ہندوستان پوری دنیا میں جمہوریت کے لیے قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے

فرینک ایف اسلام
فرینک ایف اسلام

فرینک اسلام
21ویں صدی میں دنیا کے مختلف ممالک میں جمہوریت روبہ زوال ہے اور آمریت پروان چڑھ رہی ہے۔ یاشچامونک اور روبرٹو اسٹیفن فوا فارن افیئرس نامی میگزین کے مئی/ جون کے شمارے میں شائع اپنے مضمون ‘ جمہوری صدی کا اختتام ‘ میں اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔20 ویں صدی کے ایک بڑے حصے میں امریکہ بین الاقوامی طور پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے معاملہ میں ایک رہنما کا کردار ادا کرتا رہالیکن اب ٹرمپ کی صدارت کے دوران اس میں کئی نقص پیدا ہوگئے اور وہ اقدار ناپید ہوکر رہ گئی ہیں۔
“امریکہ فرسٹ” پر جنون کی حد تک زور دینے، اتحادی ممالک اور بین الاقوامی معاہدوں سے ہاتھ کھینچنیااورتجارتی کھینچا تانی کو بڑھاوا دینے کا نیتجہ صرف یہی ہوگا کہ امریکہ ہر طرف سے تنہا ہوجائے گا۔ اور ایسی صورت میں کوئی ملک قائدانہ کردار نہیں ادا کرسکتا۔
اگر جمہوریت اور اس کی طلب کے نام سے یہ صدی موسوم ہے تو پھر اس اہم خلا کو پر کیا جانا اس ملک کی پہچان بننا چاہیے۔ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ آئندہ سال 2019 کے عام انتخابات میں 900 ملین سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے جب کہ امریکہ جو کہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے میں محض 245ملین ووٹر ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان اپنا قائدانہ کردار اور جمہوری اقدار اوراصولوں کے لئے اپنی آواز بلند کرکے اس خلا کو پر کرسکتا ہے؟ یہاں پر ایسے کچھ اشارے موجود ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندوستان شاید اس کام کا اہل نہ ہوسکے۔
سال 2017 میں پیو ریسرچ سینٹر کے ذریعہ 38 ممالک میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت ایسے لوگ زیادہ ہیں جو ایسے مضبوط لیڈر کے حامی ہیں جو عدلیہ اور پارلیمنٹ کو جواب دہ نہ ہو۔ جن افراد پر یہ سرویمشتمل ہے ان میں سے 55 فیصد سمجھتے ہیں کہ مضبوط لیڈر حکومت کرنے کا سب سے زیادہ اہل ہے۔ صرف آٹھ فیصد لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ حکومت مکمل طور پر جمہوری نمائندگی پر مبنی ہو، 67 فیصد کا خیال تھا کہ مکمل نمائندگی پر مبنی جمہوریت کی ضرورت نہیں ہے اور 9 فیصد افراد غیر جمہوری حکومت کے قائل تھے جب کہ بقیہ کی اس معاملے میں کوئی رائے نہیں تھی۔
مونک اور فورا نے بھی اپنے مضمون میں یہ نہیں پایا کہ ہندوستان جمہوریت کے لئے کوئی سرگرم رول ادا کرنے جارہاہ ہے۔ انہوں نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں۔ جیسیلبرل ڈیموکریسی کا دفاع ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ نہیں ہے۔ کریمیا میں روس کے قبضے کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے دوران ہندوستان غیر حاضر رہا اور ہندوستان ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا ہے جو انٹرنیٹ پر قد غن لگانے کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔
لہذا ہندوستان کے لئے جمہوری رہنما بننے کے لحاظ یہ خبر اچھی نہیں ہے۔خوش آئند بات یہ ہے اس کے علی الرغم بھی کچھ اہم اشارے ملتے ہیں۔یہ اشارے دو ہیں۔ ایک یہ کی ہندوستانی جمہوریت کا جس انداز میں قیام عمل میں آیا دوسرے جس طرح اس جمہوریت نے 2014 کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔
یونیورسٹی آف حائفہ کے اسکالر اْرنت شانی نے اپنی کتاب
“How India Became Democratic: Citizenship and Making the Universal Franchise”
میں اس بات کاتفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز ہوا اور کس طرح مختلف النوع آبادی کو ووٹ دینے کے اختیار کے ذریعہ بااختیا ربنایا گیا۔ دی ہندو اخبارکی منی کپور نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات کو نوٹ کیا کہ ووٹر لسٹ بننے سے پہلے ہندوستان میں دستور مرتب ہوا جس کا شانی نے اس طرح ذکر کیا ہے کہ ہندوستانی ووٹر بننے سے پہلے شہری بنے۔ شروعاتی دور میں جمہوریت کے قیام کے حوالے سے آراء مختلف ہوسکتی ہیں لیکن اس بڑھتی ہوئی جمہوریت کو ایک کرشمہ ضرور قراردیا جاسکتا ہے۔
گرچہ 2014 کا الیکشن اور اس میں حصہ لینے کو کرشمہ نہیں قراردیا جاسکتالیکن اس کو ایک بڑا اور اہم کام ضرور کہا جاسکتا ہے۔ سوچیئے کہ اس الیکشن میں 100 ملین ووٹروں کا اندراج ہوا جوکہ 2009 کے الیکشن نے 15فیصد زیادہ تھا۔ یہ الیکشن کل 9دنوں میں مکمل ہوا اور الیکشن کے عمل میں کل 11لاکھ حکومتی اہلکار اور 93000 پولنگ مراکز پر 55لاکھ غیر حکومتی اہلکار اور 14 لاکھ ای وی ایم کا استعمال ہوا۔ پول ووٹ کاتناسب 66فیصد تھا جو کہ ہندوستان میں ماضی میں ہوئے تمام عام انتخابات سے زیادہ تھا۔
اس طرح کے دوسرے عوامل جیسے کہ اقتصادی ترقی وغیرہ کے ساتھ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان پوری دنیا میں جمہوری اقدار کا علمبرادار ہوکر ایک مرکزی کردار اداکرنے جارہا ہے۔ میں یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہندوستانی جمہوریت اپنے آپ میں بہر صورت مکمل او ر مثالی ہے۔ جو حل طلب مسائل ابھی موجود ہیں ان کا تصفیہ ایک بے مثال جمہوری قیادت کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔
میرے خیال میں ہندوستان کو قائدانہ کردار اداکرنے کے لئے تین اہم کام کرنے ہوں گے۔

٭ملک میں معاشی برابری اور سب کے لئے یکساں مواقع کے فروغ کے ایجنڈے پر تیزی سے کام شروع کیا جائے۔*
٭چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے لئے مؤثر تعلیم کا انتظام کیا جائے۔*
٭مکمل طور پر آزاد صحافت کو یقینی بنایا جائے۔*

پرانی کہاوت ہے کہ صبح صادق سے پہلے رات زیادہ تاریک ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں جمہوریت اپنے تاریک دور کی طرف جارہی ہے اور گذشتہ کچھ مہینوں میں جمہوریت کے لئے تاریکی اور بڑھی ہے اور ہم سب زیادہ تاریک وقت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
لیکن ہندوستان کے پاس وہ قوت ہے کہ وہ عالمی مشعل لے کر جمہوریت کے لئے امید کا چراغ جلائے۔ اگر ہندوستان کو اس قوت کا ادراک ہوگیا تویہ اکیسویں صدی میں جمہوریت کے لئے ایک نئی صبح لانے میں بہت معاون ہوگا۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *