ٹیکسی ڈرائیور نے غریبوں کے علاج کے لئے بنوایا اسپتال مسلم بہن کی موت کے بعد

Taxi Driver Kolkata

مغربی بنگال کے ضلع 24پرگنہ میں زیر تعمیر اسپتال پورے ملک میں موضوع بحث ہے۔ اس اسپتال میں نہ ہی ٹیسٹ مشینیں ہے اور نہیں ائیر کنڈیشن کی سہولت  لیکن یہ اسپتال غریبوں کے علاج کا ایک بڑا مرکز ہے۔  اس اسپتال سےایک ایسے بھائی کے درد کی داستان جڑی ہے جو غربت کی وجہ سے اپنی بیمار بہن کا مناسب علاج نہ کرواسکا اوروہ اس دنیا سے چلی گئی۔

ٹیکسی ڈرائیور سعید لشکر نے سال 2004 میں اپنی بہن معروفہ  کے سینے میں انفیکشن سے موت کے بعد ایک ایسے کام کا بیڑہ اٹھایا جو اس وقت ناممکن لگ رہا تھا۔ سعید کے پاس اس وقت معروفہ کابڑے اسپتال میں علاج کرانے کے لئے  وسائل نہیں تھے اور  اس نے محض 17سال کی عمر میں دنیا کو خیرآباد کہہ دیا۔

معروفہ کے انتقال سے سعید کو بہت صدمہ ہوا لیکن اس نے عہد کیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس میں علاج کے بغیر کسی کو اس طرح نہیں مرنے دے گا۔

کولکاتہ سے تقریبا 55 کلومیٹر دور بروئی پور کے پاس پونری گاؤں میں معروفہ اسمرتی ویلفیئر فاؤنڈیشن  کے مریضوں  کے لئے نو تعمیر شدہ  ویٹنگ ہال کی دیوار کے سہارے کھڑے سعید نے کہا ” مجھے لگا کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے تاکہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کو اپنی جان نہ گنوانا پڑے۔ میری یہی خواہش ہے کہ میری طرح اب کسی اور بھائی کو اپنی بہن نہ کھونا پڑے۔”

سعید نے بتایا کہ اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے انہوں نے بارہ سال تک کولکاتہ کی سڑکوں کی خاک چھانی اور ایک لمحے  کے لئے انہیں اس مقصد  اور اس کام کو چھوڑنے کا خیال نہیں آیا۔وہ گذرے ہوئے دن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

سعید ٹیکسی چلاتے وقت گاڑی میں بیٹھے مسافروں کو اپنے مشن کے بارے میں بتاتے ، انہیں اس کی دستاویز اور دوسرے لوگوں سے ملی اعانت کی رسید بھی دکھاتے، لیکن اکثر لوگ ان کی مدد کرنے سے انکار کردیتے۔

لیکن سارے لوگ ایسے نہیں تھے۔ کچھ لوگوں نے ضرورسعید کی مدد کی۔ انہیں میں سے  جنوبی کولکاتہ کی سرشٹی گھوش بھی ہیں جو کہ سعید کی روداد سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں اور انہوں نے پہلے  مہینہ کی  پوری تنخواہ اسپتال کو دینے کا فیصلہ کیا۔

سعید  نے بتایا کہ ” مجھےسرشٹی کی شکل میں میری کھوئی ہوئی بہن مل گئی۔ میری روداد سن کر سرشٹی اور ان کی امی نے میرا فون نمبر لیا اور بعد میں فون کرنے کا وعدہ کیا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ لوگ فون کریں گے لیکن جب وہ اپنی پہلی تنخواہ لے کر میرے پاس آئی تو میں بہت جذباتی ہوگیا۔”

جہاں عام لوگ ایک ایک اور دو دو کرکے سعید کی مدد کو آتے رہے اور اسپتال کے فنڈ میں اضافہ ہوتا رہاوہیں گھر پر سعید کی اہلیہ شمیمہ بھی  اپنے شوہر کے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے ہر طور پر کھڑی رہیں۔

سعید نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ سب کچھ قطعا ممکن نہیں تھا۔” جب میں نے اس کا م کا بیڑہ اٹھایا تو اس وقت میرے  قریبی لوگوں نے  مجھے پاگل  سمجھ کر کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن میری اہلیہ نے مجھے حوصلہ دیا اور اسپتال کی زمین کے لئے اپنے سارے گہنے دے دیئے۔

بالآخر فروری 2017 میں اسپتال مریضوں کے لیے شروع ہونے پر سعید کا خواب  عملا شرمندہ تعبیر ہوا۔ سعید کی نئی بہن سرشٹی کے ذریعہ اسپتال کا افتتاح کروایا گیا۔ تقریبا 11 کلومیٹر  کے دائرے میں  اس  اسپتال کے شروع ہونے سے مقامی لوگوں کا تاثر کافی اچھا ہے۔

اسپتال جاتے وقت ای رکشہ ڈرائیور  ساجول داس نے بتایا کہ  چاروں طرف اب اس اسپتال کے ہی چرچے ہیں اور لوگ  اس کے بارے میں بات کرتے نہیں تھکتے۔

اب اس اسپتال کو 50 بیڈ اور ضروری سہولیات جیسے ایکس رے اور ای سی جی سے لیس کرنے لئے کام جاری ہے۔

سعید نے بتایا کہ  “ابھی یہ دومنزلہ عمارت ہے لیکن ہمارا منصوبہ اس کو چار منزلہ کرنے کا ہے۔ اسپتال کے افتتاح کے دن ڈاکٹر صرف 286 مریضوں کا ہی علاج کرسکے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مریضوں کو  وسائل اور وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں دیکھا جاسکا۔ مجھے یقین ہے جب اسپتال پوری طرح چلنے لگے گا تو اس سے تقریبا 100 گاؤوں کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔

سعید کے اتنے بڑے خواب دیکھنے اور اس کو پورا کرنے کی  لگن سے بہت سارے لوگ متاثر ہوئے  ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی  نے من کی بات نامی قو م سے اپنے خطاب میں سعید کی تعریف کی ہے۔

40سالہ ٹیکسی ڈرائیور سعید کے مطابق وزیر اعظم مودی  کی تعریف سے انہیں کافی حوصلہ ملا اور انہیں یقین ہوگیاکہ وہ صحیح  سمت میں قدم بڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ  “وزیر اعظم کی تقریر کے بعد بہت سارے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا اور کچھ مقامی ٹھیکہ دارووں نے عمارت کا کام پور ا کرنے کے لیے ریت، اینٹ اور سیمنٹ مہیا کراکر میری مدد کی ۔ اس دوران چنئی کے ایک ڈاکٹر نے میرے اسپتال میں آکر مریضوں کا علاج کرنے کی خواہش کا اظہار کیاہے۔ “

انہوں نے بتایا کہ اس وقت 8ڈاکٹر اسپتال سے وابستہ ہیں اور وہ مفت میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔  حالاں کہ سعید کا ارادہ ہے کہ وہ بہت کم فیس پر اسپتال میں علاج مہیا کروائیں گے جوکہ اسپتال کے رکھ رکھاؤ کے خرچ کے لیے ضروری ہے۔

دھریش چودھری جو کہ شعبہ امراض ہڈی کے انچارج ہیں ، سعید کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ” اسپتال بنانا ایک بڑا کام ہے  اور سعید جیسے کم آمدنی والے شخص کے لیے تو ایسا سوچنا بھی محال  تھا  لیکن انہوں نے ایسا کردکھایا،ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔” ڈاکٹر دھریش کی  این جی او  بنچوری اسپتال کو طبی آلات فراہم کرتی ہے۔

لیکن سعید کا خواب محض ایک اسپتال بناکر پورا ہونے والا نہیں ہے۔

سعید نے کہا    کہ     ” اب ہمارے ساتھ بہت سارے لوگ ہیں اور اپنے خواب کو سچ کر دکھانے کے لئے آگے کی بھی سوچ سکتا ہوں۔ شاید میں ایک اسپتال بناکر نہیں رکوں گااور نئے خوابوں کی تلاش میں مزید آگے جاؤںگا۔”

(یہ مضمون آئی اے این ایس اور فرینک اسلام فاؤنڈیش کے اشتراک سے چلائے گئے  ایک خصوصی سلسلہ کا حصہ ہے۔   )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *