سوری پرنب دا!آپ البرٹ کامو نہیں بن سکے؟
نور اللہ جاوید
سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کا شمار ہندوستان کے ہوشمند، مو قع سناش اور بے باک سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔صرف دو مرتبہ پارلیمانی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے پرنب مکھرجی کو سابق وزیر اعظم نرسمہاراؤ کے بعد ہندوستانی سیاست کا چانکیہ کہا جاتا ہے۔ان کی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ہی آر ایس ایس نے اپنے ہیڈکوارٹر میںانہیں آنے کی دعوت دی۔50سال تک وہ جس سیاسی جماعت اور نظریہ سے وابستہ تھے اس کی خواہش تھی کہ پرنب مکھرجی نہ جائیں۔کانگریس کو اندیشہ تھا کہ پارلیمانی انتخابات بہت ہی قریب ہے ایسے میں ایک پرانے کانگریسی کا آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر جانا کانگریس کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے اور آر ایس ایس ا اس کا غلط استعمال کرسکتی ہے۔خود پرنب مکھرجی کی بیٹی ششمیتا مکھرجی جو کانگریس سے وابستہ ہیں نے بھی ٹوئیٹ کے ذریعہ اس خدشے کا اظہار کیا اور کہاکہ”ان کی تقریر کو فراموش کردیا جائے گا اورتصویریں باقی رہ جائیں گی اور اس کا غلط استعمال ہوگا“۔پرنب مکھرجی کو آر ایس ایس کے دفتر جانا چاہیے یا نہیں یہ بحث اب بے کار ہے۔مکھرجی وہاں گئے بھی اور ہیڈگوار کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہوئے وزیٹر بک میں لکھا کہ ”میں یہاں مادر وطن کے عظیم سپوت ہیڈ گوارکو خراج عقیدت پیش کرنے آیاہوں اور اس کے بعد انہوں نے آر ایس ایس کے کارکنان سے خطاب کیا۔ہندوستان کے تمام نیوز چینلوں پر اس پروگرا م کو لائیونشر کیا گیا۔ان کی تقریر پر ملک بھر کی نگاہیں مرکوز تھیں کہ پرنب دا آر ایس ایس کے نظریہ اور فکر کی تنقید کرتے ہیں یا پھر آر ایس ایس کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرتے ہیں؟پرنب مکھرجی نے اپنی نصف گھنٹے کی تقریر میں دونوں کام کیا۔ایک طرف وہ آر ایس ایس کے بانی کو مادر وطن کا عظیم سپوت قرار دے کر آر ایس ایس کو خوش اور اس کو قبولیت بحشنے کا موقع بھی فراہم کیا وہیں انہوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں راشٹر، راشٹروادی اور دیش بھگتی پر آر ایس ایس کو ہلکے پھلکے انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دیش بھگتی وہ نہیں ہے جسے آپ لوگ پھیلاتے ہیں۔اصل دیش بھگتی ہندوستان کے آئین پرعمل درآمد اور اس کااحترام ہے اور انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ آر ایس ایس کے منچ سے پنڈت نہرو جسے آر ایس ایس ذرہ برابر پسند نہیں کرتی ہے کے نظریات و فکرکی انہوں نے پرزور وکالت کی ہے اور ان کی تقریر میں نہرو کی کتاب ڈسکوری آف انڈیا کی صاف جھلک نظر آرہی ہے۔
پرنب مکھرجی نے اپنی تقریر کی شروعات میں کہا کہ ”میرے آنے کا مقصد ”راشٹر،راشٹرواد اور دیش بھگتی“ پر گفتگو کرنا ہے۔اور انہوں نے ملک کے موجودہ حالات اور آر ایس ایس اور اس کہ ہم نظریات جماعتوں کی حرکتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا کہ ”دھرم، نفرت اور بھید بھاؤ کی بنیاد پر ملک کی پہچان قائم کرنے کی کوششوں سے ہمارے ملک کی اصل شناخت کو نقصان پہنچے کا۔انہوں نے گاندھی جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بابو نے کہا تھا کہ راشٹرواد کبھی جذباتی اور بھید بھاؤوالا نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ہندوستان کا راشٹرواد سبھوں کے ساتھ چلنے والا ہی ہوگا۔پرنب مکھرجی کی تقریر میں ایک بات جو انہوں نے سیکولر ازم کے حوالہ سے کہی وہ شاید آر ایس ایس کو سب سے زیادہ ناگوار گزری ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سیکولرازم ہمارا عقیدہ ہے اور آئین کے مطابق ہی کام کرنا اصل میں دیش بھگتی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے ہندوتو کے کلچر کی پرزور وکالت کرنے والوں کے سامنے یہ کہا کہ”کمپوزٹ کلچر“ یعنی مشترکہ تہذیب و اقدار ہی ہماری اصل شناخت ہے اور ہمیں کوشش کرنا چاہیے ملک میں نفرت و غصہ کا ماحول ختم ہوناچاہیے اور پیار ومحبت کا ماحول قائم ہونا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ تاریخ پرنب مکھرجی کے ا س دورے کس نظریہ سے دیکھی گی،کیا پرنب مکھرجی کے اس دورے سے آر ایس ایس کی قبولیت کی راہ ہموار ہوگی یا پھر پرنب مکھرجی نے اپنی تقریر کے ذریعہ آر ایس ایس کے سامنے اس کے راشٹروادی نظریہ اور فکر پرسوال کھڑا کردیا ہے جس کی صفائی دینا آر ایس ایس کیلئے مشکل ہوگی۔پرنب مکھرجی اسی مقام پر کھڑے تھے جہاں 1940میں فرانس کا مشہور ادیب و فلسفی اور کمیونسٹ نظریہ کے حامل البرٹ کا مو ک کھڑے تھے جب انہیں ایک عیسائی گروپ نے تقریر کیلئے دعوت دی تھی۔البرٹ کامونے بھی عیسائی گروپ کی دعوت قبول کی اور ان کے سامنے اپنی بات رکھنے کا فیصلہ۔مگر دونوں میں بہت ہی فرق تھا؟ البرٹ کامو نے عیسائی گروپ سے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ”ہرنظریہ پر بات چیت ضروری ہے،لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ بات چیت ان کے درمیان ہونا چاہیے جو اپنے دل سے بات کرتے ہیں،اگر مذہب کے نام پر قتل ہوتا ہے تواس کو صحیح ٹھہرانے والا سب سے بڑا مذہب مخالف ہے اور وہ شخص انسان ہونے کا حق بھی کھودیتا ہے۔مگر پرنب مکھرجی کی تقریر میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ ملک میں قتل وغارت گری کرنے والوں سے انہوں نے دو ٹوک انداز سے بات کی ہے۔دراصل پرنب مکھرجی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ گاندھی نہیں ہیں کہ وہ آر ایس ایس سوال کریں۔ گاندھی جی کی جب گروگوالکر سے ملاقات ہوئی تو گاندھی یہ پوچھنے سے نہیں چوکے کہ آر ایس ایس کے لوگ قتل و فساد میں ملوث ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف کیوں ہے؟۔پرنب مکھرجی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پٹیل بھی نہیں ہیں۔پٹیل نے تو آر ایس ایس کو سربراہ کو بلاکر کہا کہ آپ نے وعدے کے باوجود اپنی سرگرمیوں سے باز نہیں آئے ہیں۔پرنب مکھرجی نے آر ایس ایس کے بانی ہیڈ کوارگر کو مادروطن کا عظیم سپوت کہہ کر ایک طرح سے آر ایس ایس جس کے نظریات اور فکر کو گاندھی جی نے رد کردیا۔جس کے خلاف سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کارروائی تھی کو سماجی اور ملکی سطح پر قبولیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔پرنب مکھرجی شاید یہ بھول گئے تھے جنہیں وہ مادر وطن کا عظیم سپوت کہہ رہے ہیں کے نظریات اور فکر گاندھی، نہرو اور سردار پٹیل کے فکر سے برعکس تھے۔ہیڈ گوار کا مسلمانوں سے متعلق کیا نظریہ جگ ظاہر ہے اور اسی نظریہ پر آر ایس ایس آج بھی کاربند ہیں۔اس کے باوجود پرنب دا نے انہیں عظیم سپوت قرار دیا۔اس کیلئے مکھرجی کو تاریخ کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔کیا کہ ملک کے باشندوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے لئے مہم چلانے والا شخص کیسے عظیم سپوت ہوسکتا ہے؟۔
