کیا پرنب مکھرجی کا دورہ ناگپور جمہوریت کے لئے خطرناک ہے؟

پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے پروگرام میں
پرنب مکھرجی آر ایس ایس کے پروگرام میں

ترون باسو

ناگپور سے پرنب مکھر جی کی جو تصاویر موصول ہوئی ہیں ایک کانگریسی نیتا کے بقول انہیں  ہضم کرنا مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کی پوری زندگی سیکولرزم کے  رنگ میں رنگی رہی ہو، جس نے اپنی پوری زندگی کانگریس پارٹی میں گزاری  ہو اور پھر صدرجمہوریہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوا ہو جو کہ دستور کی بالادستی کو قائم رکھنے کا سب سے اعلیٰ منصب ہے وہ شخص آرایس ایس جیسی تنظیم اور اس کے اعلیٰ لیڈر کے ساتھ اسٹیج پر نظر آئے اور ان کی دعوت سے لطف اندوز ہو۔ ایسی تنظیم جو ان اقدار اور نظریات سے بالکل برعکس  کام کررہی ہو جس کے لئے پرنب مکھرجی نے اپنی عمر کھپائی اور اس کے لئے جدوجہد کرتے رہےہوں ۔

آر ایس ایس جیسی ہندو قوم پرست تنظیم جو کہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر قیادت برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی  یا بی جے پی کی نظریاتی  مشیر ہے کے ہیڈکوارٹر پر پرنب مکھرجی کی آمد کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعہ پر کانگریس کے ایک لیڈر کا سوال تھا کہ” آپ اس حکومت میں شامل تھے جس نے 1975 اور 1992 میں آرایس ایس پر پابندی لگائی   ۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ اس وقت آر ایس ایس میں کیا خرابی تھی  جو اب صالحیت اور نیکی میں تبدیل ہوگئی ہے۔”

کانگریس پارٹی کے کئی لیڈر بشمول پرنب مکھرجی کی بیٹی  نے ان کےایک ایسی تنظیم کی دعوت قبول کرنے پر بھی سوال کیا ہے جس کی پہچان بائیں بازو اور سیکولر نظام سے نفرت کرنے والی جماعت کے طور پر ہو۔ دیش کو ٹوٹ کر چاہنے والے ہی نہیں بلکہ دیش سے ادنیٰ ساتعلق رکھنے والے لوگ بھی نفرت  اور تعصب کی اس فضا کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا شروع کرچکے ہیں اور اقلیتوں پر منظم حملوں اور سماج کے کمزور طبقات پر ظلم وجبر کے لئے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے وابستہ دوسری تنظیموں کے نظریا ت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ کئی لوگوں نے اس بات کا برملا اظہا رکیا ہے کہ اگرنفرت کے  اس زہر کو پھیلنے کی چھوٹ دی گئی تو ایک کثیر المذہب، کثیر النسل اور تکثیری سماج والا ملک جس کے لیے یہ  ملک جانا جاتا ہے کا خاتمہ ہوجائے گا۔

ہندو قوم پرست تنظیم کے لوگوں کے ذریعہ مبینہ طور پرکم عمر بچیوں کے ساتھ تشددکے بعداپریل میں  ملک بھر میں چلائے گئے ہیش ٹیگ ناٹ ان مائی نیم  نامی مظاہرے کے دوران ایک ہینڈبل پر تحریر تھا کہ “آج ہم نفرت کی سیاست کا سامنا کررہے ہیں۔ مسلمان ایک حملے کے بعد اگلے حملے اور تشدد کے ڈر کے سایہ میں سوتے ہیں ۔ یہاں تک کی دلتوں اور آدی واسیوں کو دستور میں جو حقوق دئیے گئے ہیں ان پر بھی سوال کیا جارہا ہے۔”

بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور پولرائیزیشن کے اس ماحول میں بھی 83سالہ پرنب مکھرجی نے کابینہ اور کانگریس کے پرانے ساتھیوں کی اپیل کو نظر انداز کردیا ۔ پورے ملک میں نیشنل ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعہ راست طور پر نشر کی جانے والی اپنی تقریر میں پرنب نے کہا کہ “ہندوستان کی روح تکثیریت اور برداشت کرنے میں ہے اور سیکولرزم اور سب کی شراکت ہمارے لئے مذہب کی طرح  ہے۔”

انہوں نے آر ایس ایس  کی اس رینک اور فائل کویاددلایاجس نے ہندو تفوق  کے نظریہ کی تبلیغ کی اور جس کے بانی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو حملہ آور قراردیا۔دراصل مختلف تہذیوں، زبانوں اورمذاہب کا یہ سنگم ہی ہندوستان کو دنیا میں اسپشل بناتا ہے۔مذہب یا علاقے کی بنیاد  پر  قومیت کو طے کرنے، نفرت اور عدم برداشت  سےصرف اور صرف ہماری قومی شناخت کو نقصان پہنچے گا ۔

پرنب مکھرجی اپنی سیاسی زندگی میں جن اصولوں اور اقدار کے لئے جانے جاتے تھے ، کیا انہیں اب  انہوں نے چھوڑ دیا ہے؟ کیا ان کا ناگپور جانے کا فیصلہ غلط تھا؟ ان کی سو چ کی ایک جھلک ان کی تقریر میں دکھائی پڑتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غصے کا اس طرح اظہار قومی سالمیت کو تباہ کردے گا۔ انہوں نےکہا تھا کہ ” بات چیت نہ صرف دونوں طرف سے مقابلہ کو  متوازن کرنے کے لئے ضروری ہے بلکہ اس سے مصالحت کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ بات چیت کے ذریعہ ہی آپسی سمجھ بوجھ بڑھ سکتی ہے جس سے ہمارے پیچیدہ مسائل بلا کسی کشیدگی کے حل ہوسکتے ہیں ۔”

بات چیت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنےپر ہی جمہوریت کے پورے سسٹم کی بنیاد ہے اور ان کا خاتمہ جمہوریت کے لئے موت کی گھنٹی ہے۔ ہارورڈ کے مشہور پروفیسر سٹیون لیوسٹکی اور ڈینئل زبلات نے اپنی تصنیف “جمہوریت کیسے مرتی ہے” میں امریکی جمہوریت میں انتہا پسند تقسیم کے بارے میں گفتگو کی ہے جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ  کے دور حکومت میں سماجی تصورات اور عقائد کے ٹوٹنے  کی عکاسی کرتا ہے۔  یہ نہ صرف ریپبلکن اورڈیموکریٹک لیڈران کے مابین پالیسیوں میں بڑھتے اختلاف کے طورپر نظر آرہا ہے بلکہ پریشانی اور آزردگی کی ایک بڑی  وجہ  مذہبی اور نسلی اختلافات کا فروغ ہےاور یہ جمہوریت کی حفاظتی دیواروں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔

ہندوستان آج ایک ایسےدوراہے پر کھڑاہے، جس کہ شاید ملک کی 71سالہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ملک میں بحث و مباحثہ جس طرح سے دن بہ دن سخت ہوتا جارہاہے ۔ سوشل میڈیا پر اکژدو الگ الگ نظریات کے ماننے والوں اور نفرت پھیلانے والوں کے مابین ٹھن جاتی ہے ۔ اس سے جمہوریت دوست عام لوگ بطور خاص نوجوان جو کہ تبدیلی اور ترقی کے لئے بہت  بے چین ہیں  کو مایوسی ہوتی ہے۔

اب جب کہ ملک حالیہ تاریخ کے ایک نازک الیکشن کی جانب بڑھ رہا ہے نہ صرف سیاسی حریف بلکہ نظریاتی حریف اپنے اختلافات اور ہندوستانی ہونے کی خود ساختہ تعریف کے ساتھ ہر ایشو اور پالیسی کو جانب دارانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی گرمئی گفتار سے ہندوستان کےبنیادی اتحاد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔ اگر ہندوستان جیسی مثالی جمہوریت مذہب اور ذات برادری میں تقسیم ہوگئی تو جیسا کہ تجزیہ نگار کہتے ہیں اس کا تباہ کن اثر نہ صرف اس پورے خطے پر بلکہ پوری دنیا پر پڑے گا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پرنب مکھرجی  نے محسوس کیا کہ انہیں ملک میں چل رہےمباحثوں میں نظریاتی طور پر گہری ہوتی خلیج  کو پاٹنے کے لئے آگے آنا ہوگا اور لوگوں کو بات چیت کی میز پر آنے کے لئے اپیل کرنا ہوگا۔پتہ نہیں منجھے ہوئے چالاک سیاست داں نے ایسا آنے والے الیکشن کو تو سامنے رکھ کر نہیں کیا ہے ۔کیوں کہ  فرینکلن روسولٹ  کے مطابق سیاست میں کوئی چیز حادثاتی طور پر نہیں ہوتی، ہوسکتا اس کا فوری طور پر علم نہ ہولیکن اس دورے  کو ذاتی فائدے کے لئے قراردے کر ہدف تنقید بنانا اور اسے دھوکہ دہی قراردینا  بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ یہ بھی ان جمہوری اصولوں کے خلاف ہے جن کی وجہ سے ہندوستان کی پوری دنیا میں عزت ہے۔

دی اکنامسٹ میگزین نے اپنے ایک حالیہ  مضمون  جوکہ پیو گلوبل سروے پر مبنی ہے میں کہا ہے کہ”گرچہ ہندوستان کے سیاسی نظام میں بہت ساری گندگیاں ہیں لیکن اس کی حصولیابیاں اس سےکہیں زیادہ اور عظیم ہیں۔” اس سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ ہندوستانی لوگ دوسرے جمہوری ممالک جہاں یہ سروے کیا گیا  کی بہ نسبت جمہوریت کے بارے میں زیادہ پرجو ش نہیں ہیں بلکہ ان کا رجحان کسی مضبوط لیڈر یا فوجی حکومت کی طرف زیادہ ہے ۔

دی اکنامسٹ کے مطابق”جمہوریت  اس عظیم اور تقریباانتہائی متنوع ملک کو متحد رکھنے میں انتہائی معاون ہے۔ اسی کی دین ہے کہ  فوج حکومتی کام کاج سے الگ ہے اور ملک میں شہری آزادی کو باقی ہے ۔ درحقیقت ہندوستان اپنے لچکدار نظام کی وجہ سے ہی کئی پڑوسی ممالک کے لئے قابل حسد بنا ہوا ہے۔”

(مضمون نگار سوسائیٹی فار پالیسی اسٹڈیز کے صدر ہیں۔ ان سے ان کے ای میل tarun.basu@spsindia.in پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *