Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

by | Mar 17, 2018

mayawati

 ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)

تریپورہ میں کمیونسٹوں کے پچیس سالہ دور اقتدار کو ختم کر نے بلکہ وہاں ان کی نمائندگی کو بھی تقریباً پوری طرح صاف کر دینے، میگھالیہ میں خود محض دو سیٹیں جیت کر اکیس سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری کانگریس کوگٹھ جوڑ کی سیاست کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دینے اور اسی طرح ناگالینڈ میں ایک غیر اتحادی جماعت کی ستا پلٹنے کے بعد بی جے پی لوک سبھا ضمنی انتخابات میں بری طرح ہار گئی ۔ وہ اپنے مضبوط بلکہ ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے گڑھ گورکھپور میں اپنی سیٹ بھی نہیںبچا سکی اور بہار میں لالو کی راشٹریہ جنتا دل کی خالی سیٹ بھی اس سے چھین نہیں سکی جبکہ اس بار نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹیڈ اس کی حلیف تھی۔ حالانکہ بی جے پی نے یہاں اچھی بلکہ جان توڑ محنت کی تھی ووٹرس کو لبھانے کا کوئی کام باقی نہیں رکھا تھا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد خاص طور سے گورکھپور میں تو یوگی جی نے کافی سارے ترقیاتی پروجیکٹس شروع کروائے ہیں اور آخری حربہ فرقہ واریت کا بھی خوب آزمایا تھا ۔ ویسے بھی بی جے پی سرکار آنے کے بعد سے یوپی ہی کیا پورے ملک میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ برابر جاری ہے اور اسے مختلف حوالوں سے جاری رکھنے کا سامان بھی کیا جارہا ہے جیسے ہی یہ ماحول ٹھنڈہ ہونے لگتا ہے کسی نہ کسی طرف سے کوئی نہ کوئی متنازعہ بیان داغ دیا جاتا ہے اور حالات پھرویسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے تھے ۔ خود و زارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد بڑھا ہے جو پچھلے چار سالوں میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں یوپی سر فہرست ہے جہاں 44،افراد ہلاک اور 540 افراد زخمی ہوئے ہیں یہ آنکڑے 2016 میں بالترتیب 22اور 510 تھے ( این ڈی ٹی وی آن لائن 14،مارچ 2018 ) اس ماحول کو انتخابی طور پر کیش کر نے کے لئے انتخابات سے کچھ ہی پہلے وزیر اعلی یوگی جی نے کہا تھا کہ وہ ہندو ہیںاور عید نہیں مناتے ۔ لیکن اس سب کے باوجود انہیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ۔ گورکھپور اور پھولپور کی دونوں سیٹیں بی جے پی کے پاس تھیں جو یوگی ادتیہ ناتھ اورکیشو پرساد موریہ کے بالترتیب وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ بننے کی وجہ سے خالی ہوگئی تھیں ۔گورکھپور تو ویسے بھی بی جے پی کا مضبوط ترئن قلعہ تھا جہاں1991سے بی جے پی امیدوار ہی منتخب ہوتے آئے ہیں یوگی جی مسلسل پانچ مرتبہ وہاں سے رکن لوک سبھا رہ چکے ہیں لیکن اب وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی وہ وہاں سے اپنے نمائندے کو منتخب نہیں کرواسکے۔ ان انتخابات میں بی جے پی ہاری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ نقصان کانگریس کا ہوا ہے جو آنکڑے اخباروں میں آرہے ہیں ان کے مطابق کانگریس کو پچھلے لوک سبھا انتخابات کے مقابلہ اس بار دونوں حلقوں میں اپنے ووٹوں میں تقریباً ۶۰ فیصد کا نقصان اٹھانا پڑا اور دونوں جگہ اس کے امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے ۔ لیکن کانگریس صدر راہل گاندھی نے کہا کہ ان نتائج سے صاف ہو گیا کہ ووٹرس میں بی جے پی کے خلاف سخت غصہ ہے ۔