
فروخت شدہ کپڑے کو شکایت کی بنیاد پر واپس لے لیتے ہیں گلاب پارک کے قیصر بھائی

دانش ریاض برائے معیشت
(معیشت نیوز )مہاراشٹر کے ضلع تھانے میں واقع ممبرا کا گلاب پارک بازار اب قرب و جوار میں شہرت کا باعث بن گیا ہے کہ یہاں سستے سے سستا اور مہنگے سے مہنگا سامان ملتا ہے۔اجڑنے اور بسنے کی داستان سموئے مذکورہ بازار جہاں علاقے کے لوگوں کے لئے ٹریفک کا باعث قرار پاتا ہے وہیں غریب و متوسط طبقہ کے لئے کسی آسمانی تحفہ سے کم نہیں۔کہتے ہیں ۱۹۹۰ کے بعد جب فسادات نے ممبئی و اطراف کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا تھااس وقت ممبرا میں ہی عافیت محسوس ہوئی تھی اور پھر لٹے پٹے لوگوں نے اپنا کاروبار مملکت چلاناشروع کیا اور پھر پہاڑی اور کھاڑی کے بیچ بسا صاف ستھرا علاقہ گنجان آبادی میں تبدیل ہوتاگیا۔
تقریباً بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ممبرا و کوسہ کا واحد بازار اب گلاب پارک بازار ہی ہے جہاںرات گئے تھے خریداروں کا ازدہام رہتا ہے جس میں خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔اسی گلاب پارک بازار میں نیشنل میچنگ سینٹر کے مالک وسیم احمد عرف قیصر بھائی اپنی کپڑے کی دکان چلاتے ہیں جہاں یہ بورڈ نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے کہ ’’فروخت شدہ کپڑے کو شکایت کی بنیاد پر واپس لے لیا جائے گا اور رقم واپس کردی جائے گی‘‘۔
قیصر بھائی معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’یہ ۱۹۹۰ سے قبل کی بات ہے جب ہمارا پورا خاندان کرلا میں مقیم تھا اور چوڑیوں کے کاروبار میں ہماری شرکت تھی ۔کاروبار تو اچھا چل رہا تھا لیکن جہاں ہم مقیم تھے وہ جگہ انتہائی تنگ تھی ۔لہذا سستے اور کشادہ جگہ کی خواہش ہمیں ممبرا لے آئی اور ہم نے پینتیس ہزار میں ایک کشادہ فلیٹ خرید لیا۔جب رہاش ممبرا میں اختیار کر لی تو کاروبار بھی ممبرا میں ہی کرنے کی خواہش ہوئی لہذا ہم نے کپڑے کے کاروبار میں شمولیت اختیار کرلی۔‘‘
گلاب پارک بازار کے بارے میں معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’گلاب پارک بازار بھی ۱۹۸۰ اور۹۰ کی دہائی کی پیداوار ہے جب چھوٹی چھوٹی دکانیں یہاں کھلنے لگیں اور لوگ خریداری کے لئے اس طرف کا رخ کرنے لگے۔اب تو حالت یہ ہے کہ کلیان،امبرناتھ،ٹٹوالا تک کے غیر مسلم اس مارکیٹ میں آتے ہیں اور بڑی تعداد میں خریداری کرکےجاتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تیس روپئے سے ہزار دو ہزار تک کی قیمت کا اگر کپڑا دستیاب ہے تو ۱۵۰روپئے کے سوٹ سے لے کر ہزاروں روپیوں تک کا سوٹ بھی میسر ہے ۔ناپ تول میں بھی لوگوں کا بھروسہ ہے لہذا گلاب پارک بازار کی اہمیت ابھی قائم ہے‘‘۔
کپڑوں کی خریداری پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’سوتی اور کاٹن کا مال ہم احمد آباد سے لاتے ہیں جبکہ سینتھیٹک کا مال سورت سے خریدتے ہیںجینٹس کے کپڑے چونکہ ممبئی میں ہی سستے مل جاتے ہیں لہذا یہ مال ممبئی سے آجاتا ہے‘‘۔
ہول سیل کاروبار میں مسلمانوں کی شمولیت بالکل نہ کے برابر ہونے کی بات درست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’’ایک فیصد سے بھی کم مسلمان ہول سیل کے کاروبار میں ہیں۔زیادہ تعداد ریٹیلر کی ہی ہے کیونکہ اس میں رسک کم ہوتا ہے اور کم پونجی میں ہی کام چل جاتا ہے جبکہ اہم بات یہ ہے کہ نئے کام کے لئے مسلمان ہمت نہیں جٹا پاتےلہذا جو چل رہا ہے اسی پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں‘‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گجرات میں مسلم تاجروں کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’گجرات کےغیر مسلم تاجر ممبئی کے مسلم تاجروں پر بہت بھروسہ کرتے ہیں دراصل ان کے ذہن میں آج بھی ایک بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مسلمان جب حج کرنے جاتا ہے تو تمام لوگوں کے بقایاجات ادا کرکے جاتا ہے لہذا اکثر یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ’’اگر مسلمان حج کرنے جائے گا تو میرا بقایا ضرور ادا کرکے جائے گا‘‘۔چونکہ مسلمانوں میں قوت فروخت زیادہ ہے ۔بیوپاریوں سے جہاں وہ زیادہ مال لیتے ہیں وہیں اچھا منافع بھی دیتے ہیں چونکہ زیادہ مال لیتے ہیں اور مسلسل لیتے ہیں لہذا ایک بھروسہ بھی قائم ہوجاتا ہے ۔رقم کی ادائیگی میں بھی پابندی کرتے ہیں لہذا ان تمام وجوہات کی بنیاد پر گجراتی ہندو ممبئی کے مسلمانوں سے دھندہ کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘
اپنی دکان میں خرید و فروخت پر گفتگو کرتے ہوئے قیصر بھائی کہتے ہیں’’عموماً خریداری کے بعد گھر جاکر اگر کسی کو کپڑا پسند نہیں آیا تو لوگ اسے واپس نہیں کرتے اگر کہیںواپس کرتے بھی ہیں تو اسی قیمت کی دوسری چیز خریدنے کو کہتے ہیں لیکن میرے یہاں کا اصول یہ ہے کہ اگر گھر جاکر کوئی چیز پسند نہیں آئی تو آپ آجائیں ہم فوری طور پر قیمت واپس کردیں گے۔وقت کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے کہ کس وقت آئیں اور کس وقت نہ آئیں یہ کوئی سوال نہیں ہے ہاں البتہ دس ہزار سے زیادہ کی رقم کا کپڑا ہو تو دوپہر بعد آئیں کہ ہم رقم کا انتظام کرسکیں‘‘۔