یونیورسل بیسک انکم ایک مناسب اسکیم

فرینک ایف اسلام
فرینک ایف اسلام

فرینک اسلام
الیکشن کے سال میں یونیورسل بیسک انکم یعنی عالمی سطح پر منظورشدہ بنیادی آمدنی کا تصور ایک سیاسی فٹ بال بن چکا ہے۔ حزب مخالف کانگریس پورے ملک میں غریبوں کے لیے کم ازکم آمدنی کا وعدہ کررہی ہیتو وہیں وزیر اعظم مودی کی حکومت نے غریب کسانوں کے لیے بنیادی آمدنی کا وعدہ کیا۔ اس انتہائی اہم اور سنجیدہ ایشو پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایک آزاد کمیشن کے ذریعہ غیر جانبدارانہ طورپر اس بات کا تخمینہ لگایا جانا چاہیے کہ کس طرح کی یو بی آئی ہندوستانی اور باشندوں کا کیسے مستقبل سنوار سکتی ہے۔
اس تخمینہ میں یو بی آئی کا تصور،اس کی بڑھتی مقبولیت کی وجوہات، دوسرے مقامات پر اس کے نفاذ اور اسے پیدا شدہ نتائج کا تجزیہ ، پروجیکٹ پر لاگت اور منافع اور ہندوستان میں اس طرح کے پروجکٹ کے نفاذ کی عملی صورتیں وغیر ہ عناصر کا تجزیہ شامل ہونا چاہیے۔
خوش قسمتی سے اس طرح کے تخمینہ کے لیے بہت سارا مواد پہلے سے ہی موجود ہے۔ مثلا: بین الاقوامی ادارہ ہے بیسک انکم ارتھ نیٹ ورک( BIEN) جو یو بی آئی سے متعلق افراد اور تنظیموں پر مشتمل ہیکے ذریعہ کی گئی تحقیات،ہندوستان کی وزرت خزانہ کے ذریعہ کیا گیا 2016-2017 کا اکنامک سروے اورفروری 2018 میں کارنیگی انڈیا کے ذریعہ شائع کی گئی کتاب India’s Universal Basic Income: Bedeviled by the Details
BIEN کے مطابق ” ایک مخصوص دورانیہ میں بغیر کسی شرط ، امتحان اور کام کے کسی بھی فرد کو دی جانے والی رقم” یونیورسل بیسک انکم یا یوبی آئی کہلاتی ہے۔ اس میں اہم نقطہ یہ ہے کہ اس میں کام کرنا ضروری نہیں ہے۔
یو بی آئی پر موجودہ بحث اصلا سال 2016-2017 کے اکنامک سروے سے شروع ہوئی جس میں اس موضوع پر پورا ایک باب رقم ہے۔سروے کے مطابق ہندوستان میں غریبی کیحوالے سے موجودہ نقطہ نظراور سرگرمیاں غیر مؤثر ہیں اور اس سے متعلق فلاح وبہبود کی اسکیمیں اپنے ڈیزائن اور ہدف کے حوالے سیاچھی نہیں ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ ان اسکیموں کو یو بی آئی سے بدل دینا چاہیے اور اس کو تین بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ عالمگیریت، غیر مشروطیت اور ذرائع (ایجنسی)۔
سروے کے مطابق تقریبا 75فیصد ہندوستانیوں کو سالانہ فی کس 7620 روپیہ کی ادائیگی سے شرح غربت محض ایک فیصد رہ جائیگی۔ سروے کے مطابق اگر موجودہ ساری اسکیمیں اور پروجکٹ کو اس میں ضم کردیا جائے تو یو بی آئی کی کل لاگت ہندوستان کی سالانہ جی ڈی پی کا 4.9 فیصد ہوگی۔
سروے میں یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں یوبی آئی کی ساخت دوسر ے ملکوںجیسی ہی ہونی چاہیے بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہات سییہ مشورہ دیاگیا ہے کہ ہندوستان کے معاشی لحاظ سے اوپر سے 25 فیصد کو اس آمدنی سے کچھ نہ دیا جائے۔