جبکہ آنکڑوں کے مطابق ان انتخابات میں بی جے پی کا ووٹنگ فیصد گھٹا توہے لیکن اتنا نہیں گھٹا کہ اسے آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اس کی ہار کی شروعات مان لیا جائے بلکہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہاں بی جے پی ووٹنگ فیصد کم ہونے کی وجہ سے ہاری،یعنی لوگوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے لیکن اتنا نہیں جتنا اس کی شکست کے لئے درکار ہے۔یہاں بی جے پی کی ہار کی سب سے بڑی وجہ دراصل بی ایس پی کا الیکشن نہ لڑنا اور سماج وادی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کرنا یہی نہیں بلکہ ان کے لئے زمینی لیول پر کام کرنا اور اپنا سارا ووٹ اس کے حق میں کامیابی سے ٹرانسفر کروانا ہے ۔اس جیت کے لئے مبارکباد کی جتنی مستحق سماج وادی پارٹی ہے اس سے زیادہ حقدار بی ایس پی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی جہاں کہیں فتح یاب ہوتی ہے زیادہ تر اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوتی ہے اور 2014کے بعد سے جہاں کہیں ہاری زیادہ تر اپنے مخالف ووٹوں کے اتحاد کی وجہ سے ہاری ۔لیکن اس کے مخالفین کا یہ اتحادگھانس پھونس کی دیوار کی طرح نازک ہوتا ہے جو کسی بھی رخ سے آنے والے ہوا کے معمولی جھونکے سے بکھر جاتا ہے ۔ یوپی میں اس سے پہلے بھی ایس پی اور بی ایس پی کا اسی طرح کا اتحاد اس وقت بی جے پی کو شکست دے چکا ہے جب 2014 پارلمانی انتخابات کے فوراً بعد مودی لہر انتہائی مضبوط تھی اس وقت بی جے پی کے جو ایم ایل اے لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے تھے ان کی خالی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو دس میں سے صرف تین سیٹوں پر ہی کامیابی مل پائی تھی صرف اور صرف اس لئے کہ اس وقت بھیہ بی ایس پی نے انتخابات نہیں لڑے تھے۔ لیکن پچھلے سال ہوئے اسمبلی انتخابات میں اس طرح کے اتحاد کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا اور بی جے پی مخالف ووٹ جو مجموعی طور پر اس کو ملنے والے ووٹوں سے زیادہ تھے ان کی ان دونوں پارٹوں میں تقسیم کی وجہ سے بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی ۔میڈیا کے اعدادو شمار کے مطابق پچھلے لوک سبھا انتخابات میں بھی کم از کم پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کو ملے ووٹ ایس پی اور بی ایس پی کو ملے مجموعی ووٹوں سے کم تھے یعنی ان جگہوں پر بی جے پی اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہاری تھی، حالانکہ اس وقت بھی گورکھپور میں یوگی جی کو ان دونوں پارٹیوں کے مجموعی ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوسکا اور اس میں اتحاد کے علاوہ کچھ ذات کی مساوات کا رول بھی کار فرما ہے ۔یعنی اب بھی اگر یہ دونوں پارٹیاں یوپی کی صوبائی سیاست کو دور رکھ کر کم از کم لوک سبھا انتخابات کی حد تک ہی کوئی معقول اور متوازن فارمولے پر اتحاد کرلیں تو اگلے لوک سبھا انتخابات میںپورا یوپی بی جے پی کے لئے گورکھپور اور پھولپور ہو سکتا ہے۔ اور اگر کانگریس اپنی انا کے بت کو توڑ کر بی جے پی مخالف علاقائی پارٹیوں کو ان کے حق کے مطابق بھر پور حصہ داری دے کر ایک ساتھ لا نے اور ایک ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوگئی تو بی جے پی کے لئے سارا ملک گورکھپور ہوسکتا ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...