی اجازت دی جائے۔کالج انتظامیہ نے بروقت نیا آئین بناکر کلکتہ یونیورسٹی میں پیش کردیا اور اس کو یونیورسٹی کی سنڈیکٹ نے منظوری دیدی۔اس طرح کالج انتظامیہ کو اساتذہ، لائبرین اور دیگر عملہ کو بحال کرنے کا اختیار دیدیا۔اس درمیان 2011کا اسمبلی انتخاب سر پر آگیا اور پوری کارروائی دھری کی دھری رہ گئی۔20مئی 2011میں ممتا بنرجی کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل ہوئی اور اس کے بعد ہی مسلم اداروں میں ایک نئی سیاست کا آغاز ہوا، کالج انتظامیہ میں نئی کمیٹی جس میں حکمراں پارٹی کے لیڈران تھے شامل ہوگئی۔ اس کے بعدممتا بنرجی کابینہ کے پہلے وزیر تعلیم دیبرتا باسو نے کالج کے نئے اصول و قوانین کے برخلاف 2012میں ہی کالج کی خود مختاری کو چیلنج کرتے ہوئے حکومت کے دونمائندوں کو بدلنے کی کوشش کی۔جب کہ نئے قانون کے مطابق کالج انتظامیہ حکومت کے سامنے چار پانچ نام بھیجے گی اس میں سے ہی کسی دو کا نام حکومت منتخب کرے گی۔ یہیں سے حکومت اور کالج انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا دور شروع ہوا۔کالج انتظامیہ نے خود مختاری کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت تعلیم کے حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔اس کی وجہ سے اساتذہ اور بحالی کا معاملہ روک گیا۔اس درمیان اسکول ٹیچروں کے آپسی تنازع اور پھر تین ٹیچروں کی برطرفی کے بعد معطل ٹیچروں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے اقلیتی کردار کو چیلنج کردیا۔دوسری جانب وزارت تعلیم میں بھی تبدیلی آئی اور اب ترنمول کانگریس کے سیکریٹری جنرل اور پارلیمانی امور کے وزیر پارتھو چٹرجی کو محکمہ تعلیم کا چارج دیدیا گیا۔کالج انتظامیہ نے انہیں استقبالیہ دے کر اپنے مسائل کو پیش کیا۔سیاسی اختلافات کے باوجود کالج کے سابق صدر و بایامحاذ کے سینئر لیڈر وسابق ممبر اسمبلی محمد نظام الدین بھی اس تقریب میں نہ صرف شرکت کی بلکہ تقریر کرکے پارتھوچٹرجی سے کہا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔استقبالیہ کے فوری بعد 30-12-2014 کووزارت تعلیم نے کالج انتظامیہ کو ٹیچروں اور دیگر عملہ کو بحال کرنے کی اجازت دیدی۔ مگر محض 20دنوں بعد 20-1-2015کووزارت تعلیم نے یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے حکم کو واپس لے لیا کہ چوں کہ عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہے جب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں آجاتا کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔سوال یہ ہے کہ آخر ان 20دن میں کیا تبدیلی آئی کہ وزارت تعلیم نے خط کو واس لے لیا دوسرے یہ عدالت میں حکومت کے وکیل نے ملی الامین کالج کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی۔اور یکم اپریل 2016کوکلکتہ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئینیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشن کے فیصلے کو رد کردیا اور اساتذہ کی بحالی کا حکم دیا گیا۔مگر ڈویژن کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگادی۔
سوال یہ ہے کہ کالج انتظامیہ کمیٹی کے صدر کے عہدہ پر ترنمول کانگریس کے سینئر لیڈر سلطان احمد تھے تو پھر حکومت کا یہ رویہ کیوں تھا؟ دوسرے یہ کہ جب جنوری 2015میں ہی حکومت کی بدنیتی سامنے آگئی تھی تو اس وقت کالج انتظامیہ نے عوام کے سامنے اس پورے معاملے کیوں نہیں لایا تاکہ اسمبلی انتخابات میں ووٹ کے ذریعہ کررا جواب دیا جاتا۔حکومت اور ممتا بنرجی کی بدنیتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ پہلے ان سے وعدہ کیا کہ اقلیتی کردار کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس لیے ٹیچروں کی معطلی واپس لے کر ہائی کورٹ ڈویژن بنچ سے کیس واپس لے لیں اور جب انہوں نے حکومت کی ز بانی یقین دہانی پر ٹیچروں کی معطلی ختم اور کیس واپس لے لیا اور سینئر وزراء کی چہیتی من پسند ٹیچر کو پرنسپل بنادیا تو حکومت ٹال مٹول کرنے لگی۔اسی تکلیف اور درد کے ساتھ سلطان احمد اللہ کے پیارے ہوگئے۔سلطان احمد کے انتقال کے بعد ممتا بنرجی کے کابینہ کے سینئر وزیر فرہاد حکیم کو ملی الامین کالج کا صدر اس امید سے بنایا گیا وہ اس مسئلہ کو حل کردیں گے۔مگر وہ بھی بے بس نظر آرہے ہیں۔بلکہ حکیم نے تو میٹنگ اور کمیٹی کے ممبران سے بات کرنے سے ہی منع کردیا۔کمیٹی کے ممبران اور عام مسلمان بے بس ہیں کہ وہ اب کس کے پاس جائیں وزیر اعلیٰ کے پاس مسلمانوں سے ملاقات کرنے کا وقت نہیں اور مسلم وزراء مجبور محض ہیں۔اور عام مسلمان استقبالیہ، مشاعرہ، قوالی اور سیمیناروں میں مصروف ہے۔