یوبی آئی سے پروجکٹ اور نقد کی ادائیگی کے بہت سارے پروگرام کے ذریعہ کم آمدنی والے ممالک سے اچھے نتیجے سامنیآرہے ہیں۔مزید یہ کہ کینڈا، نیدرلینڈ اور فن لینڈ جیسے ترقی پذیر ممالک نے بھی اس اسکیم کا تجربہ کیا ہے۔
فن لینڈمیں یہ تجربہ جنوری 2017 اور دسمبر 2018 کے دوران کیا گیاجس میں تقریبا 2000 بے روزگار شہریوں کو باقاعدہ ماہانہ رقم دی گئی اور ملازمت ملنیکے بعد بھی اس میں کمی نہیں کی گئی۔ ابتدائی تحقیقات جو کہ اس سال فروری میں منظر عام پر آئی میں کہا گیا گیا ہے جن لوگوں پر یہ تجربہ کیا گیاانہیں زیادہ ملازمت نہیں ملی بہ نسبت کنٹرول گروپ کے لیکن ان تما م لوگوں کی حالت دن بہ دن بہتر ہونے لگی۔ ان تمام حقائق کے باوجود بھی فن لینڈاس اسکیم کو قومی سطح پر ابھی نافذ نہیں کررہا ہے۔
ہندوستان نے یو بی آئی کا ایک چھوٹا سا تجربہ مدھیہ پردیش میں کیا تھا۔ اس تحقیق کو یونیسف نے فنڈ دیا تھا اور سیوا (Self-Employed Women’s Association) نامی تنظیم نے اس میں کورآرڈی نیٹر کا کردار ادا کیا تھا۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کو نقد رقم ملی تھی انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ ان کو سبسڈی ملیاور ان کے مقابل میں جتنے دوسرے گروپ تھے ان کے مقابلے میں ان کی کارکردگی کافی اچھی رہی۔ اگر سکم جیسی چھوٹی ریاست سال 2022 تک اعلان کے مطابق یو بی آئی کا سارے شہریوں پر نفاذ کرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں ہندوستان کا سب سے بڑا یو بی آئی کا پروجکٹ ہوگا۔
یو بی آئی کے بارے کافی کچھ معلومات پہلے سے ہی موجود ہیں اور لوگ اس سے واقف بھی ہیں لیکن اس بارے میں اپنے علم کو مزید وسعت دینے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یو بی آئی کا بڑے پیمانے پر نفاذ ایک نظریاتی معاملہ ہے نہ کہ ایک عملی حقیقت۔ لہذا اس سے کسی بڑی تبدیلی کی امید باندھنا قبل ازوقت ہوگا جو ان چاہے انجام یا ناپسندیدہ نتائج پر منتج ہو۔اس کا صحیح طریقہ جیسا کہ کارنیگی انڈیا نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہیکہ یہ ” بہت سارے بڑے تجرباتی جائزہ اور احتساب پر منحصر ہے۔” گارنیگی نے مزید بتایا کہ” اس طرح کے تجربات سییو بی آئی پر چل رہی بحث وتمحیص کے لیے بہت سارے عملی ثبوت ملیں گے اور ہندوستان کیعوامی فلاح و بہبود کے پروگرام کی غیر مشروط تبدیلی میں سب سے زیادہ موثر کردار واضح کرتے ہیں۔ ”
جیسا کہ کہا گیا کہ “عظیم تخیلات کے لیے پروں کے ساتھ ساتھ نیچے اترنے والے پہیوں کی بھی ضرورت ہوتی۔” میرا ماننا ہے کہ یوبی آئی ایک عظیم خیال ہے۔اس پر اگر سیاست نہ کی جائے اور ایک غیر جانبدار کمیشن کو اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ تحقیق کرکے اپنی سفارشات کو اس کیلیے ضروری اسباب کیساتھ سامنے رکھے تب جاکر کہیں ہندوستان کے لیڈر اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ یو بی آئی پالیسی شروع ہو اور اپنا کردار ادا کرے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ffislam@verizon.net)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *