Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

شادی سے پہلے لڑکے لڑکیوں کا گھل مل جانا

by | Jul 14, 2018

ریاض یوسف رنتیسی ٹرسٹ کے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہوئے  (تصویر : معیشت)

ریاض یوسف رنتیسی ٹرسٹ کے بچوں کو انگریزی پڑھاتے ہوئے (تصویر : معیشت)

تبسم ناڈکر

تبسم ناڈکر

سیدہ تبسم منظور ناڈکر۔ ممبئی

سب سے پہلے تو ہر لڑکے اور لڑکی کو چاہئے کہ اپنی شرم وحیا، عزت و آبرو کے چلمن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ورنہ بے حیائی پھیلنے میں وقت نہیں لگتا۔اور جب یہ طوفان آتا ہے تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے پھر پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ جب ایک لڑکے اور لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے تو ہر روز لڑکا لڑکی کا دن میں دو دو چار چار مرتبہ بات کرنا کیا ضروری ہے؟؟؟ اس سوشل میڈیا کی وجہ سے لڑکے میں اور نہ ہی لڑکی میں شرم وحیا باقی رہی ہے نہ کسی کا لحاظ ۔ انہوں نے اپنی ساری حدیں پار کر دی ہیں۔۔۔اور اس میں صرف لڑکی کا یا لڑکے کا قصور نہیں ہے بلکہ والدین بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں پر نظرثانی نہیں کرتے۔ اور کہیں کرتے بھی ہیں تو شاید یہ بچے اپنے والدین سے چھپ چھپا کر ایسے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔
جس وقت فون نہیں تھا۔۔۔ کچھ نہیں تھا۔۔۔بات نہیں ہوتی تھی تب بھی رشتے بنتے تھے اور نبھائے بھی جاتے تھے وہ بھی بہت ہی خوش اسلوبی عزت و احترام کے ساتھ۔۔۔۔ اس وقت لڑکا لڑکی نے ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا تھا۔جو بڑوں نے فیصلہ کر لیا بچوں نے مان لیا نہ کوئی شکایت ہوتی نہ کوئی سوال جواب ہوتا۔ چاہے لڑکا لڑکی کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں، اپنے بڑوں کے فیصلے پر سر خم کرلیتے۔ یہ وقت کوئی پچاس سال پرانا نہیں تھا جس کا ذکر کر رہے ہیں۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے تک بھی یہی حال تھا۔ جب گھروں میں صرف لینڈلائن ہوا کرتی ۔اس وقت اپنے بڑوں سے ان موضوع پر بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔لڑکی لڑکے کو اگر ایک دوسرے کی تصویر دکھائی بھی جاتی تو بڑوں کے سامنے دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی ۔لڑکی کے لئے شوہر مجازی خدا کی حیثیت رکھتا۔سارے رشتوں کو ایک ڈوری میں پرویا جاتا۔۔۔۔نہ شوہر کے نا ساس سسر کے نا کسی بڑے بزرگ کے سامنے بولنے کی جرات ہوتی۔اور ایسی نیک بیویاں ہوتی جو اپنے شوہر سے اپنی ذات کے بارے میں اور اس کی ذات کے بارے میں اس کے مال کے بارے میں کبھی خیانت نہیں کرتی تھیں۔ ان کےراز کو کسی پر ظاہر نہ کرتیں۔ دونوں ایک دوسرے کو غلطیوں، کمیوں، خامیوں اور اچھائیوں کے ساتھ اپناتے تھے۔ایک دوسرے غلطیوں پر پردہ پوشی کی جاتی۔ اپنے شوہر کی مان اور عزت کی خاطر بیوی خود کئی قربانیاں دیتی۔اپنے شوہر کو بادشاہ سمجھتی تھیں اور ان کی رانی بن کر راج کرتی تھیں ۔
پر آج کا دور اس سے بالکل مختلف ہے۔زیادہ تر شادیاں تو محبت کا نتیجہ ہی ہوتی ہے۔سو میں سے دس شادیاں ارینج میریج کہلاتی ہیں۔محبت کی شادی میں تو مسلسل فون، گھومنا پھرنا ،ملنا جلنا ہوتا ہے۔ان کے درمیان کوئی چیز، شرم وحیا کچھ بھی باقی نہیں رہتی۔ واہ کیا محبت ہے!!! سب سے پہلے تو شادی سے پہلے کی محبت جائز ہی نہیں۔ ان ساری خرابیوں سے صرف لڑکا یا لڑکی ہی نہیں بلکہ نسلیں تباہ ہو رہی ہیں۔اور پھر کہا جاتا ہے محبت ہی تو کی ہے کوئی گناہ تو نہیں کیا نا ؟؟ یہ محبت کچھ ہی دنوں کی ملاقات و گفتگو بعد میں سر پر چڑھ کر ناچنے لگتی ہے۔ نا دونوں میں لحاظ، عزت و احترام باقی رہتا ہے۔ اور پھر آئے دن جھگڑے تو تو میں میں شروع ہوجاتی ہے۔ اگر والدین رشتہ طے کر لیں تو بھی رشتہ ہوتے ہی یہی حال ہوجاتا ہے۔ بڑوں کا لحاظ کیے بغیر ہی روزانہ کئی کئی مرتبہ فون کیے جاتے ہیں۔ اور اگر رشتے داری میں کوئی منع بھی کرے تو اس سے کہا جاتا کہ اگر لڑکا لڑکی گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں تو آپ کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟؟ نا لڑکے کے اور نا ہی لڑکی کے والدین اس پر اعتراض کرتے ہیں نا روکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں آپس میں اتنا گھل مل جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کی عادتیں۔۔ خامیاں۔۔۔ کمیاں پتہ چل جاتی ہیں۔کیا کماتا ہے۔کون رشتے دار ہیں۔۔اس لڑکی کو کس حال میں رکھ سکتا ہے، کون کون گھر میں آتا جاتا ہے، کہاں آنا جانا ہے۔ اتنی گفتگو ہوتی ہیں کہ پورے مستقبل کی منصوبہ بندی ہوجاتی ہے۔ ہنسی مذاق بھی خوب ہوتا اور پھر باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اس میں اگر لڑکی لڑکے سے زیادہ پڑھی لکھی ہو اور نوکری کرنے والی ہو تو پھر اس کا رویہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے ہی دونوں میں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ایک دوسرے پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں ۔باتیں گھر کے بڑوں تک پہنچ جاتی۔ یہاں تک کے فرقت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رشتہ جڑا نہیں تو ٹوٹنے کی کگار پر آجاتا ہے۔اس میں دونوں ذمے دار ہوتے ہیں اور ساتھ میں والدین بھی۔ آج کل کی لڑکیاں شوہر کو مجازی خدا سمجھنے کی بات تو دور کی ہےانہیں نوکر سمجھتی ہیں اور خود نوکر کی بیوی یعنی نوکرانی کہلاتی ہیں۔ ایسے رشتوں میں عزت احترام نہیں ہوتا۔آج کے بچوں میں قوت برداشت نہیں ہے۔۔۔انہیں سب کچھ تیار چاہے۔۔۔۔کسی کی بات سننی نہیں ہے۔۔۔۔۔شادی ہوئی نہیں۔۔۔دہلیز چڑھی نہیں کہ الگ رہنا چاہتے ہیں۔جتنا قصور لڑکی کا ہوتا ہے اتنا ہی لڑکے کا بھی ہوتاہے۔لڑکا چکنی چپڑی باتیں کرکے پہلے لڑکی کو سر پہ بیٹھا لیتا ہے۔ سب سے پہلے ایک لڑکی کو اپنے سسرال والوں کو تہہ دل سے اپنا کر ان کی خدمت کرکے خوش اخلاقی سے سب کے دلوں کو جیتنا ہوتا ہے۔ شوہر کو محبت سے اپنا بنانا ہوتا ہے۔چندن کو جب پتھر پر گھستے ہیں تب جاکر اس سے خوشبو نکلتی ہے۔اسی طرح ایک عورت اپنے گھر پریوار کے لئے اپنے آپ کو قربان کرتی ہے تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اپنے لئے ایک مقام پیدا کرتی ہے۔ ایک عورت گھر کو جنت بھی بناتی ہے اور جہنم بھی بناتی ہے۔ ہر لڑکا اور لڑکی کو چاہئے کے شادی سے پہلے گفتگو نہ کی جائے ۔اس سے رشتہ بننے سے پہلے ہی بگڑ جاتا ہےاور دونوں کے دلوں میں عزت واحترام رہتا نہ پیار۔اور والدین کو بھی اپنے بچوں کو سمجھانا چاہئے۔
شادی وہ پاکیزہ رشتہ ہے جس کی وجہ سے آپ کسی کے ساتھ دل سے، خوشی سے نکاح کے پاک بندھن میں بندھ جا تے ہیں۔ یہ ایسا مقدس رشتہ ہے جس کو اللہ تعالی طے کرتا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ بہت ہی مضبوط ہوتا ہے ۔اس کے باوجود بعض لوگوں کی ازدواجی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ دونوں اسے اپنے اپنے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان کئی مسائل پر اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد تو سمجھ میں بھی آئے آج کل تو یہ ساری باتیں شادی سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں ۔شادی سے پہلے کے تعلقات اور بھی نازک ہوتے ہیں۔فون پر ہر روز دن میں کئی کئی بار گفتگو کرکے اپنے رشتے میں اختلافات پیدا کرتے ہیں دونوں میں ہم آہنگی نہیں رہتی ایک دوسرے کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔دونوں کو ایک دوسرے کی شخصیت کا احترام کرنا چاہیے۔ آج جو دور ہے وہ سوشل میڈیا کا ہے ۔ساری سہولتیں فراہم ہوتی ہیں ۔ایسے میں لڑکا لڑکی کو چاہئے کہ اپنی حدود میں رہ کر محدود طریقے سے گفتگو کریں۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...