پرنب مکھرجی کی تقریر کا سب سے تاریک پہلو مسلم حکمرانوں کیلئے حملہ آور اور قابض کا لفظ استعمال کرنا تھا۔جب کہ انگریزوں کیلئے انہوں نے ہلکے لفظ کا استعمال کیا۔مکھرجی نے مسلمانوں کے 600سالہ دور حکومت پر کوئی بات نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے”مسلم حملہ آور قابض“کا لفظ استعمال کرکے آرا یس ایس اور ہندتو کے حامیوں کے اس پروپیگنڈ ے کی تائید کی مسلمان ہندوستان لوٹنے اور حملہ کرنے کیلئے آئے تھے۔جب کہ یہ تاریخی حقائق کے برعکس ہیں۔اگر مسلمان حملہ آور قابض تھے تو مگدھ سے اڑیسہ پر حملہ کرنے والے اشوک کیا تھا۔گپت موریہ کیا تھے اور مراٹھا کیا کررہے تھے۔مسلم دور حکومت بھارت کی تاریخ کا روشن ترین دور تھا۔اس وقت ملک کی جی ڈی پی 25فیصد تک تھی۔مسلمانوں نے ہی بھارت جو ٹکروں میں تقسیم تھا کو متحد کیا۔ پرنب مکھرجی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی مسلم فوپیا کے شکار ہیں؟۔ دراصل انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد سے ہی مسلم دور حکومت کے 600سالہ تاریخ اور اس کے کانارمے کو فراموش کرنے کی مسلسل کی جاتی رہی ہے۔تاریخ کی کتابوں میں ضلع انگریز کو مارنے والے کھودی رام بوس کا ذکر ہے مگر وائسرائے کا قتل کرنے والے شیر علی تاریخ کی کتابوں سے غائب ہیں۔جلیاں نوالہ باغ کا ذکر بھی خوب ہوتا ہے مگر1930میں پشاور میں ”قصہ خوانی بازار“قتل عام کے ذکر کو بالکل فراموش کردیا گیا ہے۔اسی طرح پرنب مکھرجی نے اپنی تقریر میں ہندوستانی آئین کے خالق بابا امبیڈکی خدمات اور ہندوستان کے پسماندہ سماج بالخصوص دلتوں کو سماجی انصاف دلانے کی کوششوں کو یکسر فراموش کردیا۔انہوں نے اپنی تقریر میں دلتوں کی صورت حال پر بات نہیں کی؟۔انہوں نے یہ ضرور کہا کہ ہندوستان میں خوش رہنے والے ممالک کے انڈیکس میں بہت نیچے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اس کیلئے ذمہ دار کون ہیں؟ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر نہیں کیا کہ گؤ رکشا کے نام پر بے قصوروں کی جان کیوں لی جارہی ہے؟ جب کہ پرنب مکھرجی کیلئے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ آر ایس ایس سے سوال کرتے آخر وہ ہندوستان کے ترنگے کو کیوں نہیں تسلیم کرتے ہیں؟،ان کے لیڈران نہرو، گاندھی کی عزت و تکریم کیوں نہیں کرتے ہیں؟،گاندھی جی کے قاتلوں سے ان کا تعلق کیاہے؟بابری مسجدکو منہدم کرانا کیسی دیش بھگتی ہے؟ گرجا گھروں کو پر حملہ کرنا نیشنل ازم کیسے ہوسکتا ہے؟ ہندؤں کے اعلیٰ طبقات کے علاوہ پسماندہ طبقات، دلت اور غیر ہندؤں بالخصوص مسلمانوں کو سنگھ کے لیڈران دوسرے درجے کا شہری بنانے کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بات چیت ہونی چاہیے۔مگر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے گاندھی کی نہیں سنی، جنہوں نے پٹیل کے اعتماد کو توڑا۔جن لوگوں نے پنڈت جواہرلال نہرو جنہوں نے آر ایس ایس پر پابندی یہ جاننے کے باوجود آر ایس ایس کی سرگرمیاں ملک کیلئے گھاتک ہوسکتی ہے اور انہوں نے کہا بھی تھا کہ آر ایس ایس جو کچھ کررہی ہے وہ ملک کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔گرچہ ہندوستان میں دوبارہ کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے مگر آر ایس ایس کے ذریعہ جو نقصان پہنچے گا اس کی بھرپائی مشکل ہے۔۔سوال یہ ہے کہ کیاوہ پرنب مکھرجی کے سبق پر عمل کریں گے؟ پرنب مکھرجی تاریخ رقم کرنے میں چوک گئے اور وہ مصلحت کے شکار ہوگئے۔یقینا مستقبل میں ان کی تقریریں فراموش کردی جائیں گی اور تصویریں اور وزیٹربک پر لکھا ان کا تبصرہ باقی رہ جائے گا۔